میری شعوری یادداشت میں ایسا کوئی دوسرا منظر محفوظ نہیں جب پاکستان کا کوئی سربراہ مملکت امریکہ میں ہم وطنوں سے خطاب کرنے جارہا ہو اور پاکستان میں نصف شب کے بعد بھی اس کا بے تابی سے انتظار کیا جائے۔میری شعوری یادداشت میں ایسا کوئی منظر بھی محفوظ نہیں جب واشنگٹن لاہور بن گیا ہواور ہزاروں تارکین وطن اپنے لیڈر کو سننے کے لئے گھنٹوں گرمی میں اس کے منتظر ہوں۔میری شعوری یادداشت میں ایسا کوئی لمحہ بھی محفوظ نہیںجب واشنگٹن میں پاکستان کے کسی سربراہ نے ہزاروں پاکستانیوں کے جوش اور ولولے سے ابلتے ہوئے مجمع کو اس طرح مخاطب کیا ہو:ایاک نعبد و ایاک نستعین۔ وزیر اعظم عمران خان کا دورہ امریکہ بے حد اہم ہے۔ اتنا کہ اسے سبوتاژ کرنے کے لئے ان لابیوں نے کثیر اضافی سرمایہ صرف کیا جو سارا سال پاکستان مخالف پروپیگنڈے میں ویسے بھی مصروف رہتی ہیں۔وطن عزیز میں اپوزیشن جس معلوم تکلیف میں مبتلا ہے اس نے انہیں ٹھوک بجا کر ایک بیانیہ گھڑنے پہ مجبور کردیا ہے اور وہ یہ کہ عمران خان سیلیکٹڈ وزیراعظم ہے۔ ویسے تو صدر ٹرمپ اور پینٹاگون دونوں کو اس سے قطعا کوئی فرق نہیں پڑتا کہ پاکستان سے جو سربراہ تام جھام کے ساتھ تشریف لارہا ہے وہ منتخب ہے یا مامور من اللہ ۔ اس کے علی الرغم پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ پاک امریکہ تعلقات ہمیشہ غیر جمہوری ادوار میں پروان چڑھے ہیں۔اس کے باوجود عمران خان نے امریکہ کے قلب میں بلاشبہ متاثر کن جلسہ کرکے ثابت کیا ہے کہ وہ اپنی عوام کے منتخب کردہ وزیراعظم ہیں اور انہیں اس کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔انہوںنے اس لحاظ سے بھی تاریخ رقم کی ہے کہ کسی غیر ملکی سربراہ نے اس سے قبل واشنگٹن میں اتنا بڑا جلسہ نہیں کیا۔ پاکستان میں ان کے پیش رو پاکستانی کمیونٹی کے منتخب اراکین سے کسی بند ہال میں چپکے سے خطاب کرلیا کرتے تھے۔وہی گھسے پٹے الفاظ اور سنگ سانگ لہجہ۔بے روح الفاظ کی گھسی پٹی جگالی اور نک سک سے درست بے حس و حرکت حاضرین جن میں سفارت خانے کا عملہ بھی شامل ہوتا تھا۔ اس سادہ مگر پروقار تقریب کے منٹس بعد ازاں میڈیا میں تقسیم کردیئے جاتے جس میں کوما اور فل اسٹاپ تک حسب سابق ہوا کرتا۔عمران خان نے اس بار بھی خود کو غیر روایتی لیڈر ثابت کیا ہے۔ان کے خطاب میں چند نکات نہایت اہم تھے جنہیں واشنگٹن میں نوٹ کرلیا گیا ہے۔عمران خان ہمیشہ ریاست مدینہ کو اپنے اور پاکستان کے لئے آئیڈیل قرار دیتے ہیں اور کبھی یہ تذکرہ نہیں بھولتے۔ انہوں نے پاکستان کی نظریاتی اساس اور اس کے قیام کے مقصد یعنی اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کے عزم کا ہمیشہ اظہار کیا ہے۔ایسا وہ واشنگٹن میں بھی نہیں بھولے۔ان کے چاہنے والے جانتے ہیں کہ ان کے الفاظ خانہ پری کے لئے نہیں ہوتے۔ وہ عام زندگی میں کم آمیز و کم گو شخص ہیں۔انہیں کھیل کے میدان میں ہدایات جاری کرنے کی عادت ہے۔آج بھی وہ جلسوں سے اسی انداز میں خطاب کرتے ہیں۔پہلا لفظ منہ سے نکالنے سے قبل وہ مجمع پہ وہی طائرانہ نظر ڈالتے ہیں جو کھیل کے میدان میں بحیثیت کپتان ان کی عادت تھی۔آپ کو علم ہونا چاہئے کہ ہدایات واضح اور دو ٹوک ہوتی ہیں۔یہی حال ان کے خطاب کا ہوتا ہے۔ پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کے دو ٹوک اعلان سے قبل انہوں نے جمہوریت کے فضائل پہ بھی روشنی ڈالی حالانکہ ریاست مدینہ خلافت کے اصولوں پہ قائم ہوئی تھی۔عمرا ن خان لیکن بات کہنے کا ہنر جانتے ہیں اوریقینا کسی پرچی خواندہ حکمران سے کہیں زیادہ ۔ انہیں علم ہے کہ امریکہ کے لئے جمہوریت اتنی اہم ہے کہ جہاں وہ نہ ہو تو اسے وہ زبردستی نافذ کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ آج لیکن ان کے دورہ امریکہ کے دوران ہی فاٹا کی تاریخ میں پہلی بار انتخابات منعقد ہوئے ہیں اور بقول فردوس عاشق اعوان جہاں بارود کی بو تھی وہاں ووٹ کی خوشبو مہک رہی ہے۔ اور کتنی جمہوریت چاہئے ؟ ہم نے وہاں بھی نافذ کردی جہاں آپ بہانے بہانے سے ڈرون حملے کیا کرتے تھے۔یہ پیغام اہم ہے اور اسے سمجھا بھی جارہا ہے۔یہ پیغام ان کے لئے بھی ہے جو عسکری قیادت پہ ایک بار پھر امریکہ سے آپریشن کی مد میں امداد وصول کرنے کی کوشش کا الزام لگا رہے ہیں۔صدر ٹرمپ نے عسکری امداد جن کڑے تیوروں کے ساتھ منقطع کی تھی۔ عمران خان نے اس سے کہیںزیادہ کڑے تیوروں کے ساتھ اس کا جواب تبھی دے دیا تھا۔جاننے والے جانتے ہیں کہ فاٹا کے کے پی کے میں انضمام کے بعد اس امداد کی بحالی کی ضرورت ہی نہیں رہی۔ عمران خان امریکہ کی صدارتی جمہوریت سے متاثر ہیں لیکن نظام حکومت سے زیادہ اہم ان کے لئے ریاست مدینہ کے وہ اصول ہیں جہاں ایک عام شہری بھرے مجمع میں سربراہ مملکت کا دامن پکڑ کر سوال کرسکے اور وہ جواب دینے کا پابند ہو۔ اس سے ایک اجتہادی نکتہ یہ بھی نکالا جاسکتا ہے کہ اسلامی حکومت میں حکمران کو احتساب کے لئے عدالت میں گھسیٹنا لازمی نہیں۔یہ حق ایک عام شہری کو بھی حاصل ہے۔ عمران خان نے بڑی خاموشی اور تسلسل کے ساتھ یہ سوچ پروان چڑھائی ہے۔امریکہ کے قلب میں اپنی کھلی اور واضح آواز میں اس کا اعادہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے اسلام میں غلاموں کو مساوی حقوق دینے کا تذکرہ بھی بڑی سہولت اور پرکاری کے ساتھ کیا۔ ابراہام لنکن کے امریکہ میں، جس نے ساری عمر غلاموں کو مساوی حقوق دلانے کی جدو جہد کی، یہ تذکرہ یقینا مصلحت سے خالی نہیں تھا۔ اپنے سیاہ فام پیش رو اوباما کی نسبت صدر ٹرمپ سفید فام برتری کے نہایت متعصب علمبردار ہیں۔ ان کی صدارتی مہم چلانے اور اسے فنڈنگ دینے میں سفید فام متعصب تنظیمیں پیش پیش رہیں۔خود صدر ٹرمپ اور ان کے والد اتنے متعصب سفید فام ہیں کہ اپنے رئیل اسٹیٹ بزنس سے انہوں نے سیاہ فام ملازمین کو ہر ممکن حد تک دور رکھا ہوا ہے۔ ان کے برسراقتدار آتے ہی امریکہ میں بدترین نسلی فسادات ہوئے۔ایسے میں عمران خان کو اپنے خطاب میں سیدنا بلال حبشی کی مثال دینے کی کیا ضرورت پیش آگئی تھی جو ایک غلام تھے اور خلیفہ وقت انہیں سیدنا کہہ کر مخاطب کرتا تھا۔عمران خان نے صدر ٹرمپ کے ساتھ ون ٹو ون ملاقات سے قبل اپنا اعتماد اور ان پہ اپنی عوام کا اعتماد پوری طرح ثابت کردیا ہے۔ اب جو ملاقات ہوگی اس کا رنگ ہی کچھ اور ہوگا۔صدر ٹرمپ کی صدارتی تقریب حلف برداری میں اسرائیل سے خصوصی طور پہ مدعو کئے گئے ربی ماروین ہائر نے گلوگیر لہجے میں توریت کی آیات تلاوت کیں جن کا مفہوم کچھ یوں تھا: میرا داہنا ہاتھ ناکارہ ہوجائے اگر میں یروشلم کو بھول جاؤں۔ کسے خبر تھی کہ صرف نصف زائد دو برس بعد واشنگٹن میں ایک پاکستانی سربراہ مملکت جوش و ولولے سے بھرے ہزاروں پاکستانیوں سے خطاب کرے گا اور اس خطاب کی ابتدا سورہ فاتحہ سے ہوگی۔ایاک نعبدو ایاک نستعین۔ اور یہ اعزاز صرف عمران خان کے نصیب میں لکھا جائے گا۔