شریف خاندان کے لیے یہ دوسرا ریلیف ہے۔ رمضان شوگر ملز نالہ، آشیانہ کیس میں میاں شہبازشریف اور فواد حسن فواد، صاف پانی کیس میں انجینئر قمرالاسلام اور بیوروکریٹ وسیم اجمل کی ضمانت پر رہائی کا مطلب کسی ملزم کی مکمل بریت ہے نہ استغاثے پر ناکامی کا فتویٰ صادر کرنا قرین انصاف، تاہم ماننا پڑے گا کہ نیب کی پراسیکیوشن برانچ میاں شہبازشریف، فواد حسن فواد، قمرالاسلام اور وسیم اجمل کو کئی ماہ اپنی تحویل میں رکھ کر بھی ملزمان کے خلاف اس قدر شواہد جمع نہیں کر سکی کہ عدالت عالیہ درخواست ضمانت کو یکسر مسترد کر پاتی۔اسلام آباد ہائیکورٹ نے میاں نوازشریف اور مریم نوازشریف کی ضمانت منظور کی تو اس فیصلہ پر سپریم کورٹ نے تحفظات ظاہر کئے، اسے سپریم کورٹ کے طے شدہ اصولوں سے متجاوز قرار دیا، بعض قانون دانوں کے خیال میں میاں شہبازشریف اور فواد حسن فواد کی ضمانت منظور کرنے والے بنچ نے ان حدود و قیود کی پابندی نہیں مگر یہ قانونی اور تکنیکی بحث ہے جس سے عوام اور سیاسی کارکنوں کو سروکار نہیں، حاصل بحث یہ ہے کہ میاں شہبازشریف اب آزاد ہیں اور میاں نوازشریف پرامید کہ انہیں بھی جمعہ کو عدالتی ریلیف ملے گا۔ لاہور ہائیکورٹ کے دو فیصلوں نے نیب کی ساکھ اور قانونی ٹیم کی اہلیت و صلاحیت پر سنجیدہ سوالات کھڑے کردیئے ہیں، مسلم لیگ بلکہ اپوزیشن کو یہ کہنے کا موقع فراہم کیا ہے کہ گرفتاریاں دستاویزی ثبوتوں اور قانونی شواہد کی بنا پر نہیں بلکہ سیاسی پسند و ناپسند کے تحت کی جاتی ہیں اور جونہی معاملہ اعلیٰ عدلیہ کے سامنے آتا ہے، نیب پراسیکیوٹر الزامات کا دفاع نہیں کرپاتے۔ نیب کے سیاسی اور غیر سیاسی قیدیوں کے لواحقین یہ الزام بھی عائد کرتے رہے ہیں کہ گرفتاری کے بعد ناتجربہ کار تفتیشی اہلکار، چیئرمین نیب اور اپنے دیگر افسران بالا کو مطمئن کرنے کے لیے فرضی کہانیاں گھڑتے اور میڈیا ٹرائل کے ذریعے ملزمان کو دبائو میں لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ سرگودھا یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر اکرم چودھری کے صاحبزادگان اپنے والد کا موازنہ پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران کے کیس سے کرتے ہیں جو ضمانت پر رہا ہو چکے مگر ڈاکٹر اکرم چودھری جرم ضعیفی کی سزا کوٹ لکھپت جیل میں بھگت رہے ہیں۔ میاں شہبازشریف کی رہائی سے ان کے زخم ہرے ہوں گے ع ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات بعض ماہرین قانون اور شریف خاندان کے سیاسی مخالفین نیب کے برعکس ملبہ اس قانونی اور عدالتی نظام پر ڈالتے ہیں جو پاکستان میں رائج اور طاقتور، بااثراور دولت مند افراد اور خاندانوں کے لیے مفید و ثمر آور ہے۔ یہ اس نظام کا فیض ہے کہ معمولی جرائم میں ملوث غریب اور متوسط طبقے کے بے قصور افراد، چھوٹے موٹے سرکاری ملازمین اور سیاسی و سماجی اثرورسوخ سے محروم لوگ تو وکیل کی فیس ادا نہ کرسکنے اور تفتیشی اداروں تک رسائی نہ رکھنے کا سبب مہینوں پولیس، ایف آئی اے، نیب اور اینٹی کرپشن کی حوالات میں پڑے ایڑیاں رگڑتے رہتے ہیں مگر اربوں روپے کی خرد برد اور اختیارات کے ناجائز استعمال میں ملوث بڑے مجرم دھن دولت، تعلقات اور طاقت کے بل بوتے پر جب اور جو چاہیں ریلیف حاصل کرتے اور نئی واردات پر چل نکلتے ہیں۔ ماہرین قانون اس بات پر متفق ہیں کہ نیب قوانین کے تحت دوران ریمانڈ ضمانت ملنا مشکل ترین کام ہے مگر شریف خاندان اور زرداری خاندان کو کبھی مشکل پیش نہیں آئی۔ جب میاں نوازشریف اور مریم نواز کی درخواست ضمانت اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت تھی تو قانونی ماہرین کی متفقہ رائے تھی کہ پانچ سال سے زائد سزا یافتہ ملزم کی ضمانت کسی اصول ضابطے اور عدالتی اخلاقیات کے تحت ممکن نہیں مگر یہ ہو کر رہی، آشیانہ کیس میں پچھلے سال ملزمان احد چیمہ، امتیاز حیدر، بلال قدوائی، ساجد شفیق، منیر ضیا، احمد حسن اور منصور چیمہ کی ضمانت لاہور ہائیکورٹ ہی سے مسترد ہوئی جبکہ ان تمام کا قصور یہ تھا کہ وہ آشیانہ اقبال پراجیکٹ کے حوالے سے غیرقانونی احکامات پر عملدرآمد کے مرتکب ہوئے، جبکہ غیرقانونی احکامات جاری کرنے والے وزیراعلیٰ اور فواد حسن فواد کی ضمانت منظور ہو گئی۔ اب قانونی ماہرین اور حکومتی وزراء لاکھ چیختے چنگھاڑتے رہیں کہ یہ فیصلہ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ کے فیصلہ میں طے شدہ پیرا میٹرز سے متصادم ہے جس میں ضمانت کے لیے ٹھوس جواز کو ضروری قرار دیا گیا ہے مثلاً سنگین بیماری یا ایسی نوعیت کی کوئی اور وجہ مگر ضمانت ہونی تھی ہو گئی ؎ خیال زلفِ دوتا میں نصیر پیٹا کر گیا ہے سانپ نکل اب لکیر پیٹا کر ضمانت پر رہائی سے مسلم لیگ ن کو سیاسی فائدہ ہوگا۔ مسلم لیگی کارکنوں کے حوصلے بلند ہوں گے اور یہ سوچ پروان چڑھے گی کہ میاں شہبازشریف کے مقتدر حلقوں سے رابطے کارگر رہے، تحریک انصاف کی حکومت کے بارے میں یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ اسٹیبلشمنٹ اب اس کی پشتی بان نہیں اور عمران خان عدالتی و تفتیشی نظام کو تبدیل تو درکار اس کی موثر نگرانی میں بھی ناکام ہے ورنہ تواتر سے بڑے ملزمان کو ریلیف نہ ملتا اور نیب کے علاوہ حکومت کی ساکھ مجروح نہ ہوتی۔ ان عدالتی فیصلوں سے یہ تاثر پختہ ہوا ہے کہ میاں نوازشریف اور مریم نواز نے محاذ آرائی کو طول دے کر اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ سے دبائو کے ذریعے ریلیف حاصل کرنے کی جو کوششیں کیں وہ ناکام رہیں، ووٹ کو عزت دو کا بیانہ بری طرح فلاپ ہوا بالآخر میاں شہبازشریف اور نثار علی خان کی سوچ درست ثابت ہوئی کہ ہمیں قومی اداروں اور سسٹم پر اعتماد کرنا چاہیے ع مجھے یقیں ہے کہ چشمہ یہیں سے نکلے گا میاں نوازشریف اپنے اور زرداری و بھٹو خاندان کے ساختہ پرداختہ نظام قانون و انصاف کے مضمرات کا ادراک نہ کرسکے شہبازشریف کا اندازہ درست نکلا کہ موجودہ عوام دشمن نظام اشرافیہ کے مفاد میں ہے اور حکومت خواہ کسی کی ہو بااثر طبقہ اس سے بآسانی فیضیاب ہو سکتا ہے۔ مسلم لیگ کی قیادت اور جذباتی پیروکاروں نے قومی اداروں بالخصوص فوج اور عدلیہ کے خلاف جو بدزبانی کی اور پی ٹی ایم جیسی نسل و زبان پرست تنظیموں کی طرح سوشل میڈیا پر منفی مہم چلائی، انہیں لاہور اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلوں پر اپنے گریبان میں جھانکنا ضرور چاہیے کہ وہ آج میاں شہبازشریف کی رہائی پر لڈیاں ڈالنے میں حق بجانب ہیں یا گزرے کل میں گالم گلوچ کرتے ہوئے؟ نیب اور حکومت کو درخواست ضمانت منظور ہونے پر اپنی صفوں کا جائزہ احتیاط اور چابکدستی سے لینا چاہیے کہ استغاثہ نے کہاں کمزوری دکھائی اور میاں شہبازشریف کی قانونی ٹیم کے علاوہ ان کا ذاتی اثر و رسوخ کہاں کارگر رہا۔ وائٹ کالر کرائم کی تفتیش ہر کہہ دمہہ کے بس کی بات نہیں اور ہر وکیل ان مقدمات کی پیروی کامیابی سے نہیں کرسکتا۔ سابقہ دور کی بھرتیوں کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے اور یہ دیکھنا بھی حکومت کی ذمہ داری کہ موجودہ حکومت اور قومی اداروں کی ناکامی کے لیے کون کون، کہاں کہاں سر دھڑ کی بازی لگا رہا ہے۔ اگر احتساب عدالتوں میں پیروی بھی اسی انداز میں ہوئی تو نیب اور حکومت مزید دھچکوں کے لیے تیار رہے ؎ وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ ایک دم نہیں ہوتا