تحریک انصاف کی حکومت کے اڑھائی سالہ دور میں چوتھی بار اصلاح احوال کے نام پر کابینہ میں ردوبدل کیا گیا ہے۔ سب سے کلیدی تبدیلی بطور وزیرخزانہ شوکت ترین کی تقرری ہے۔ )واضح رہے کہ شوکت ترین عمومی تاثر کے برعکس جہانگیر ترین کے دورکے بھی رشتہ دار نہیں ہیں(۔ شوکت ترین پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی کابینہ میں آصف علی زرداری کی چوائس تھے۔ وہ اس لحاظ سے کامیاب وزیرخزانہ تھے کہ این ایف سی ایوارڈ جس کے ذریعے وفاق اور صوبوں کے مالیاتی رشتوں کو تبدیل کیا گیا انہی کا کارنامہ تھا، اپنی کاروباری مجبوریوں کی وجہ سے جب وہ مستعفی ہو گئے توان کی جگہ ڈاکٹر حفیظ شیخ نے لے لی تھی اب موجودہ دور حکومت میں شوکت ترین نے حفیظ شیخ کی جگہ لی ہے۔ کسی کو سمجھ نہیں آئی کہ چند دنوں میں ایساآخر کیا ہوا کہ حفیظ شیخ بلندیوں سے نیچے کی طرف لڑھک گئے۔ ان کی برطرفی سے دس روز پہلے تک تو حکومت کا یہی بیانیہ تھا کہ شیخ صاحب فنانس کے شعبے میں کارہائے نمایاں سرانجام دے رہے ہیں۔ بس مہنگائی پر قابو پانے کی ضرورت ہے، باقی اکانومی کے محاذ پر ستوں خیراں ہیں۔ لگتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کورونا کے باعث جب قرنطینہ میں تھے تو انہیں حکومتی معاملات اور اپنی گورننس پر ٹھنڈے دل سے غور کرنے کا موقع ملا اور شاید انہیں اندازہ ہوگیا کہ ان کے ترجمانوں کی فوج ظفر موج طوطے کی طرح سب اچھا ہے کی رٹ لگائے رکھتی ہے جبکہ حقائق اس کے برعکس ہیں۔ اکانومی کے حوالے سے شوکت ترین اور حفیظ شیخ کی اپروچ میں بعدالمشرقین ہے۔ حفیظ شیخ کو ہٹانے کے بعدخان صاحب نے حماد اظہر کو دو ہفتے کے لیے وزیرخزانہ بنایا، یہ موزوں تقرری نہیں تھی اور غالباً مختصر مدت کے لیے ہی تھی۔ شوکت ترین بھی اس لحاظ سے نیب کے ڈسے ہوئے ہیں کہ سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کی طرح دھرے گئے۔ وہ مقدمات سے بری ہو چکے ہیں لیکن نیب نے ان کا پیچھا نہیں چھوڑا اور ان کی بریت کے خلاف اپیلیں دائر کر رکھی تھیں۔ ترین صاحب نے وزارت خزانہ سنبھالنے کے لیے محض یہ شرط لگائی تھی کہ نیب اپنی اپیلیں واپس لے۔ ان کی تمام تر صلاحیتوں اور کارکردگی کے باوجود ان کے لیے دعا ہی کی جاسکتی ہے کیونکہ وہ جس ماحول میں اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں اس میں بے یقینی کا عنصر سب سے نمایاں ہے۔ خان صاحب کی حکومت کی نوکری سب سے کچی ہے ،وزارت خزانہ پر اب تک تین بڑی تبدیلیاں ہو چکی ہیں۔ اسد عمر، حفیظ شیخ اور حماد اظہر۔ وزارت خزانہ کے علاوہ ایک اور اہم وزارت یعنی اطلاعات کی ہے جہاں مسلسل اکھاڑ پچھاڑ ہو رہی ہے۔ تحریک انصاف کے برسراقتدار آتے ہی فواد چودھری کووزیراطلاعات بنایا گیا۔ اخباری تنظیموں کے ساتھ ان کا رویہ نیم دروں نیم بروں تھا۔ان کا کہنا تھا کہ اخبارات، جرائد اور الیکٹرانک میڈیا ایک طرف نجی شعبہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور حکومتی مداخلت کو نہیں مانتے لیکن دوسری طرف حکومت سے مراعات مانگتے ہیں۔ چند ماہ میں ہی فواد چودھری کی چھٹی ہوگئی اور ان کی جگہ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے لے لی جوپہلے بھی وزیراطلاعات رہ چکی تھیں ،کچھ ماہ بعد ان کی بھی چھٹی ہوگئی اور معروف شاعر احمد فراز کے صاحبزادے شبلی فراز نے ان کی جگہ لے لی۔ سینیٹر شبلی فراز شریف النفس اور منجھی ہوئی شخصیت ہیں۔ مبصرین کا یہ خیال درست ثابت ہوا کہ وہ پی ٹی آئی کی اپوزیشن کے خلاف مخصوص گالم گلوچ کا معیار جو پارٹی کے سربراہ نے خود مقرر کیا ہے کیونکر پورے اتر سکیں گے اور ایسا ہی ہوا۔ فواد چودھری جو وزیر سائنس و ٹیکنالوجی بن گئے تھے اب دوبارہ وزیراطلاعات بن گئے ہیں۔ اگرچہ یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ چودھری صاحب محض گالی گلوچ کے ماہر ہیں ،وہ منجھے ہوئے وکیل اور مرنجان مرنج سیاست دان بھی ہیں اور دیکھا جائے تو وزیراعظم کی چوائس بری نہیں ہے۔دوسری طرف وزارت توانائی میں بھی کئی بار اکھاڑ پچھاڑ ہوئی ہے۔ اب وہاں پر عمر ایوب کی جگہ وزیر خزانہ، صنعت و پیداوار حماد اظہر کو لگا دیا گیا ہے جبکہ عمر ایوب کو اقتصادی امور کی وزارت سونپ دی گئی ہے۔اسی طرح شبلی فراز کو وزیر سائنس و ٹیکنالوجی کا منصب مل گیا ہے جبکہ خسروبختیار وزیر صنعت و پیداوار کے فرائض سرانجام دیں گے۔ پی ٹی آئی حکومت کے 32 ماہ میں وفاقی کابینہ میں چوتھی بار اکھاڑ پچھاڑ کی شاید ہی کسی ریاست میں نظیر ملتی ہو۔ اس کا مطلب واضح ہے کہ گورننس کے بارے میں خان صاحب کا اپنا وژن ناقص ہے۔ یہ میوزیکل چیئر کا کھیل صرف وفاقی وزارتوں تک محدود نہیں ہے بلکہ وفاق اور پنجاب جہاں پی ٹی آئی کی حکومت ہے اعلیٰ بیوروکریسی اور پولیس میں بھی جاری ہے۔ مثال کے طور پر پنجاب میں 5 بار آئی جی پولیس تبدیل کئے گئے ہیں۔ یہی حال چیف سیکرٹری کے منصب کا ہے جو چار بار تبدیل ہو چکے ہیں۔ ناقدین کے مطابق خان صاحب کا انتظامی معاملات کے حوالے سے تمام تر انحصار اپنے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان پر ہے، وہ وزیراعظم سیکرٹریٹ سے ہی ریاست کی طنابیں ہلاتے رہتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم کے سابق دست راست جہانگیر ترین بھی اپنی بے مائیگی کا ذمہ دار اعظم خان کو ہی گردانتے ہیں۔ اس الزام میں کتنی حقیقت ہے یہ تو یقین سے کہنا ممکن نہیں لیکن خان صاحب کے طرز حکمرانی سے یوں لگتا ہے کہ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔