میری اس تحریر کا عنوان بہ ظاہر تو شاعرِ مشرق کے پہلے اُردو مجموعے ’بانگِ درا ‘ میں شامل اُن کی شہرہ آفاق نظم ’شکوہ‘ کا ماضی کی لذت اور حسرت سے ہُوکتا ہوا ایک مصرع ہے لیکن در اصل اسی مصرع میںہمارے محترم اور بزرگ دوست ڈاکٹر علی محمد خاں کے خاکوں کے دو مجموعوں ’’اب اُنھیں ڈھونڈ‘‘ اور ’’چراغِ رُخِ زیبا‘‘ کے نام چھپے ہوئے ہیں۔ اول الذکر مجموعہ دس عدد خاکوں کی منڈلی سجائے دس سال قبل منظرِ عام پہ آیا تھا، جسے ہاتھوں ہاتھ لیا اور سر آنکھوں پر بٹھایا گیا، بالخصوص اس کے پہلے خاکے ’’ماں جی‘‘ کی گونج تو دیر تک اور دُور تک سنائی دیتی رہی۔ ہر ایک کو اس میں اپنی ہی ماں کی جھلک دکھائی دیتی رہی۔ دیگر شخصیات میں عمر فیضی، ڈاکٹر سجاد باقر رضوی ، شہرت بخاری، جعفر بلوچ، احسان الٰہی سالک، ڈاکٹر آغا سہیل، پروفیسر عبدالجبار شاکر، معراج نیّر زیدی اور خورشید عالم گل شامل تھے۔ بہت سے لوگوں کی طرح ان میں سے بیشتر شخصیات کے ساتھ ہمارا بھی ذاتی اور جذباتی تعلق رہا، اس لیے ہم نے بھی ان تحریروں کو پلکوں پہ بٹھایا، سینے سے لگایا۔ اشاعت کے حُجلۂ عروسی میں بیٹھی موجودہ کتاب بھی دس عدد شخصی تحریروں کی حامل ہے۔ اس میں سب سے پہلا خاکہ ان کے بڑے بھائی جمال الدین پانی پتی کا ہے، جو ڈاکٹر صاحب سے عمر میں سولہ سال بڑے تھے اور ڈاکٹر صاحب کی پیدائش کے وقت حالی مسلم ہائی سکول پانی پت میں دسویں جماعت کے طالب علم تھے۔ دوسری تحریر ’’آپی‘‘ ڈاکٹر صاحب کی شریکِ حیات فاخرہ چغتائی کی بڑی بہن محترمہ شمیم چغتائی سے متعلق ہے، عبدالرحمن چغتائی جن کے سگے پھوپھا تھے۔ تیسرے نمبر پہ معروف سماجی شخصیت عبدالستار ایدھی ہیں، جن سے ڈاکٹر صاحب کی عقیدت کے ساتھ ملاقاتوں کا سلسلہ بھی رہا۔ چوتھا شخصی مرقع معروف ماہرِ تعلیم قاضی برکت علی کا ہے جب کہ کتاب میںپانچویں نمبر پر معروف محقق جناب ڈاکٹر وحید قریشی جیسی بھاری بھرکم شخصیت براجمان ہے۔ چھٹا خاکہ عالمِ بے بدل حافظ محمود شیرانی کے پوتے، شاعرِ رومان اختر شیرانی کے فرزندِ ارجمند اور اُردو فارسی کے مستند استاد، محقق، خاکہ نگار جناب ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی کا ہے۔ ساتویں نمبر پر سروس انڈسٹریز کے مالک، پی آئی اے کے سابق چیئرمین اور ایف سی کالج المنائی کے سب سے متحرک کردار چودھری احمد سعید کو جگہ ملی ہے۔ اس کتاب بیٹھک میں آٹھویں نشست اُردو بازار میں معروف پبلشرز ’اظہار سنز‘ کے مالک سید اظہارالحسن رضوی کی ہے۔ نواں درجہ ڈاکٹر صاحب کے ہم درس اور دورانِ ملازمت مال روڈ پر ایک حادثے کا شکار ہو جانے والے قاضی سرفراز حسین فاروقی کو حاصل ہے، جب کہ اس کتاب میں مقطعے کا مقام حاصل کرنے والے ہمارے اور ڈاکٹر صاحب کے مشترکہ دوست، ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کے نواسے، معروف کامیڈین سہیل احمد (عزیزی) پروفیسر اورنگ زیب اور گوجرانوالہ کے مشہور صحافی جاوید اکرم کے بھائی ، اُردو کے استاد، ’پنجابی‘ رسالے کے مدیر پروفیسر جنید اکرم ہیں۔ ڈاکٹر علی محمد خاں نے اس کتاب کا سفر جن شخصیات کے شانے پر ہاتھ رکھ کر کیا ہے، وہ تمام کی تمام مرحوم ہونے ساتھ ساتھ نہایت محترم بھی ہیں۔ ان تمام تحریروں کے ذریعے انھوں نے سلگتی یادوں کی ایک ایسی بستی بسائی ہے جہاں میرے جیسے کھلنڈرے قلم کار،بے لگام مزاح نگار اور ہتھ چھُٹ خاکہ نویس کو پَر مارنے کی بھی مجال نہیں۔ لگتا ہے میری اسی خاکہ تراشی کی عادت ہی کے پیشِ نظر انھوں نے مجھے اس ’با ادب، با ملاحظہ، ہوشیار‘ قسم کے خاکوں کی تقدیم کاری کی ذمہ داری سونپی ہے۔ ادھر میرا حال یہ ہے کہ اپنے قلم کے منھ پہ احترام کا چَبھُو چڑھائے، تمہید لمبی کیے جا رہا ہوں۔ ایسا اس لیے ہے کہ مرزا فرحت اللہ بیگ اور نثری بیگم کے گھر جنم لینے والا لااُبالی بالکا(خاکہ) کہ جس کی طبعی عمر اب ایک صدی ہونے کو آئی ہے، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کا خاندان اب دو شدید قسم کے فرقوں میں بٹ چکا ہے۔ ایک فرقہ وہ ہے جو اِس البیلی یانرا کی اگلی نسلوں کی بھی مرزا فرحت ہی کی دی ہوئی گھُٹّی کے مطابق شوخ و شریر ماحول میں پرورش و تربیت کرنے پر بضد ہے۔ منٹو، مفتی، ضمیر، عطا، ضیا ساجد، یونس بٹ وغیرہ کے ساتھ راقم بھی عاصیوں کے اسی فرقے کی قبیل سے ہے، جب کہ ڈاکٹر علی محمد خاں، اس سلسلۂ خاکی میں مولوی عبدالحق، رشید احمد صدیقی، ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی وغیرہ کی طرح اہلِ ورع کے مقلد ہیں۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ خلقِ خدا کا بیشتر حصہ بھی ہم جیسوں کی قلم درازیوں سے نالاں ہو کر اسی صالح فرقہ سے بیعت ہونے پہ اتارُو ہے۔ ہمارے فرقہ کے نزدیک خاکہ، مزاج شناسی اور مزاح شناسی کے سنگم پہ تخلیق ہوتا ہے، اس کا آغاز فرحت اللہ بیگ سے ہوا تھا اور اس میں ہر دم ’فرحت‘ کے نین نقش ہی دکھائی دینے چاہئیں۔ یہ ایک آوارہ گرد سیّاح ہے، اسے ملکِ ادب کا ایک ذمے دار شہری بنانے کی کوششں ہی فضول ہے۔یہ نیکر شرٹ پہن کے ون ویلنگ کرنے، بارش میں نہانے اور روڈ پہ جاتی ٹرالی میں سے گنے کھینچنے کے بکرے بلانے وال ہے، جُبّہ و دستار اس کے وجود پہ جچتے ہی نہیں۔ دوسرے طبقے کے مطابق خاکہ، کسی شخصیت کا ناک نقشہ، عادات و اطوار ، کردار اور اس کے ساتھ اپنے تعلق کی داستان سیدھے سادے اندازکے ساتھ اس طرح بیان کرنے کا عمل ہے کہ اس میں جواب مضمون کی سی سنجیدگی کے ساتھ ساتھ سوانحی مضمون کی سی باقاعدگی اور ذمہ داری کا عنصر بھی موجود ہو، جس میں کسی شخص یا شخصیت سے وابستہ عقیدت، احترام، محبت، دوستی، دلچسپی یا یادوں کو ایک خاص ترتیب سے بیان کر دیا جاتا ہے۔ ان کی ادبی شرع کے حساب سے خاکہ انھی شخصیات یا اشخاص کا لکھا جانا چاہیے، جن سے خاکہ نگار کی دوستی، قریبی تعلق یا کم از کم ذاتی اور دو بدو ملاقاتوں کا سلسلہ ضرور رہا ہو۔ دوسرے معنوں میں اس میں کسی ہم پیشہ و مشرب و ہم راز پر ہی قلم اٹھایا جا سکتا ہے۔ دوسری جانب شرارت اور مزاح کو خاکے کا لازمہ قرار دینے والے فرقے کے ادبی عقیدے کے مطابق اس کا اَکھوا دل کی گٹھلی سے پھوٹنا لازم ہے، اس کے لیے ذاتی اور قریبی تعلق ضروری نہیں۔ ڈاکٹر علی محمد خاں کی ان تحریروں کا کمال یہ ہے کہ ان کی تحریروں میں زیرِقلم شخصیات کے ظاہری اوصاف بیان کرنے کے ساتھ ان کے باطن میں جھانکنے کا سلیقہ بدرجۂ اتم موجود ہے۔ اس وقت سوچنے کی بات یہ ہے کہ ڈاکٹر علی محمد خاں کہ جنھیں راقم نے ان کے دوستوں، رشتے داروں کے لیے بے پایاں خلوص کی بنا پر ’علی محبت خاں‘ کا لقب سونپ رکھا ہے اور جن کی وضع داری کا یہ عالم ہے کہ ان کے نسوانی عشق کا سلسلہ ان کی اکلوتی بیگم سے شروع ہو کے اسی بااختیار زوجہ پہ ختم ہو جاتا ہے، اگر کسی بدخواہ نے ان کی نئی نکور کتاب کے عنوان ’چراغِ رُخِ زیبا‘ میں ’زیبا‘ کا لفظ دیکھ کے ان کی سیدھی سادھی بیگم کو بھڑکانے کی کوشش کی تو یہ نہتے شوہر اس کا کیا جواز پیش کر سکیں گے؟