کچھ عرصہ بعد میدان سجے گا سبھی ایک جیسے ہی ہوں گے کیا ایسا ہی اتحادی نظام آگے چلے گا؟ مسلم لیگ میں اس وقت تین وزیراعظم ہیں نواز شریف شاہد خاقان عباسی جبکہ موجودہ وزیراعظم شہباز شریف پیپلز پارٹی میں آصف علی زرداری سابق صدر پاکستان سابق وزراء عظم یوسف رضا گیلانی راجہ پرویز اشرف قاف لیگ سے چوہدری شجاعت وزیراعظم رہ چکے ہیں۔ بظاہر ابھی ایک دھندلی سی تصویر ہے۔ کیا اب بھی ان سب کا مقابلہ پی ٹی آئی سے ہوگا؟ کیا موجودہ صورتحال میں پی ٹی آئی اپنا وجود برقرار رکھ سکے گی؟ بظاہر پی ٹی آئی کا اوور لوڈنگ کی وجہ سے چالان ہوچکا ہے جس کی وجہ سے بہت سی سواریاں چھلانگیں لگا کر اتر رہی ہیں ایسا تو ممکن نہیں کہ اس گاڑی کا فی الحال ڈرائیور ہی رہ جائے ہاں ایسے آثار ہیں کہ ڈرائیور ہی بدل دیا جائے یا موجودہ ڈرائیور ہی کسی اور کو ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا دے۔ اوور لوڈنگ اور شدید حادثے کی وجہ سے ڈرائیور کو آرام کا مشورہ دیا جائیبجائے اس کے کہ اگر ضد برقرار رہتی ہے تو لائسنس ہی منسوخ کردیا جائے بہتر ہے ڈرائیور سڑک پر موجود رہنے کی پیشکش سے فائدہ اٹھائے۔ جو سواریاں چھلانگیں لگا کر اتری ہیں حادثے کی نوبت بھی انہی کی وجہ سے آئی ہے۔ توقع بھی تھی کہ ایسے چھلانگیں لگائیں گے۔ ہو سکتا ہے کہ گاڑی کی مرمت کرکے نیا رنگ روغن ہی کردیا جائے اس سارے کھیل میں زرداری صاحب کی مسکراہٹیں بھی معنی خیز ہیں۔ پانچ سال صدر کیا رہے سب سے ہیلو ہائے کرلی۔ تقریبا سندھ محفوظ کر لیا اب اگر وہ پنجاب بلوچستان کے پی کے سے چند سواریاں اٹھانے میں کامیاب ہوگئے تو ڈرائیونگ سیٹ پر آ سکتے ہیں۔ نواز لیگ یعنی جس جماعت کا نام ہی نواز شریف سے ہے اس کی اہمیت بھی اسی شخصیت سے ہوگی۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ جہاں ایک دم سے خان صاحب پہنچے ہیں نواز شریف بھی اسی سڑک پر مطلب شارع ممنوعہ پر تیز رفتاری کے ساتھ کبھی کبھار ہارن بجاتے رہے ہیں یہ دونوں حرکات وہاں سخت منع ہیں اس لیے اعتبار ایک دم سے بحال ہونا ممکن نظر نہیں آرہا۔ ایک صورت ہے کہ وہ بھی ڈرائیونگ سیٹ سے دستبردار ہو جائیں قائد کے طور پر خود آ کر پارٹی چلائیں کیا اس پر وہ راضی ہوں گے؟ کیونکہ خان صاحب نے پنجاب میں انہیں سخت چیلنج دیا ہے۔ دوبارہ سے پنجاب میں اپنی پوزیشن بحال کرنا بہت کٹھن مرحلہ ہے یعنی ان کی موجودگی بہت ضروری ہے۔ اٹک سے لیکر رحیم یار خان تک انہیں دوبارہ جانا ہوگا۔ بظاہر پارٹی تنظیمی امور میں بالکل غیر فعال ہے۔ مریم صاحبہ نے کچھ سہارا دیا مگر وہ کرشماتی شخصیت بن نہیں سکیں اس کی وجہ وزیراعظم کا عہدہ مدبری رعب اور عالمی سطح پر کچھ جانکاری مانگتا ہے۔ ایسا ان میں کچھ نہیں۔ مقامی سطح پر وہ کافی متحرک ہوئی ہیں مگر وہ جو قرعہ فال ہے وہ نظر نہیں آرہا ہے اب اگر نواز شریف صاحب خود قیادت کرتے ہیں تو ظاہر ہے وہ ڈرائیونگ سیٹ کا تقاضہ تو کریں گے۔ اگر تو پی ٹی آئی پیٹریاٹ کی شکل میں برآمد ہوتی ہے تو پھر یہ ایک اور پارٹی کا اضافہ ہوگا ایسا چونکہ ماضی میں بھی ہوتا رہا ہے مگر ایسی پارٹی دیرپا نہیں ہوتی البتہ کام چلایا جا سکتا، ہو سکتا ہے ایسا وقت آ جائے کہ پیٹریاٹس جس طرف ہوں گے وہی سکندر ہو تو پھر زرداری اور نواز شریف صاحب کا ڈرائیونگ سیٹ کا تقاضہ ویسے ہی معدوم ہو جائے۔ایم کیو ایم، اے این پی اور بلوچستان سے پارٹیاں فضل الرحمان اور دوسری مذہبی جماعتیں اور پیٹریاٹس کا گروپ بنا دیا جائے۔سب سے اہم پنجاب ہوگا نوازلیگ کا اصل مقابلہ یہیں سے ہو گا، اگر پنجاب میں ہر کسی کے حصے میں نشستیں آئیں تو کہانی یکسر ہی بدل جائے گی۔ مطلب پنجاب سے کسی ایک پارٹی کو واضح اکثریت سے جیتنا ضروری ہے جس کا فی الحال امکان نظر نہیں آرہا سیاست چونکہ اقتدار کا راستہ ہے لہذا جذباتی ماحول بے اثر ہوتا ہے یہاں صرف ہر کوئی اپنے حتمی مشن کی جانب بڑھے گا۔ نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کی شراکت اقتدار نے یہ ثابت کر دیا کہ سیاست میں نہ کوئی دشمنی ہوتی اور نہ ہی کوئی دوستی اور نہ ہی انا۔ یاد آیا عالمی سطح پر بھی کچھ کھسر پھسر ہو رہی ہے کچھ نئے بلاک بن رہے ہیں ہو سکتا ہے کچھ پارٹیاں ایسی صورت حال کا بھی فائدہ اٹھائیں۔ نومئی کے سانحے نے موجودہ حکمرانوں کی ایک سال سے جاری حکمرانی کو صاف ستھرا کر دیا ہے مطلب عوام ان سے کارکردگی کا تو پوچھیں گے ہی نہیں ویسے یہ ساری پارٹیاں کیا منشور کیا کارنامے لے کر عوام کے پاس جائیں گی۔ سب سے حیران کن امر یہ ہے کہ گزشتہ چالیس سال میں ان سب کی کارکردگی صاف عیاں ہے وہی نعرے وہی الزامات وہی ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کے علاوہ ہوگا کیا ان کے پاس۔ اگر الیکشن کے فوری بعد یہی دھاندلی کے الزامات ہی لگنے ہیں تو فائدہ کیا۔ کاش دس بارہ افراد پر مشتمل حکومت بن جائے جو صرف اقتصادی امور کو دیکھے اداروں کی اصلاحات کرے۔ بشمول الیکشن کمیشن انرجی کے بحران پر قابو پائے اور یہ سب پارٹیاں کچھ عرصہ چپ کر کے بیٹھ جائیں جیسے آج کل پریس کانفرنسوں میں کہا جاتا ہے کہ میں کچھ عرصہ کے لیے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر رہا ہوں یقین جانیں عوام کا واسطہ ان سے ہی پڑتا ہے جو کرپشن کی آخری حدود کو بھی کراس کر چکے ہیں۔ کوئی ڈر خوف بھی نہیں اگر یہاں ایسا کچھ ہوتا ہے تو دنیا بھی ہمیں سہارا دے گی ہمارا ہاتھ بٹائے گی کیونکہ نئے بننے والے بلاکس ہماری موجودہ صورتحال پر سخت پریشان ہیں۔ہمیں کسی ایسے شخص کی ضرورت ہے جو ہمیں اپنی غفلتوں سے جگائے، نہ کہ وہ جو ہمیں خوابوں اور سرابوں سے ہمکنارکرے۔