مسئلہ یہ ہے کہ اب کیا ہوگا ہو چکی اپنی پذیرائی بھی ہمیں اپنے حواس بحال رکھنا مشکل ہوتا ہے جہاں اختیار و اقتدار انسان کو ہوا میں اڑاتا ہے ’’جسے عیش میں یاد خدا نہ رہی، جسے طیش میں خوف خدا نہ رہا‘‘۔ انصاف اور سچائی پر مگر کوئی کمپرومائز نہیں۔ اپنے وعدوں سے وفا اور ملک سے ایفا۔ ان باتوں سے پہلے میرا خوشگوار فریضہ ہے کہ عمران خان کو وزیراعظم بننے پر مبارکباد دوں۔ کچھ کچھ اس حوالے سے خامہ فرسائی ہماری بھی ہے اور یقین مانیے جہاں اس تبدیلی سے فرحت و راحت ہمیں محسوس ہوتی ہے وہیں ایک ڈر اور خوف دامن گیر بھی ہے کہ حاشیہ بردار کہیں خان صاحب کو ڈی ٹریک نہ کردیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کہنا پڑے ’’میرے وہ بھی سجدے قضا ہوئے جو ادا ہوئے تھے نماز میں۔‘‘ عمران خان ایک بانکپن اورسادگی کے ساتھ اپنے منصب کو دیکھ رہے ہیں مگر اسی لمحے ان کی نظر مستقبل پر بھی ہے کہ اس عزت و احترام کو برقرار کیسے رکھنا ہے اور اپنی شناخت اور پہچان کو جریدۂ عالم پر نقش کیسے کرنا ہے۔ عزت حاصل کرنے سے زیک مشکل عزت بچانا ہے اور پھر ایسے معاشرے اور ماحول میں، جس کی جھلک آپ نے اسمبلی میں دیکھ لی۔ میں یہاں کہتا چلوں کہ مجھے بلاول کے لب و لہجے میں مستقبل کا ایک مہذب اور شائستہ رضانظر آیا۔ اس نے شہباز لوگوں کو حد پار کرنے سے روکا۔ بات اس نے خود بھی وہی کی مگر انداز تہذیب یافتہ تھا۔ اس میں حس مزاح بھی ہے کہ اس نے کہا خان صاحب آپ ان گدھوں اورزندہ لاشوں کے بھی وزیراعظم ہیں جنہیں آپ خود سرٹیفکیٹ دیتے رہے ہیں۔ اس کی وضاحت کے لیے مجھے ایک بہت پرانی بات یاد آ گئی۔ یقینا آپ اس سے ایک گونہ لطف اٹھائیں گے۔ ایک تقریب میں جس کی صدارت شاہین عتیق فرما رہی تھیں اور مہمان خصوصی قتیل شفائی تھے۔ میں نے اپنا کلام سنایا تو وہ کچھ اس طرح تھا: روتے رہنا دیر تک سوتے رہنا دیر تک شب سفر پہ چاند کو کھوتے رہنا دیر تک ایک پروفیسر شاعر نے نیچے سے آواز لگائی ’’واہ واہ‘‘ کھوتے رہنا‘‘ کا جواب نہیں۔ میں سمجھ گیا کہ وہ پنجابی والے کھوتے مراد لے رہا ہے کہ اردو میں جنہیں گدھے کہتے ہیں۔ میں برجستہ کہا کہ قبلہ میں نے اسی لیے ’’کھوتے‘‘ پہلے ہی باندھ دیئے ہیں۔ قتیل شفائی نے باقاعدہ کلیننگ کروائی اور داد دی۔ اب آتے ہیں دوبارہ موضوع کی طرف کہ احتجاج کیا جارہا ہے کہ ’’عمران خان کی پارٹی کیسے جیت گئی؟‘‘ یہی سوال پی ٹی آئی پچھلی مرتبہ کو(ن) والوں سے پوچھ رہی تھی۔‘‘ اور یہ سوال بالکل نیا نہیں۔ سوال اس کے بعد کاہے ایک حکومت آ جاتی ہے تو پھر وہ ڈلیور کیا کرتی ہے۔ اس وقت سب کی نظریں عمران خان پر لگی ہوئی ہیں کہ وہ کیا ڈلیور کرتے ہیں۔ آپ لوگوں نے اپنی مرتبہ جو ڈلیور کیا وہ لندن فلیٹس، سوئس بینک اکائونٹس اور دوسری باہر کی جائیدادوں میں نظر آ رہا ہے۔ آپ نے تو کوئی عید بھی قوم کے ساتھ نہیں منائی۔ ووٹ کو عزت دینے کا ڈھونگ رچانے والے سابق وزیراعظم کتنی مرتبہ اسمبلی بھی آئے۔ چھوڑیئے یہ باتیں بھی کلیشے بن چکیں اور تو اور آپ تو اپنے ملک کی سالمیت کے خلاف والی اسٹیبلشمنٹ کے وعدہ معاف گواہ بننے کو تیار ہو گئے۔ اب دنیا بدل چکی ہے۔ لچھے دار تقریروں سے لوگ اب نہیں بہلتے۔ اب کچھ کام کر کے دکھانا پڑے گا۔ میں نے بڑے بڑے مہذب اور سمجھدار لوگوں کو یہ کہتے دیکھا کہ چلو جی عمران خان وزیراعظم بن گیا۔ جھگڑا ختم ہوا۔ اب کونسا احتساب اور کون سی غیر ملکی دولت کی واپسی۔ وہ ہماری ہسٹری شیٹ کی روشنی میں بات غلط نہیں کر رہے مگر انہیں نہیں معلوم کہ ہسٹری شیٹ پھاڑ کر پھینکی بھی جا سکتی ہے۔ سخت علاج نئے سرے سے بھی ہوسکتا ہے۔ کچھ لوگوں کو عمران خان کی وزیراعظم بننے کے بعد والی تقریر ناگوار بھی گزری کہ پہلے والی تقریر تو بہت دوستانہ تھی۔ جناب وزیراعظم بننے کے بعد اس نے اپنا عہد جو اس نے قوم کے ساتھ کیا تھا، کا اعادہ کیا کہ وہ شیروانی پہن کر سب کچھ بھول نہیں گیا۔ وہ شہبازشریف کی طرح خالی خول بڑھکیں نہیں مارتا رہا تھا۔ وہ بحیثیت وزیراعظم کہہ رہا ہے کہ کڑا احتساب ہوگا، کوئی این آر او نہیں ملے گا۔ اسی کا تو خدشہ ہے جو شہبازشریف اور اس کے ساتھیوں کسی کل چین نہیں پڑ رہا ہے۔ کچھ دوست طنزاً لکھ رہے ہیں کہ خان گورنر ہائوس کب گرائیں گے۔ خدا کے بندو صبر تو کرو۔ کیا اب ترجیحات میں یہ ہونا چاہیے کہ دس بلڈوزر بلا کر گورنر ہائوس مسمار کرنا شروع کردیں۔ مال روڈ بند کردیں۔ بھائی جان صبر کریں۔ عمارتیں گرانے سے بھی کچھ نہیں ہوگا۔ اصل مسئلہ تو اس نظام کا ہے جس میں تعیش کی گنجائش ہے۔ گورنر ہائوس کو صحت مند مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ میں عمران کے پرائم منسٹر ہائوس میں رہنے کو بھی کچھ غلط نہیں سمجھتا کہ وہ باہر سے مہمان آئیں گے۔ فضولیات پر قابو پایا جائے۔ اصل چیز تو اپنی معیشت، تعلیم اور صحت کوٹھیک کرنا، اداروں کو ادارے بنانا ہے۔ ان کو پکڑنا ہے جن کے حوالے سے ن لیگ نے ادارے کیے تھے۔ خاص طور پر پولیس کو غیر سیاسی کرنا ہے۔ پولیس پر تو بہت کام ہونے والا ہے۔ اگر پولیس ٹھیک ہو جائے، تقریباً سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ لوگ ڈاکو کوتو پکڑ لیتے ہیں مگر پولیس سے عدم تحفظ میں رہتے ہیں۔ معزز قارئین! اب دیکھئے ایک بات توجہ طلب ہے کہ خان کی کوشش ہے کہ کوئی نیب زدہ یا اس شہرت کا کوئی آدمی سرکاری منصب پر نہ آئے تو یہ قابل تحسین بات ہے۔ آپ دیکھئے کہ اس نے پنجاب کا وزیراعلیٰ تونسہ کے عثمان بزدار کو نامزد کیا۔ ایک بہت ہی پسماندہ علاقے کا آدمی۔ اس کے مقابلے میں کیسے کیسے لوگ اس کرسی کے لیے مرے جا رہے تھے۔ خان کی نفسیات پڑھ کر دیکھیں کہ وہ کہیں مجبور تو ہوا کہ مرتا کیا نہ کرتا مگر وہ ملک اور قوم کے ساتھ بہت مخلص ہے۔ وہ انصاف کے معاملے میں بے لحاظ ہو جائے گا۔ وہ ترقی کی لہروں کو بلوچستان تک بھی لے کر جائے گا۔ مخالفین کوطعنے دیتے شرم بھی نہیں آتی۔ زرداری کو بلوچ کہہ کر مذاق اڑایا گیا۔ حیرت ہے وہ بھول گئے کہ جب بے چارے نے اینٹ سے اینٹ بجانے کی بات کی تو نوازشریف نے اس کے ساتھ رکھی گئی دعوت ہی منسوخ کردی۔ آپ نے میثاق اور مذاق کا فرق ہی مٹا دیا۔ کیا ہم آپ کے غلام ہیں کہ آپ 35 سال سے ہمیں چمٹے آئے ہیں اور ضیاء الحق کے مشن کو لے کر چلے اور پھر اپنا مشق 007 شروع کردیا۔ ہر کسی کو آپ نے استعمال کیا اور ہر کسی کو دھوکہ کیا۔ اب آپ غلط موڑ مڑ گئے تو کیا کریں۔ راستے نہ روکیں، اپنا راستہ بنانے کی کوشش شروع کردیں۔ فی الحال آپ عمران خان پر نظر رکھیں کہ وہ کیا ڈلیور کرتے ہیں۔ اگر انہوں نے آپ ہی کی طرح کی سرگرمیاں رکھیں تو پھر آپ کے ساتھ ہم بھی اسکا محاسبہ کریں گے۔