1444ہجری کے رمضان المبارک کا دوسرا عشرہ شروع ہونے کو ہے۔ حضور اقدس ﷺ اِس بابرکت ماہ میں اپنی عبادات میں بہت زیادہ اضافہ کر دیا کرتے تھے۔ اہل ثروت اِس ماہ میں زیادہ سے زیادہ سخاوت کر کے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرتے ہیں ۔چونکہ ماہ رمضان میں زیادہ تر لوگ زکوۃ اور صدقات دیتے ہیں لیکن افسوس کہ بڑے امیر لوگ آج بھی زکوۃ دینے سے گھبراتے ہیں بلکہ زیادہ ترا میر لوگ اپنے گھروں میں کام کرنیو الی نو کرانیوں کو کچھ رقم دے کر اپنی جان چھیڑاتے ہیں چونکہ جو لوگ نماز ادا نہیں کرتے وہ زکوٰۃ بھی نہیں دیتے ظاہری بات ہے کہ جن کو نماز کی فکر نہیں ہوتی وہ زکوۃ کیسے ادا کریں گے۔ نماز اور زکوٰۃ چونکہ دونوں فرائض میں شامل ہیں اس لیے جو امیر لوگ اپنی دولت کی مستی میں مست ہوتے ہیں وہ نہ توا للہ کے سامنے جھکنا جانتے ہیں اور نہ ہی زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمارے ملک میں زیادہ زکوٰۃ اور صدقات متوسط سفید پوش طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ ہی اداکرتے ہیں ۔ویسے تو سارا بوجھ ہی انہی سفید پوش طبقے پر پڑ رہا ہے ۔بے انتہا مہنگائی سے بھی یہی طبقہ متاثر ہو رہا ہے کیونکہ امیر تر طبقے کو تو مخدوم احمد محمود کی طرح یہ کہتے سنا گیا ہے کہ اگر میرے بس میں ہو تو پیٹرول پانچ سو روپے لیٹر کر دوں اور دو سو یونٹ سے اوپر بجلی استعمال کرنے والوں کے لیے بجلی ایک سو روپے یونٹ کر دوں۔ یہ ہے ہمارے ملک کے جا گیردار اور سرمایہ دارطبقہ کی سوچ اصل میں مخدوم احمد محمود پیدائشی طور پر سونے کا چمچہ منہ میں لے کر آئے ہیں۔ اُن کے آباؤ اجداد کو بڑی بڑی جا گیریں ملی تھیں اور یہ جا گیریں آج تک اِن کے پاس موجود ہیں۔ اب اِن کو کیا پروا یہ کبھی غربت کی گرم ہوا سے گزرے ہوں تو اِن کو معلوم ہو کہ مہنگائی کیا چیز ہوا کرتی ہے وطن عزیز میں آج سب سے زیادہ متاثر سفید پوش طبقہ ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کے احکامات اور حقوق العباد بھی بھرپور ادا کرتا ہے اور ٹیکس بھی دیتا ہے لیکن افسوس کہ ہمارے حکمران اِس سفید پوش طبقے کے بارے میں کچھ بھی نہیں سوچ رہے ۔اب پیٹرول کے نام پر جو ڈرامہ رچایا جا رہا ہے کہ کچھ لوگوں کو تو ایک سو روپے سستا پیٹرول اور دوسرے لوگوں کے لیے پچاس روپے مزید مہنگا یہ کہاں کا انصاف ہے۔ خدارا اِس قسم کے ڈرامے بند کیے جائیں قوم کو بے وقوف مت بنایا جائے یہ انصاف نہیں ظلم ہے انصاف سب کے لیے ہوتا ہے۔ انہی بے انصافیوں کی وجہ سے تو قدرت ہم سے ناراض ہو چکی ہے۔ ماہ رمضان کی آمد سے ایک دن قبل 21 فروری کی رات ساڑھے نو بجے جو پورے ملک میں زلزے آیا ۔یہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے پوری قوم کوو ارننگ مل رہی ہے کہ انسان بن جاؤ ہم نے کبھی اپنا جائزہ لیا ہے کہ ہم کس راہ پر چل رہے ہیں ہر طبقہ اپنی من مانیاں کر رہا ہے ۔گدی نشین لوگوں نے ایسی ایسی خرافات گھڑلی ہیں کہ خدا کی پناہ ہرچیزکو جائز سمجھ کر کیا جا رہا ہے ۔عورتیں اور مرد اکٹھے ڈھول پر ناچ رہے ہیں اور ہزاروں روپے اُن پر نچھاورکئے جا رہے ہیں۔ مولوی صاحب جب اپنی تقریر شروع کرتے ہیں تو اُن پر لاکھوں روپے کے نوٹ نچھاور کئے جاتے ہیں رزق کی توہین کھل کر کی جا رہی ہے اور ہم خوش ہیں شادی ہو یا غمی کی محفل ہر شخص اپنی طرف سے جواز بناکر اپنی مرضی کر رہا ہے ملک میں ہ خرافات اور بے ہودگی پورے عروج پر ہے ۔ اور ہم میں قوت برداشت تو ہے ہی نہیں، اِک ذرا کسی شخص کی غلط حرکات اور غیر شرعی کاموں کے بارے میں اُسے روک کر دکھائیں ۔فوراً وہ آپ کی گردن اُڑانے کے لیے تیار ہو جائے گا یہ توا للہ تعالیٰ کا ہمارے ملک اور قوم پر ابھی تک کرم اور رحمت ہے کہ ہم اُس کے عذاب سے بچے ہوئے ہیں وگرنہ ہمارے کرتو ت سب کے سامنے ہیں۔ ہر غلط کام اور برائی کے نام میںمبتلا ہو چکے ہیں ہمارا معاشرہ اور ہماری نوجوان نسل کو اِس کا احسا س ہی نہیں کہ ہم کتنی تیزی کے ساتھ تباہی کی جانب بڑھ رہے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا پاکیزہ مہینہ ہے ہر صحت مند مسلمان پر روزہ فرض ہے لیکن افسوس کہ ہمارے معاشرے میں ماسوائے چند لوگوں کے اکثریت اِس نعمت سے محروم ہو چکی ہے ایسے خواہ مخواہ بہانے بازی اور حلیہ بازی کر کے روزے نہیں رکھتے حالانکہ نماز زکوٰۃ کی طرح روزے بھی فرض ہیں ۔آج ہمارے بازاروں اور محلوں میں روزہ خوری عام ہو رہی ہے کبھی رمضان آرڈنینس کے نام پر روزہ خوروں کو باقاعدہ گرفتار کیا جاتا تھا لیکن اب سر عام ہوٹل کھلے ہیں اور اچھے خاصے ہٹے کٹے صحت مند نوجوان روزہ خوری کر رہے ہیں۔ سرکاری اداروں میں بڑے بڑے اعلیٰ افسران اِس مبارک ماہ میں اپنی عید کو بہترین اور خوب صورت بنانے کے لیے اپنی کرپشن میں مزید اضافہ کر دیتے ہیں یہ ہے ہماری سوچ تاجر طبقہ ذخیرہ اندوزی اور خود ساختہ مہنگائی میں سب سے آگے اور پھر اِسی ذخیرہ اندوزی اور خود ساختہ مہنگائی سے حاصل ہونے والی رقم سے افطاریاں بھی دیں گے اور عمرے بھی کریں گے پتہ نہیں یہ لوگ کس ضمیر کی آواز پر ایسا کرتے ہیں حالانکہ خدا دیکھ رہا ہے کہ میرے بندے کس طرح سے لوٹ مار کر کے مجھے منانے کی کوشش کر رہے ہیں اور پھر ایسے لوگوں کی عبادات عید الفطرکی رات اِن کے منہ پر ماری جاتی ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کو تو ایسے لوگ پسند ہیں جو اس کی مخلوق کے ساتھ صحیح معنوں میں بھلائی کرتے ہیں لوٹ مار کرنے و الے ذرا اپنے گریبانوں میں جھانکیں اور اس ماہ رمضان میں اللہ تعالیٰ کے حضور سچی توبہ کر لیں۔