بلوچستان اور کے پی کے میں تواتر کے ساتھ تین اہم ترین سیاسی جماعتوں اور قابل احترام سیاستدانوں کے انتخابی جلسوں کے دوران خودکش بمباروں کے حملے، بڑے بڑے نامی گرامی سیاستدانوں سمیت خطرناک حد تک ہلاکتیں، ان سیاستدانوں کی ہلاکتیں جو پہلے قوم پرست اور پھر وطن پرست تھے، نواز شریف اور مریم نواز کی پاکستان آمد اور جیل منتقلی، ن لیگ والے بہت سے لوگوں کی خلاف توقع بہر حال سڑکوں پرآمد،، طاقت کے بل پر احتجاج کا حق چھین لیاجانا، کیا یہ سب کچھ ٹھیک ہو رہا ہے؟ نہیں جناب! یہ ٹھیک نہیں ہورہا۔ نواز شریف اور ان کی بیٹی کی وطن واپسی پر رینجرز کے اہلکاروں سے عام شہریوں نے بڑے طویل الاثراتی سوالات اٹھا دیے،سوشل میڈیا کے عروج کے دور میں لوگوں کے شکوک و شبہات دور نہ کئے گئے تو سوال کرنے والے اپنے سوالوں کے جواب بھی خود دے دیں گے،،، اور یہ مزید خطرناک بات ہوگی، عمران خان کو ہماری ایڈوائس ہے سزا یافتہ سیاسی مخالفین کا کھیڑا چھوڑیں اور اپنی فکر کریں، حالات ان کیلئے بھی ناسازگار ہوتے جا رہے ہیں، اب آپ کو یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ نواز شریف کا امیر المومنین بننے کا خواب بھی پورا ہو سکتا ہے۔ ٭٭٭٭٭ ابتک تو یہی سچ تھا اور یہی کہا سنا جاتا رہا کہ ساری سیاسی اتھل پتھل عمران خان کی بدولت ہوئی، ورنہ کس کی مجال کہ کوئی اور شریفوں کو چور ثابت کر سکتا، عمران خان کو اقتدار میں لانے اور سیاست کی زینت بنانے کے لئے نئے نئے باب لکھے جا رہے ہیں، اس بات پر دوستوں دشمنوں سبھی کی رائے یہی ہے کہ تیس سال سے اقتدار کی مسند پر بلا شرکت غیرے بیٹھے ہوئے شریف خاندان کی بربادیوں کا سہرا عمران خان کے سر ہے، ساری محنت کی بیچارے کپتان نے اور اب کسی سازش کدے میں طے یہ ہو رہا ہے کہ کشتی کے ملاح دو ہونگے، امکانی طور پرعمران خان کے ساتھ نتھی کئے جانے والے اس سائنس دان سیاستدان کا نام چوہدری نثار علی خان ہے‘ جسے جیپ کے انتخابی نشان والے الیکٹ ایبلز کا لیڈر بنایا جانے والا ہے، مگر کیوں؟ کھیر تو عمران خان نے پکائی تھی اور اسے کھانے کون جا رہے ہیں؟ جن کے دودھ کے دانت بوڑھا اور گنجا ہو جانے کے باوجود نہیں گرتے،چوہدری نثار علی خان کبھی تحریک انصاف کے شریک سفر نہیں رہے،اور وہ اس کے ہم سفر ہو بھی نہیں سکتے تھے، وہ تو پپو ٹائپ چائنہ میڈ کھلونا نما سیاستدان ہیں، جنہوں نے اپنے حلقہ انتخاب میں ہزاروں محکوم قید کر رکھے ہیں جو ان کے مزارعوں کی طرح رہتے ہیں، ذلت کی زندگی بسر کرتے ہیں اور اسکے باوجود ووٹ بھی انہیں ہی دیتے ہیں، اپنے نام کے ساتھ چوہدری اور خان کا لاحقہ لگانے والے یہ مسلم لیگی جدی پشتی آمریت کی گود میں پلنے والے نام نہاد سیاستدان ہیں، انہیں عوام دشمنی کا نوبل پرائز بھی دیا جا سکتا ہے، یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی رعیت میں جنم لینے ہر نوزائیدہ بچے کے پہلے سانس کو ہی اپنی قید میں لے لیتے ہیں، اگر یہ باتیں درست ہیں تو پھر انتخابات کے مکمل ہوتے ہی نواز شریف زندہ باد کے نعرے بلند ہو سکتے ہیں، اگر یہ ساری باتیں جو میں لکھ رہا ہوں درست ہیں تو عمران خان انہیں پبلک کر دیں، اگر مصلحت پسندی کا مظاہرہ کیا گیا تو عمران خان کا حشر بھی وہی ہوگا جو نواز شریف کا ہو رہا ہے،چوہدری نثار کو عمران خان کے ساتھ بٹھانے کا مطلب صرف یہ ہوگا کہ تحریک انصاف کوعوام اور عوام کے ووٹ سے دور کر دیا جائے ، کیا منصوبہ یہی ہے کہ نواز شریف مخالف ووٹ تقسیم کر دیے جائیں اور پھر پی ٹی آئی کو بھی پیپلز پارٹی اور نواز شریف کی طرح فارغ کرا دیا جائے؟ اس طرح یہ تھیوری پھر زندہ ہوجائے گی کہ اسٹیبلشمنٹ کو عوام کی تائید سے سامنے آنے والا کوئی بھی لیڈر قبول نہیں ہوتا، لیکن یہ بھی یاد رکھا جائے کہ بھٹو اور عمران خان میں سب سے بڑا تضاد یہ ہے کہ بھٹو کو ووٹ اور عوام کی قوت کا ادراک تھا اور عمران خان اس صلاحیت سے قطعی محروم ہیں، چوہدری نثار یہ جھوٹ کہتے ہیں کہ انہوں نے تیس پنتیس سال نواز شریف کو سیاسی فائدہ پہنچایا ، انہوں نے صرف ن لیگی قیادت کو اس وہم میں مبتلا رکھا کہ اسٹیبلشمنٹ ان کے خاندان یا رشتہ داروں کے کسی ٹولے کا نام ہے، وہ موجودہ حالات میں بھی آخری وقت تک نواز شریف کو اپنے اسی پتے پر بلیک میل کرتے رہے، لیکن بات نہ بن پائی، نواز شریف نے چوہدری نثار کی تیس پنتیس سال کی رفاقت میں صرف یہی اچھی بات سیکھی کہ چوہدری نثار کا آج کے دور میں کسی اسٹیبلشمنٹ سے کوئی واسطہ نہیں، چوہدری نثار کی سیاست سے صرف دو لوگوں نے استفادہ کیا، ایک شعیب شیخ نے اور دوسرے ملک ریاض نے… ریٹائرڈ جرنیلوں کو اچھی تنخواہوں پر ملازم رکھو اور مشہور کردو، فوج ہمارے ساتھ ہے۔ لوگ کئی اور انکشافات بھی سامنے لا رہے ہیں، بہت سارے ہوشیار، چالاک صحافیوں کی طرح چوہدری نثار سیاسی دو ہزار اٹھارہ میں بھی سیاسی شطرنج کا کھلاڑی بننے کی معصوم کوششوں میں مصروف ہیں، وہ جتنا مرضی تیل ڈال لیں ، ان کا چولہا اب نہیں جلے گا۔ حرف آخر چوہدری صاحب آجکل عمران خان سے کہہ رہے ہونگے کہ کئی جرنیل تمہاری حکومت بننے کے خلاف ہیں اور وہ کئی ریٹائرڈ جونیلوں کو بھی چائے پر مدعو کرکے فرما رہے ہونگے کہ سیاست عمران خان کے بس کی بات نہیں، اسے میرے جیسے شاطر کی راہنمائی کی ضرورت رہے گی، کچھ لوگوں سے موصوف نے یہ بھی کہا ہوگا کہ جیپ کے انتخابی نشان والے سارے جیت جائیں گے اور میں چاہوں تو اگلا وزیر اعظم بھی بن سکتا ہوں لیکن ابھی میں عمران خان کو وزیر اعظم بنوا کر اس کی سیاسی تربیت کروں گا۔۔۔اور جناب سنا جا رہا ہے کہ نازک کمر پر ہاتھ رکھ کر پریس کانفرنسیں کرنے والے اس سیاستدان نے جیپ گروپ کو سازشوں سے جتوا کر اگلا وزیر اعلی پنجاب بننے کی تیاریاں کر لی ہیں۔ اللہ نہ کرے کہ پنجاب کو پھر ایک اور بیماری ٹکر جائے… میں نے قارئین سے وعدہ کیا تھا کہ دس جولائی کو لاہور سے ٹورنٹو آنے والی پی آئی اے کی پرواز کے چار سو سے زیادہ مسافروں کے حوالے سے آپ کے ساتھ بہت ساری دلچسپیاں آپ سے شئیر کروں گا، لیکن نواز شریف اور مریم نواز کے لندن سے براستہ دبئی لاہور تک کے سفر کی نئی کہانی سامنے آ چکی ہے، لہٰذا اس نئے سفر کی کہانی پر غور فرمالیں… لاہور سے ٹورنٹو کے سفر کی داستان اگلے کالم تک میری طرف ادھار رہی… اللہ ہمیشہ ہم سب پر مہربان رہے۔ آمین یا رب العالمین۔