یدِ موسیٰ ؑ جلا کر راکھ کرتا ہے بُزِ اخفش جسے ساحر بناتے ہیں انہیں دست براہیمی گراتا ہے جو بت ہر دور میں آزر بناتے ہیں آپ ذرا ان مندربالا اشعار کے مزاحمتی اور انقلابی تیور دیکھیں شاعر کا نام بتانے سے پیشتر آپ کو دلچسپ بات بتائوں کہ ایک نعرہ ہم کالج کے زمانے سے سنتے آئے تھے۔ وہ تھا’’ہم نہیں مانتے ظلم کے ضابطے‘‘ زبان زد خاص و عام پہ مصرع اسی طرح مشہور ہوا جیسے محسن نقوی مرحوم کا لگایا ہوا نعرہ ’’یااللہ یا رسول‘ بے نظیر بے قصور‘‘ حالانکہ اس میں قافیہ بھی ناپید ہے، پھر بھی یار لوگ اسے لے اڑے۔ اس کے مقابل ضیاء الحق کا دور بھی یاد آتا ہے جب آمریت برداروں نے نعرہ لگایا’’مرد مومن مرد حق ضیاء الحق ضیاء الحق‘ اس میں بھی کچھ ایسا اہتمام نہیں۔ نعرہ بازوں کو بھی تو صرف مقصد سے تعلق ہوتا ہے۔ خیر بات ہو رہی تھی’’ہم نہیں مانتے ظلم کے ضابطے‘ تو جناب بہت بعد میں ہم پر منکشف ہوا جب ہم پیر کلیم احمد خورشید کے منعقد کئے گئے مشاعرہ میں شیخو پورہ بطور مہمان خصوصی گئے۔ وہاں انور علیمی اپنی مشہور زمانہ نظم سنا رہے تھے، اب ہماری تمہاری کھلی جنگ ہے‘ اس نظم میں شعر آیا: ہم ہیں باغی ہمارا یہ اعلان ہے ہم نہیں مانتے ظلم کے ضابطے خیر یہ تو ہمیں علم تھا کہ وہ دھڑے کے وکیل ہیں اور وہ ایک زمانے میں پیپلز پارٹی کے فائونڈر ممبرز بھی رہے ہیں۔ جیسے کہ ہمارے پیارے دوست طارق عزیز صاحب ‘طارق عزیز صاحب تو بھٹو کے لئے بنے ہوئے سٹیج سے تقاریر بھی کرتے رہے۔ انور علیمی کا جب آتش جوان تھا‘ تب بھی بھٹو کے حق میں مزاحمتی نظمیں پڑھتے تھے۔ وہ مزاجاً بھی عدل و انصاف کے داعی تھے اور غریبوں کا درد رکھتے تھے، مزاحمتی شاعری آسان کام نہیں۔ اس دشت میں ہم نے بھی قدم رکھا تھا مجھے پڑھنے والے جانتے ہیں کہ مشرف کے دور میں ہم نے بھی دل جلایا تھا اور وکلاء تحریک میں عملی حصہ لیا تھا۔ اس مزاحمتی ادب کا ایک بڑا نام حبیب جالب ہیں۔ فراز نے بھی نظم محاصرہ سے اس ادب میں شہرت پائی مگر ایک ہوتا ہے مزاحمتی مزاج‘ دیکھا جائے تو ایک دھیما اور لاڈلا مگر پرتاثیر انداز فیض صاحب کا بھی تھا۔ یہ انقلابی اور مزاحمتی شاعری بھی توکلمہ حق ہی ہے۔ دلچسپ بات یاد آئی کہ بائیں بازو کے معروف ادیب اور شاعر ارشد میر میرے پاس آئے اور کہنے لگے‘ شاہ جی کس پاسے چل پئے او۔ ایہہ کم تے ساڈا سی!‘‘ میں نے کہا’’میر صاحب مدافعت صرف بائیں سے نہیں دائیں سے بھی ہوتی ہے‘‘ اس کے بعد ہم خوشگوار موڈ میں آمریت کا رونا روتے رہے۔ آمدم برسرمطلب کہ اچانک میں نے موبائل پر پوسٹ لگی دیکھی جو شیخوپورہ کے نامور شاعر ارشد نعیم نے لگائی تھی کہ انور علیمی اللہ کو پیارے ہو گئے۔میں نے اناللہ پڑھا اور کمنٹ کرتے ہوئے لکھا ’’میں جنازے پر پہنچ رہا ہوں۔ انور علیمی شیخو پورہ کی بہت ہی پڑھی لکھی فیملی کے چشم و چراغ تھے۔ ان کے والد سید ولایت شاہ ہاشمی نے مثنوی مولانا روم کا منظوم ترجمہ کر رکھا ہے اور اقبال کی زبور عجم کا منظوم ترجمہ’’سطور الم‘‘ کے نام سے شائع بھی ہو چکا۔ یہ سات بھائی‘ سب کے سب اچھے تعلیم یافتہ ہیں۔ خاص طور پر شاہد محمود ہاشمی تو پورے فارسی دان ہیں اورطرحدار شاعر بھی ویسے بھی شیخو پورہ کی ادبی فضا میں شاہین عباس‘ ارشد نعیم‘ اظہر عباس ‘ نوید رضا‘ نعیم گیلانی‘ علی آصف اور اشرف نقوی جیسے پھولوں سے فضا مہک رہی ہے۔ معروف مقبول شاعر امین گیلانی اور ان کے فرزند سلمان گیلانی کا تعلق بھی اسی مٹی سے ہے۔ انور علیمی اسی ادبی گلزار کا ایک مہکتا ہوا حوالہ ہیں۔ انور علیمی کا شعری مجموعہ‘ شعلہ افکار‘ بھی مجھے مل گیا جس کا دیباچہ جناب احمد ندیم قاسمی کا لکھا ہوا ہے جس میں انہوں نے ان کی زور دار انقلابی شاعری کو سند عطا کی ہے: شب سیاہ کی آزردگی ہے شب بھر کی عروج صبح طرب‘ بخت آدمیت ہے خوشگوارواقعہ یہ ہوا کہ اس ہاشمی فیملی سے میرا رشتہ یوں جڑا کہ ڈاکٹر شاہد محمود ہاشمی میرے ہم زلف بن گئے۔ وقت گزرتا رہا پھر میرے بیٹے عمیر بن سعد کی شادی ان کی بیٹی عفیفہ ہاشمی سے طے پائی۔ تب انور علیمی سے آخری ملاقات اپنے بیٹے کے ولیمہ پر ہوئی۔ انور علیمی اپنے پرانے ادیب دوستوں کو دیکھ کر نہال ہو رہے تھے۔ میرے بیٹے کی شادی پر ادیب شاعر اور صحافی ہی تھے۔ انور علیمی کی آنکھوں میں ایک ذہین چمک تھی۔ ایسا شخص جو پسے ہوئے طبقے کے حقوق کی جنگ لڑتا’ کتنا نرم مزاج اور صلح جو ہوتا ہے۔ میں جس سے جب بھی ملا انور علیمی کے لئے اسے رطب اللسان پایا۔ ان کے شعری مجموعہ کا میں نے مطالعہ کیا تو پہلی خوشگوار حیرت یہ ہوئی کہ یہ بائیں بازو کا نمائندہ جو تقریباً کامریڈ قسم کی چیز نظر آتا تھا۔ اپنے مجموعے کا آغاز نعت سے کرتا ہے تو مجھے وہ سچا اور کھرا شخص نظر آیا کہ جسے معلوم کہ دنیا کا سب سے بڑا انقلاب نبی پاک ﷺ لے کر آئے جو پرامن انداز میں آیا۔ ایک قطرہ خون بھی نہیں بہایا گیا اور جہاں انسانوں کے حقوق کی بات ہوئی جہاں گورے کو کالے اور کالے کو گورے پر کوئی فوقیت نہ رہی: امن و الفت کا پیمبر‘ حق پرستی کا رسولؐ جنگ بازوں کو سکھایا پیار کا زریں اصول اور اس کے بعدانسان کی انسانیت کے حوالے سے زبردست نظم ہے اور اس کی بنیاد بھی قرآن کی آیت ہے کہ اللہ نے انسان کو اعلیٰ ترین پیدا کیا‘ اب ذرا ان کی مشہور نظم ’’ہماری تمہاری کھلی جنگ ہے‘‘ میں سے ایک اقتباس دیکھ لیں! غم انسان کے بدکار سوداگرو خون ابنائے آدم کے بیوپاریو زر پرستو لٹیرو اے غارت گرو اب ہماری تمہاری کھلی جنگ ہے جثۂ آدمیت پر جھپٹے ہوئے خونخوارو اے انسان نما بھیڑیو وقت کے اے یزیدان سندنشیں غاصبو ‘ رہزنو ‘ ظالمو، جابرو اب ہماری تمہاری کھلی جنگ ہے جنازے میں ان کے کئی دوست شریک تھے۔ خاص طور پر ادیب شاعر وکیل اور تاجر وہ اپنے عہد کا ایک جیتا جاگتا اور بیدار کردار تھے۔ ایسے سچے کھرے اور انصاف پسند تخلیق کار کے لئے ہم دست بدعا ہیں کہ اللہ ان کی کمیاں اور کمزوریاں نظر انداز کرتے ہوئے ان کی بخشش فرمائے۔ آمین
اب ہماری تمہاری کھلی جنگ ہے
اتوار 29 ستمبر 2019ء
یدِ موسیٰ ؑ جلا کر راکھ کرتا ہے بُزِ اخفش جسے ساحر بناتے ہیں انہیں دست براہیمی گراتا ہے جو بت ہر دور میں آزر بناتے ہیں آپ ذرا ان مندربالا اشعار کے مزاحمتی اور انقلابی تیور دیکھیں شاعر کا نام بتانے سے پیشتر آپ کو دلچسپ بات بتائوں کہ ایک نعرہ ہم کالج کے زمانے سے سنتے آئے تھے۔ وہ تھا’’ہم نہیں مانتے ظلم کے ضابطے‘‘ زبان زد خاص و عام پہ مصرع اسی طرح مشہور ہوا جیسے محسن نقوی مرحوم کا لگایا ہوا نعرہ ’’یااللہ یا رسول‘ بے نظیر بے قصور‘‘ حالانکہ اس میں قافیہ بھی ناپید ہے، پھر بھی یار لوگ اسے لے اڑے۔ اس کے مقابل ضیاء الحق کا دور بھی یاد آتا ہے جب آمریت برداروں نے نعرہ لگایا’’مرد مومن مرد حق ضیاء الحق ضیاء الحق‘ اس میں بھی کچھ ایسا اہتمام نہیں۔ نعرہ بازوں کو بھی تو صرف مقصد سے تعلق ہوتا ہے۔ خیر بات ہو رہی تھی’’ہم نہیں مانتے ظلم کے ضابطے‘ تو جناب بہت بعد میں ہم پر منکشف ہوا جب ہم پیر کلیم احمد خورشید کے منعقد کئے گئے مشاعرہ میں شیخو پورہ بطور مہمان خصوصی گئے۔ وہاں انور علیمی اپنی مشہور زمانہ نظم سنا رہے تھے، اب ہماری تمہاری کھلی جنگ ہے‘ اس نظم میں شعر آیا: ہم ہیں باغی ہمارا یہ اعلان ہے ہم نہیں مانتے ظلم کے ضابطے خیر یہ تو ہمیں علم تھا کہ وہ دھڑے کے وکیل ہیں اور وہ ایک زمانے میں پیپلز پارٹی کے فائونڈر ممبرز بھی رہے ہیں۔ جیسے کہ ہمارے پیارے دوست طارق عزیز صاحب ‘طارق عزیز صاحب تو بھٹو کے لئے بنے ہوئے سٹیج سے تقاریر بھی کرتے رہے۔ انور علیمی کا جب آتش جوان تھا‘ تب بھی بھٹو کے حق میں مزاحمتی نظمیں پڑھتے تھے۔ وہ مزاجاً بھی عدل و انصاف کے داعی تھے اور غریبوں کا درد رکھتے تھے، مزاحمتی شاعری آسان کام نہیں۔ اس دشت میں ہم نے بھی قدم رکھا تھا مجھے پڑھنے والے جانتے ہیں کہ مشرف کے دور میں ہم نے بھی دل جلایا تھا اور وکلاء تحریک میں عملی حصہ لیا تھا۔ اس مزاحمتی ادب کا ایک بڑا نام حبیب جالب ہیں۔ فراز نے بھی نظم محاصرہ سے اس ادب میں شہرت پائی مگر ایک ہوتا ہے مزاحمتی مزاج‘ دیکھا جائے تو ایک دھیما اور لاڈلا مگر پرتاثیر انداز فیض صاحب کا بھی تھا۔ یہ انقلابی اور مزاحمتی شاعری بھی توکلمہ حق ہی ہے۔ دلچسپ بات یاد آئی کہ بائیں بازو کے معروف ادیب اور شاعر ارشد میر میرے پاس آئے اور کہنے لگے‘ شاہ جی کس پاسے چل پئے او۔ ایہہ کم تے ساڈا سی!‘‘ میں نے کہا’’میر صاحب مدافعت صرف بائیں سے نہیں دائیں سے بھی ہوتی ہے‘‘ اس کے بعد ہم خوشگوار موڈ میں آمریت کا رونا روتے رہے۔ آمدم برسرمطلب کہ اچانک میں نے موبائل پر پوسٹ لگی دیکھی جو شیخوپورہ کے نامور شاعر ارشد نعیم نے لگائی تھی کہ انور علیمی اللہ کو پیارے ہو گئے۔میں نے اناللہ پڑھا اور کمنٹ کرتے ہوئے لکھا ’’میں جنازے پر پہنچ رہا ہوں۔ انور علیمی شیخو پورہ کی بہت ہی پڑھی لکھی فیملی کے چشم و چراغ تھے۔ ان کے والد سید ولایت شاہ ہاشمی نے مثنوی مولانا روم کا منظوم ترجمہ کر رکھا ہے اور اقبال کی زبور عجم کا منظوم ترجمہ’’سطور الم‘‘ کے نام سے شائع بھی ہو چکا۔ یہ سات بھائی‘ سب کے سب اچھے تعلیم یافتہ ہیں۔ خاص طور پر شاہد محمود ہاشمی تو پورے فارسی دان ہیں اورطرحدار شاعر بھی ویسے بھی شیخو پورہ کی ادبی فضا میں شاہین عباس‘ ارشد نعیم‘ اظہر عباس ‘ نوید رضا‘ نعیم گیلانی‘ علی آصف اور اشرف نقوی جیسے پھولوں سے فضا مہک رہی ہے۔ معروف مقبول شاعر امین گیلانی اور ان کے فرزند سلمان گیلانی کا تعلق بھی اسی مٹی سے ہے۔ انور علیمی اسی ادبی گلزار کا ایک مہکتا ہوا حوالہ ہیں۔ انور علیمی کا شعری مجموعہ‘ شعلہ افکار‘ بھی مجھے مل گیا جس کا دیباچہ جناب احمد ندیم قاسمی کا لکھا ہوا ہے جس میں انہوں نے ان کی زور دار انقلابی شاعری کو سند عطا کی ہے: شب سیاہ کی آزردگی ہے شب بھر کی عروج صبح طرب‘ بخت آدمیت ہے خوشگوارواقعہ یہ ہوا کہ اس ہاشمی فیملی سے میرا رشتہ یوں جڑا کہ ڈاکٹر شاہد محمود ہاشمی میرے ہم زلف بن گئے۔ وقت گزرتا رہا پھر میرے بیٹے عمیر بن سعد کی شادی ان کی بیٹی عفیفہ ہاشمی سے طے پائی۔ تب انور علیمی سے آخری ملاقات اپنے بیٹے کے ولیمہ پر ہوئی۔ انور علیمی اپنے پرانے ادیب دوستوں کو دیکھ کر نہال ہو رہے تھے۔ میرے بیٹے کی شادی پر ادیب شاعر اور صحافی ہی تھے۔ انور علیمی کی آنکھوں میں ایک ذہین چمک تھی۔ ایسا شخص جو پسے ہوئے طبقے کے حقوق کی جنگ لڑتا’ کتنا نرم مزاج اور صلح جو ہوتا ہے۔ میں جس سے جب بھی ملا انور علیمی کے لئے اسے رطب اللسان پایا۔ ان کے شعری مجموعہ کا میں نے مطالعہ کیا تو پہلی خوشگوار حیرت یہ ہوئی کہ یہ بائیں بازو کا نمائندہ جو تقریباً کامریڈ قسم کی چیز نظر آتا تھا۔ اپنے مجموعے کا آغاز نعت سے کرتا ہے تو مجھے وہ سچا اور کھرا شخص نظر آیا کہ جسے معلوم کہ دنیا کا سب سے بڑا انقلاب نبی پاک ﷺ لے کر آئے جو پرامن انداز میں آیا۔ ایک قطرہ خون بھی نہیں بہایا گیا اور جہاں انسانوں کے حقوق کی بات ہوئی جہاں گورے کو کالے اور کالے کو گورے پر کوئی فوقیت نہ رہی: امن و الفت کا پیمبر‘ حق پرستی کا رسولؐ جنگ بازوں کو سکھایا پیار کا زریں اصول اور اس کے بعدانسان کی انسانیت کے حوالے سے زبردست نظم ہے اور اس کی بنیاد بھی قرآن کی آیت ہے کہ اللہ نے انسان کو اعلیٰ ترین پیدا کیا‘ اب ذرا ان کی مشہور نظم ’’ہماری تمہاری کھلی جنگ ہے‘‘ میں سے ایک اقتباس دیکھ لیں! غم انسان کے بدکار سوداگرو خون ابنائے آدم کے بیوپاریو زر پرستو لٹیرو اے غارت گرو اب ہماری تمہاری کھلی جنگ ہے جثۂ آدمیت پر جھپٹے ہوئے خونخوارو اے انسان نما بھیڑیو وقت کے اے یزیدان سندنشیں غاصبو ‘ رہزنو ‘ ظالمو، جابرو اب ہماری تمہاری کھلی جنگ ہے جنازے میں ان کے کئی دوست شریک تھے۔ خاص طور پر ادیب شاعر وکیل اور تاجر وہ اپنے عہد کا ایک جیتا جاگتا اور بیدار کردار تھے۔ ایسے سچے کھرے اور انصاف پسند تخلیق کار کے لئے ہم دست بدعا ہیں کہ اللہ ان کی کمیاں اور کمزوریاں نظر انداز کرتے ہوئے ان کی بخشش فرمائے۔ آمین
آج کے کالم
یہ کالم روزنامہ ٩٢نیوز میں اتوار 29 ستمبر 2019ء کو شایع کیا گیا
آج کا اخبار
-
پیر 25 دسمبر 2023ء
-
پیر 25 دسمبر 2023ء
-
منگل 19 دسمبر 2023ء
-
پیر 06 نومبر 2023ء
-
اتوار 05 نومبر 2023ء
اہم خبریں