جیسے جیسے نتائج آتے گئے ایک تصویر ابھرتی گئی۔جیسے ایک جگ سا پزل کے ٹکڑے جڑنے شروع ہوجائیں تو ایک منظر، ایک نقشہ، ایک چہرہ بننا شروع ہوجاتا ہے۔رات گئے تک حتمی نتائج نہ ہونے کے باوجود رجحان واضح ہوچکا تھا اور ہارنے والوں کی طرف سے تاریخ کی بد ترین دھاندلی کے الزامات بھی لگنے شروع ہوگئے تھے۔ پاکستان تحریک انصاف کو مبارک ہو کہ اس نے میدان مار لیا ہے۔بیک وقت کئی حریفوں کو پچھاڑنا آسان کام نہیں تھا لیکن اس بار یہ کام ہوگیاجب یہ پہلے سے کہیں مشکل نظر آرہا تھا۔میرے خیال میں تحریک انصاف کی سب سے بڑی جیت یہ ہے کہ وہ قومی جماعت بن کر ابھری ہے اور چاروں صوبوں سے اسے امیدوار بھی ملے اور ووٹ بھی۔اس وقت وہ واحد جماعت ہے جو ہر صوبے میں عملی طور پر موجود ہے۔یہ جیت نشستوں کی جیت سے زیادہ بڑی اور زیادہ اہم ہے۔اس پر عمران خان کو جتنی بھی مبارک دی جائے وہ اس کے حق دار ہیں۔انہوں نے علاقائی ،لسانی اور صوبائی خانوں میں بند ہونے کے بجائے بڑے میدان کو ترجیح دی ۔اس کے لیے صبر کیا اور جدوجہد کی۔یہ قانون ِ قدرت ہے جس میں کبھی تبدیلی نہیں ہوتی کہ محنت اور جدوجہد کا صلہ بالآخر ملتا ضرورہے۔ میں عمران خان کی غلطیوں پر تنقید کے باوجود ان کے مداحوں اور حامیوں میں سے ہوں اور انہیں اپنے دعووں کو سچا ثابت کرنے کا موقعہ دینے والوں میں سے ہوں۔انہی اخباری کالموں میں ان پر تنقید کے باوجود میں سیاسی رہنماؤں میں انہیں یکتا سمجھتا ہوں اور پاکستان اور پاکستانی سیاست میں ان کے وجود کو عوام کا نمائندہ تصور کرتا ہوں۔کچھ عرصہ قبل ان کے لیے میں نے ’’ ـ ہار نہ ماننے والا شخص ‘ ‘ کے نام سے کالم لکھا تو مجھے اپنے نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے حامی چند دوستوں کی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑا۔لیکن اس کے باوجود میرے دل کی بات یہی ہے ۔ذاتی اور سیاسی معاملات میں عمران خان کو بہت کچھ بہتر کرنے کی ضرورت ہے ۔یہ بھی میرا شدید احساس ہے کہ اگر موجودہ صف اول کے سیاست دانوں میں واحد مخلص اور ملک و قوم کے لیے کچھ کرگزرنے کی خواہش سے مالامال شخص ہے۔بہت سی خرابیاں سہی لیکن اگر ان میں نیک نیت نظر آتا ہے تو وہی۔باقیوں میں تو اس کا بھی شدید فقدان ہے۔وہ بار بار یہ کہتا بھی رہا ہے اور اس کی باتوں سے اس کے دل کی یہ سچائی جھلکتی ہے کہ وہ سیاست میں کسی اور غرض سے نہیں پاکستان کی بہتری کی خواہش لے کر آیا ہے۔خدا کرے یہ توقعات چکنا چور نہ ہوں۔ کراچی میں خاص طور پر تحریک انصاف کو بہت ووٹ ملا ہے اور اس نے قبضہ گروپوں کا سحر توڑ ڈالا ہے۔(یاد رکھنا چاہیے کہ ایم کیو ایم کی دہشت گردی کے عروج کے زمانوں میں وہ واحد بڑا سیاست دان تھا جو علی الاعلان اور کھل کی اس کی مخالفت کرتا تھا، باقی سب مفاہمت کے نام پر اس دہشت گردی کے سہولت کار رہے ہیں، جماعت اسلامی اور مذہبی حلقوں کا کردار بھی اس معاملے میں بہت قابل تعریف رہا ہے) ۔ اسی طرح پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں اسے توقع سے بڑھ کر کامیابی ملی ہے۔آخری اطلاعات تک مرکز ،پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں تحریک انصاف حکومت تشکیل دینے کی پوزیشن میں ہے۔تحریک انصاف سندھ میں مضبوط اپوزیشن جماعت کے طور پر اسمبلی میں موجود ہے اور بلوچستان اسمبلی میں چار نشستوں پر نمائندگی کر رہی ہے۔ عمران خان کا اصل امتحان تو اب شروع ہوا ہے۔نتائج کے بعد پہلی تقریر ہی نے حامیوں اور مخالفوں کے دل موہ لیے ہیں اور یہ جلسوں ،جلوسوں ،ریلیوں اور دھرنوں کے مقرر عمران خان سے الگ ایک مدبر سیاست دان کی جذبے سے بھرپور جچی تلی تقریر ہے جس میں اس نے قوم کو امید بھی دلائی ہے اور اپنے آئندہ لائحہ عمل کا خاکہ بھی پیش کیا ہے۔لیکن اصل بات تقریر سے آگے عمل کی ہے۔تحریک انصاف کو جلد اہم فیصلے کرنے ہیں اور کوئی ایک غلط فیصلہ ان خوابوں میں لکیریں ڈال سکتا ہے جو عمران خان نے دیکھے اور دکھائے ہیں اور جن کی تعبیرمیں اب ان سے کوئی عذر سنا نہیں جائے گا ۔ دوسری طرف نظریں نون لیگ کی موجودہ قیادت پر بھی لگی ہیں۔ان کے لیے یہ ایک مشکل صورت حال ہے۔لیکن توقع یہی کرنی چاہیے کہ وہ ملک اور اپنی پارٹی کو مزید مشکل میں ڈالنے کے بجائے مدبرانہ فیصلے کریں گے۔یہ ایسا الیکشن تھا جس میں بعض لوگوں کے ہارنے کا مجھے افسوس ہوا ہے خواہ ان کا تعلق کسی بھی جماعت سے رہا ہو۔لیکن مجھے یہ بھی امید ہے کہ نشستیں خالی ہونے کے بعد وہ ضمنی انتخابات میں جیت کر اسمبلی میں پہنچ جائیں گے۔ پیپلز پارٹی کے دور ِ حکومت سے کافی بہتر ہونے کے باوجود جو بنیادی کام نون لیگ کو کرنا چاہیے تھا، یعنی نظام میں بنیادی تبدیلیاں اور اداروں کے قیام اور ان کی مضبوطی وہ اس میں بالکل ناکام رہی ہے۔انفرا سٹرکچر ان بنیادی چیزوں کا متبادل نہیں ہوسکتا۔یا تو نون لیگ اس کا ادراک نہیں کرسکی یا بوجوہ اس کو پس پشت ڈالے رکھا محض باتوں اور تقریروں تک اپنے آپ کو محدود رکھا ۔ اور اس کو اسی کا خمیازہ بھگتنا پڑا ہے۔میرا تاثر یہ ہے کہ شہباز شریف کا پنجاب میں کیا ہوا کام نون لیگ اور بدترین شکست کے درمیان ڈھال بن گیا ہے ورنہ ان کو بڑی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑسکتا تھا۔ نقار خانے میں طوطی کا آواز کیا ہوتی ہے ۔ ایک کالم نگار کی تجاویز کا متعلقہ آنکھوں اور کانوں تک پہنچ جانا بھی سوالیہ نشان ہے لیکن ہم جس دین کے پیرو کار ہیں اس نے بتایا ہے کہ اپنا کام اپنی حد تک کردینا آپ کی ذمے داری ہے ۔ اور یہ ذمے داری ادا کرکے انسان اپنی حد تک سبک دوش ہوجاتا ہے ۔یہی سوچ کر میں تحریک انصاف کے حامیوں، عہدے داروں، فیصلہ سازوں اور اعلیٰ رہنماؤں کے سامنے کچھ باتیں رکھتا ہوں جن پر فوری عمل درآمد سے نہ صرف ملک بلکہ ان کی اپنی جماعت کا فائدہ ہوگا۔ پہلی بات تو یہ کہ جس طرح آئندہ وزیر اعظم عمران خان نے سیاسی انتقام کو بھول کر آگے بڑھنے کے اعلا ن کیا ہے اس پر عمل کرتے ہوئے اوپر سے نیچے تک تمام لوگوں کو اس پر عمل کرنا چاہیے اور جن مخالفین کو کامیابی نہیں ملی ان پر طنز اور چھینٹے اڑانے سے بچتے ہوئے مثبت رویہ اختیار کرنا چاہیے ۔ دوسری بات یہ کہ تحریک انصاف کو پہلی بار بڑی کامیا بی ملی ہے ۔اب خود کو اس کا اہل ثابت کریں۔عمران خان اب تحریک انصاف کے چیئرمین نہیں پورے ملک کے وزیر اعظم ہوں گے ان کو اس عہدے کے مطابق سب کو ساتھ لے کر چلنا چاہیے ۔ جن معاملات میں انہیں شکایات رہی ہیں ان کے خود وہی طرز عمل اختیار کرنے سے لوگ مایوس ہوں گے۔ان کے ذاتی ،مذہبی ، نجی معاملات اس طرح اب سامنے نہیں آنے چاہیٔیں جن پر انہیں بار بار وضاحت کرنی پڑے ۔ان کی بہت سی ذاتی چیزیں ان کے خلاف ملک کے اندر استعمال ہوتی اور ان کے حامیوں کے لیے مسئلوں کا سبب بنتی رہی ہیں۔اب ایسی چیزیں ملک کے باہر استعمال ہونا پوری قوم کے لیے شرمندگی نہیں بننی چاہیٔییں۔عمران خان کو اب اپنی زبان، اپنے عمل اور اپنے طور طریقوں سے متعلق زیادہ محتاط ہوجانا چاہیے کہ اب یہ اور معاملہ ہے ۔ انہوں نے کہا ہے کہ میں آپ کے ٹیکس کے پیسوں پر پہرا دوں گا۔اچھی بات ہے لیکن اب انہیں اپنے اوپر بھی پہرا دینے کی سخت ضرورت ہے ۔باقی چیزیںایک طرف ،کیا وہ یہ پہرا دے سکیں گے؟ کیا وہ ملک اوراس منصب کے وقار کا خیال کرسکیں گے؟سب مقابلے جیت کر یہ یاد رکھیںکہ سب سے سخت مقابلہ اپنے آپ سے ہوتا ہے : اوروں سے ٹھنا ٹھنی تھی میری اب خود سے مقابلہ پڑا ہے