سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کی رواں ہفتے پاکستان آمدکو غیر معمولی اہمیت کا دورہ سمجھاجارہا ہے۔وہ سعودی عرب میں اس وقت سب سے طاقت ور اورتیزی سے فیصلے کرنے اور ان پر عمل درآمدکرانے والی شخصیت کی شناخت رکھتے ہیں۔پاکستان کے ساتھ دوستانہ اور اسٹرٹیجک تعلقات کی وہ تجدید کرنے آرہے ہیں۔گزشتہ دس بارہ برسوں میں پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں سرد مہری آچکی تھی۔ عمران خان کے وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد سعودی عرب کے ساتھ تعلقات میں نہ صرف گرم جوشی پیدا ہوئی بلکہ سعودی عرب نے پاکستان کی ڈوبتی ہوئی معیشت کو سہارا دینے کے لیے گراں قدر مالی امداد بھی فراہم کی ۔ محمد بن سلمان کا دورہ پاکستان تعلقات کو مزید وسعت اور گہرائی عطا کرے گا۔ شنید ہے کہ سعودی عرب پاکستان میں پندرہ ارب ڈالر سے اوپر سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ رکھتاہے۔بقول وزیر خزانہ اسد عمر پاکستان کی تاریخ کی یہ سب سے بڑی بیرونی سرمایہ کاری ہوگی۔پاکستان کی بیمار معیشت کے لیے یہ سرمایہ کاری تریاق کا کام کرے گی۔ گزشتہ چھ ماہ میںپاکستان کی براہ راست بیرونی سرمایہ کاری اسٹیٹ بینک کے مطابق پچاس فی صد سے زائد گر ی۔ روپے کی ڈالر کے مقابلے میں تینتیس فی صد قدر کم ہوئی۔سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پاکستان کی مدد کو نہ آتے تو دیوالیہ ہونے کا خدشہ کب کا حقیقت بن چکاہوتا۔ سعودی عرب نے نہ صرف پاکستان کو تین برسوں تک مفت تیل فراہم کرنے کا اعلان کیا بلکہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں اربوں ڈالر بھی رکھوائے تاکہ پاکستان دیوالیہ ہونے سے بچ سکے۔ پاکستان کے ساتھ دوستی اور محبت کی روایت محمد بن سلمان کے دادا شاہ عبدالعزیز مرحوم نے ڈالی۔ اب تیسری نسل اس سلسلہ مہروفا کو نبھارہی ہے۔ اس عرصے میں جہاں دنیا بدلی وہاںعالم عرب کی سیاست اور معیشت میں بھی دوررس تبدیلیاں رونما ہوئیںلیکن پاکستان سعودی عرب اور سعودی عرب پاکستان کی خارجہ پالیسی کا اہم ستون رہے ہیں۔ سعودی عرب میں حکمران خاندان کی نئی نسل زمام کار سنبھال چکی ہے۔ کاروبارکے فروغ ، مملکت کو ترقی دینے،علاقائی سیاسی اور سماجی اثر ورسوخ کو خطے میں قائم رکھنے اور بڑھانے کے لیے جو مسلسل فکرمند ہے۔ دوسرے ملکوں کے تعلقات کو وہ ملکی مفاد کی عینک سے دیکھتے ہیں۔سعودی حکمرانوں کی نئی نسل کاروبار اور باہمی مفاد پر تعلقات استوار کرنے پر مائل ہے ۔ پاکستان کو امداد ، مفت تیل اور ادھار حاصل کرنے سے اوپر اٹھ کر کاروباری روابط کو وسعت دینے اوردوطرفہ معاشی انحصار بڑھانے جیسے اقدامات کرنے ہوں گے۔ محمد بن سلمان نے حالیہ برسوں میں جہاں داخلی معاملات میں سخت گیری سے کام لیا وہاں کئی ایک اصلاحات بھی متعارف کرائیں۔قبائلی روایات کی جکڑ بندیوں اور ملائیت کے اشتراک نے سعودی شہریوں کی آزادیوں پر ناروا پابندیاں عائد کررکھی تھیں۔محمد بن سلمان نے بند معاشرے کو بڑی حد تک کھولا ۔ شہریوں کو سماجی آزادی دی ۔قدامت پسندی اور روایتی نظام پر اڑنے کے بجائے انہوں نے اصلاح احوال کی طرح ڈالی۔تفریح کے مواقعوں میں وسعت پیدا کی۔ اسلام اور سعودی عرب کا مثبت اور، تعمیری چہرہ دکھانے کے علاوہ ، بقائے باہمی اور تکثیریت کے اصولوں کو رواج دینے کی کوشش کی۔ ان اقدامات نے دنیا میں سعودی عر ب کے مثبت امیج کو ابھارا۔ محمدبن سلمان سعودی معیشت کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی بھی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اگلے ایک ڈیڑھ عشرے میں پٹرول کی قیمت میں غیر معمولی کمی واقع ہونے کا امکان ہے۔ سائنسی ایجادات کی بدولت ٹرانسپورٹ کا لگ بھگ پورا نظام بیڑی پر منتقل ہونے جارہاہے۔ کہاجاتاہے کہ اگلے کچھ برسوں سے تمام بڑی کمپنیاں پٹرول پر چلنے والی گاڑیاں بنانا بند کردیں گی۔اس پس منظر میں سعودی عرب بھی معیشت کو جدید خطوط پر ڈھالنے کے لیے تیزی سے اقدامات کررہاہے۔ سیاحت، سائنس، ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت سے فائدہ اٹھانے کے لیے خطیر رقم خرچ کی جارہی ہے۔غیر ملکی محنت کشوں پر انحصار کم کیا جارہاہے۔ سعودی شہریوں کو ہر شعبہ زندگی میں ذمہ داریاں سونپی جارہی ہیں۔ عورتوں کو روزگار فراہم کرکے معیشت کا فعال حصہ بنانے کے ٹھوس اقدامات کیے جارہے ہیں۔ محمد بن سلمان ابھی محض تنتیس برس کے ہیں لیکن کاروبار سلطنت چلارہے ہیں۔ ان کے والد شاہ سلمان بن عبدالعزیز روزمرہ کے امور میںدخل نہیں دیتے۔ اگرچہ انہیں شاہی خاندان کے اندر کئی ایک طاقت ور حریفوں کا سامنا ہے۔اس کے باوجود یہ کہاجاسکتاہے کہ اگلے کئی عشروں تک وہ سعودی عرب کے حکمران رہیں گے۔اگر حالات معمول کے مطابق رہے تو ان کا شما ر بھی طویل عرصے تک حکمران رہنے والی شخصیت میں ہوسکتاہے۔ اس پس منظر میں پاکستان کے محمد بن سلمان کے ساتھ سرکاری سطح پر تعلقات بہت اہمیت کے حامل ہیں۔دونوں ممالک کی مسلح افواج کے درمیان تعاون اور شراکت داری کی ایک طویل تاریخ ہے۔ پاکستان نے سعودی عرب کی فوج کو تربیت دینے اور منظم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ۔حرمین شریفین کے تحفظ کے لیے بھی حکومت اور افواج پاکستان کے سربراہوں نے ہمیشہ غیر متزلزل عزم کا اظہار کیا ہے۔ان تعلقات میں وقت کے ساتھ وسعت آئی ہے۔دونوں ممالک کی افواج اور خفیہ اداروں میں پائی جانے والی شراکت داری خطے کے استحکام کے لیے ایک اثاثہ ہے۔ محمد بن سلمان کے دورے سے پاکستان میں براہ راست بیرونی سرمایہ کاری کے امکانات روشن ہوجائیں گے۔غیر ملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوگا۔ غالباًاسی پس منظر میںحکومت نے دنیا کے ایک پچاس ممالک کے لیے ای ویزہ کی سہولت کا اعلان کیا ہے۔ اسلام آباد ، لاہور اور کراچی کے علاوہ غیر ملکیوں کو کہیں آنے جانے کی اجازت نہ تھی۔ اب اس پابندی کے خاتمے کی منادی کرادی گئی ہے۔ نوکر شاہی نے ان اصلاحات پر ان کی روح کے مطابق عمل ہونے دیا اور سیاستدانوں کی باہمی چپقلش میں کچھ کمی آئی تو اگلے چند برسوں میں پاکستان ایک بدلا ہوا ملک ہوگا ۔ انشا اللہ۔