مکرمی !ہنستی ہنساتی۔۔۔کھلکھلاتی۔۔۔۔ دس سالہ معصوم پری کو جب گھر کے باہر سے اغوا کر کے ، اس کی عصمت کو داغ دار کر کے ، اسے کسی ویران جنگل میں بے دردی سے قتل کرکے برہنہ حالت میں پھینکا گیا تو زمین و آسمان چلا اٹھے اور درد سے کہنے لگے کہ اے انسان ! تو۔۔۔تو حیوان سے بھی بدتر ہے ۔تو انسان کہلانے کے لائق نہیں۔تو ہوس کا پجاری ہے۔ تو ننھی کلیوں کا قاتل ہے۔تو اپنے انجام سے بے خبر گناہوں کے سمندر میں غرق ہوچکا ہے۔تو معاشرے کا ایسا گندا کیڑا ہے جسے مار کر ہی دوسرے بشر عزت کی زندگی بسر کر سکتے ہیں۔ تو فسادی ہے۔ تیری غیرت مر چکی ہے۔ تجھے کیا علم نہیں کہ جو جہنم کی آگ کو تیار کیا گیا ہے وہ تیرے جیسے ہی جانور نما آدمیوں اور ان سب لوگوں کا ٹھکانہ ہے جو مظلوم اور معصوم لوگوں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کرتے ہیں۔ کیا تجھے معلوم نہیں کہ مظلوم کی آہ عرش ہلا دیتی ہے ؟ تو ، کیسے غافل ہوگیا ؟ کیسے بہک گیا ؟ کیا تو بھول گیا کہ تجھے جننے والی ماں بھی ایک عورت ہے اور تیرے لاڈ اٹھانے والی تیری بہن بھی ایک عورت ہے۔ تو نے ایک کلی کو مسل دیا اور اب تو سمجھتا ہے کہ تو آزاد ہے، تجھے کوئی ڈھونڈ نہیں پائے گا۔۔۔۔افسوس صد افسوس! تجھے شیطان نے بہکا دیا، تیرا ضمیر بھی مر چکا ہے ، اب تو مکافات عمل سے کیسے بچے گا ؟ ہاں ’’مکافات عمل‘‘ تیرا موت کے سائے کی طرح پیچھا کر رہا ہے۔ بھاگ لے جہاں تک ہوسکتا ہے بھاگ لے مگر کوئی فائدہ نہیں کیونکہ کیا تم اپنے انجام سے ناواقف ہو؟؟؟… تمہارا انجام عبرت ناک ہوگا۔ تمہاری دنیا و آخرت دونوں تباہی کا منہ دیکھے گی۔اب تم کبھی سکون سے نہیں رہ سکو گے جب تک کہ تم موت کی وادی میں نہیں چلے جاتے قبر میں بھی دردناک عذاب تجھ جیسے ہزاروں لوگوں کی راہ تک رہا ہے۔ (طیبہ ثنائ، جہلم )