روس کے وزیر خارجہ سرگی لاروف کا پاکستانی دورہ کوئی رسمی قدم نہیں تھا۔ 9 برس کے بعد روسی حکومت کا نمائندہ اسلام آباد میں کافی پینے نہیں آیا تھا۔ سرگی لاروف دو دن پاکستان میں موجود رہے۔ ان کے دو دن کا قیام میڈیا میں اس طرح نہیں گونجا جس طرح امریکی وزیر خارجہ کی موجودگی گونجا کرتی ہے مگر روسی اور ریچھ خاموش رہتے ہیں۔ وہ چلتے بھی ہیں تو اس انداز سے کہ جنگل کے پتوں تک کو پتہ نہ چلے اور جہاں تک سرگی لاروف کی بات ہے وہ سرد جنگ کا ایسا سپاہی رہا ہے جس کے بارے میں لوگ بہت کم جانتے ہیں۔ اس کی عمر بھی کچھ کم نہیں مگر اچھی صحت والا روسی ڈپلوومیٹ عملی طور پر دو نظاموں سے نکلا ہوا شخص ہے۔ اس نے کمیونسٹ روس کے لیے بھی کام کیا اور سوشلزم کے بعد وہ اپنا تجربہ اور اپنی سفارتکاری والی صلاحیت اپنے اس ملک کے لیے استعمال کر رہا ہے جس کو روسی قومپرست ’’مادر روس‘‘ کہتے ہیں۔ روسی کتنے اچھے کمیونسٹ تھے؟اس سوال کا جواب مختلف ہو سکتا ہے مگر وہ کس قدر محب وطن اور قومپرست ہیں؟ اس سوال کا جواب صرف ایک ہی ہے کہ ایک روسی کی حب الوطنی پر شک کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اگر روسی محب وطن نہ ہوتے تو ہٹلر کو شکست فاش نہ دیتے۔ آج تک کمیونسٹ بھی اس سچائی کو مانتے ہیں کہ نازی جرمنی کے خلاف روس کا نظام نہیں بلکہ وہ حب الوطنی لڑی تھی جس پراس دور کا بہترین ادب تخلیق کیا گیا۔ جس وقت نازی جرمنی لینن گراڈ کے گرد اپنے گھیرا تنگ کرکے بیٹھا تھا اس وقت پوری دنیا کے سوشلسٹ اور کمیونسٹ شاعر اور ادیب ہٹلر کے خلاف لہو گرم کرنے والے الفاظ لکھ رہے تھے۔ وہ ایک سوویت شاعر تھا جس نے اپنی مادری زبان میں اسٹالن کی حمایت میں ایک مشہور نظم لکھی تھی اور اردو کے ترقی پسند شاعر مخدوم محی الدین نے اس نظم کا کس قدر خوبصورت ترجمہ کیا تھا۔ اس وقت بھی مخدوم کے وہ الفاظ میری سماعتوں میں گونج رہے ہیں: کیا میں اس جنگ کا خاموش تماشائی بنوں کیا میں جنت کو جہنم کے حوالے کردوں کیا مجاہد نہ بنوں؟ کیا میں آواز اٹھاؤں نہ وطن کی خاطر میرے پیارے میرے فردوس بدن کی خاطر میرے نغمے تو وہاں گونجیں گے ہے جہاں قافلہ سالار میرا استالین استالین نے میداں میںبلایا ہے مجھے میرے سردار نے میداں میں بلایا ہے مجھے اسٹالن کے حوالے سے خود کمیونزم کی کتابوں میں بھی تنقید ی مواد موجود ہے۔ وہ بہت سخت گیر تھا۔ وہ ظالم تھا۔ اس میں بہت دہشت تھی۔ ان سب باتوں کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ اگر اسٹالن نہ ہوتا تو ہٹلر کو شکست دینا بہت مشکل ہوتا۔ اسٹالن نے وہ کام کر دکھایا جو یورپ بھی نہ کر پایا اور اس نے یہ جنگ صرف ہتھیاروں سے نہیں بلکہ اس جذبے سے لڑی جس جذبے کے سامنے نازی جرمنی ریت کی دیوار ثابت ہوا۔ آخر لینن گراڈ سے لیکر برلن تک مسلسل فتح کوئی آسان کام تو نہ تھا۔ روس سے پاکستان کا سفارتی ماضی خوشگوار نہیں رہا۔ افغان جنگ میں جو کچھ ہوا اس کی یادیں بھلانے جیسی نہیں ہیں۔ مگر وہ ایک دور تھا۔ یہ ایک نیا دور ہے۔ ہم سیاسی طور پر روس کے خلاف رہے ہیں مگر روس کی مخالفت کرنے کے باوجود روسی ادب نے جس طرح ہمارے دلوں کو گرمایا ہے وہ تاریخ کا الگ حصہ ہے۔ امریکہ ہمارے بہت قریب رہا ہے۔ مگر ایک تو امریکہ میں اس پیمانے کا ادب تخلیق نہیں ہوا اور جو ہوا بھی ہے تو اس نے ہمارے جذبات میں تلاطم پیدا نہیں کیا۔ جب ہم روسی ادب کی بات کرتے ہیں تو ہم صرف اس ادب کی بات نہیں کرتے جو انقلاب روس کے اثر تحت تحریر ہوا۔ روس کا اصل ادب تو زار شاہی کے زمانے کا وہ کلاسیکل ادب ہے جس میں ہم کو ٹالسٹائی کا ناول ’’امن اور جنگ‘‘ ملتا ہے۔ جس میں ہمیں دوستو وسکی کا ’’جرم اور سزا‘‘ ملتا ہے۔ جس میں ہمیں پشکن کی شاعری ملتی ہے۔ روسی کا کلاسیکل ادب آج بھی پوری دنیا میں شوق سے پڑھا جاتا ہے ۔ روس کے ادب میں جوجوش اور ولولہ ہے وہ کسی بھی کمزور اور ٹوٹتے بکھرتے ملک کو پھر سے توانائی دے سکتا ہے۔ ہم روس کے ادب میں انسان کا کھویا ہوا وقار تلاش کر سکتے ہیں۔ راقم الحروف کو معلوم ہے کہ روس کے موجودہ وزیر خارجہ سرگی لاروف کوئی شاعر اور دیب قسم کا بندہ نہیں رہا۔ ان کی پوری زندگی سفارکاری کے کام میں گذری ہے۔ ان کے پاکستان کے دورے کو یہ بات بہت اہم بناتی ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ سری لنکا میں گذارا ہے ۔ سری لنکا کی زبان اچھی طرح جانتے ہیں۔ وہ ایشیا کے مزاج سے آگاہ ہے۔ وہ سوویت یونین کے دور میں سری لنکا اور مالدیپ سے ربر کے بیوپار میں اہم کردار ادا چکے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر کسی ملک کے ساتھ مضبوط تعلقات رکھنے ہوتے ہیں تو اس ملک کے ساتھ معاشی تعلقات کو فروغ دیے بغیر وہ کام آسانی سے نہیں ہوسکتا۔ اس لیے سرگی لاروف کا پاکستان میں آنا صرف افغانستان سے امریکی فوج کاانخلاء اور بھارت اور امریکہ کے درمیاں بڑھتے ہوئے دفاعی معاہدات تک نہیں ہوگا۔ سرگی لاروف اپنی سفارتکاری کے حوالے سے اس صلاحیت کے سلسلے میںپہچانے جاتے ہیں کہ ’’نہ تو خالی ہاتھ آتے ہیں اور نہ خالی ہاتھ جاتے ہیں‘‘ پاکستان اور روس کے درمیاں تعلقات کا مضبوط ہونا ایک بہت بڑی بات ہوگی۔ کیوں کہ پاکستان نے امریکہ سے وفا نبھاتے ہوئے روس کی کوئی آفر قبول نہیں کی۔ آج جب امریکہ پاکستان سے بے وفائی کی نئی تاریخ لکھ رہا ہے تب پاکستان کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے لیے نئے ساتھی اور دوست تلاش کرے۔ روس اور پاکستان کے رشتے میں دونوں ممالک کے لیے ایک پیغام پنہاں ہے۔ امریکہ اگر یہ سمجھتا ہے کہ وہ پاکستان کو دنیا میں تنہا کر سکتا ہے تو یہ اس کی بہت بڑی بھول ہے۔ کیوں کہ عالمی اور علاقائی سطح پر ہونے والی نئی صف بندی ایشیا میں امریکہ کے حق میں نہیں بتائی جا رہی۔ امریکہ اپنے ساتھی کھو رہا ہے اور روس پرانے دشمنوں سے نئی دوستی قائم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ امریکہ نے پاکستان کی قدر نہ کی۔ امریکہ نے بھارت سے مل کر پاکستان کے خلاف جو چال چلی وہ چال اب روس کی پیش رفت سے کمزور پڑتی نظر آ رہی ہے۔پاکستان اور روس کی نزدیکی واشنگٹن میں خطرے کی گھنٹی بن کر گونجی ہے۔ امریکہ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ پاکستان کا سیاسی جغرافیہ آج بھی اتنا اہم ہے جتنا کل تھا۔ روس اور پاکستان کی دوستی کا آغاز ایک نئے دور کی نوید بن سکتا ہے۔ روسی شاعر لرمنتوف نے کیا خوب لکھا ہے: ’’ہم تاریخ کے سفر میں بھٹک جاتے ہیں ایک پرندے کے مانند مگر ہوائیں پرندوں کو پرانے آشیانوں سے آشنا کرتی ہیں۔ وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا‘‘