چیئرمین سینٹ کے خلاف عدم اعتماد جس طور مسترد ہوئی اسے اس کے علاوہ کیا نام دیا جا سکتا ہے کہ ھذا شیٌ عجاب۔ کئی اخبارات نے شہ سرخی اسی مضمون کی بنائی اور لکھا کہ اپوزیشن کو حیرت ناک شکست۔ اپوزیشن کی شکست حیرت ناک ہے تو حکومت کی فتح کو کیا عنوان دیا جائے؟ عبرت ناک فتح؟ کئی تجزیہ نگاروں نے اس فتح کو غیبی مدد کا مرہون منت قرار دیا۔ غیبی مدد‘ غیبی ہاتھ یا غیب کی کاریگری۔اب ان کا زمانہ رہا ہی کہاں۔ اب تو بس عالم شہود سامنے ہے۔ شہود و مشہود دونوں ایک پیج پر ہیں۔ شاہد اپنے مشاہدے سمیت کسی حساب میں ہے نہ کتاب میں‘ حیراں کھڑا ٹک ٹک دیدم نہ کشیدم کی تصویر بنا ہوا ہے۔ بہرحال کہانی جو بھی ہے‘ عیاں ہے اگرچہ اس کے جزو بکھرے ہوئے ہیں۔ جگ ساپزل کی طرح‘ ٹھیک سے جوڑ دو تو تصویر کرسٹل کلیئر اجزا ملاحظہ ہوں۔ وفاقی مشیر فردوس عاشق اعوان نے کہا‘ جس تعویز سے سنجرانی کو لایا گیا‘ اسی سے بچایا گیا۔ مائوزے تنگ یاد آ گئے ان کا ایک مقولہ کسی زمانہ میں بہت زبان زد عام ہوا تھا کہ طاقت کا سرچشمہ تعویز کی ڈبیہ ہے۔ انہی نے یا شاید کسی اور نے کہا تھا کہ انقلاب تعویز کی ڈوری سے برآمد ہوتا ہے۔ انقلاب کا مطلب قلب ماہیت اور قلب ماہیت کا مطلب ہے تبدیلی، تو یہ مقولہ یوں کہا جا سکتا ہے کہ تبدیلی ہمیشہ تعویز کی ڈوری سے برآمد ہوتی ہے۔ تعویز کی طاقت اور تقدس کا ذکر شیخ رشید نے بھی کیا۔ تعویذ کی بالادستی پر سنجرانی کی جیت نے مہر لگا دی اور ریڈرز یہ بھی یاد رکھیں کہ تعویز کی ڈوری سے جو لوگ انقلاب یا تبدیلی برآمد کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں وہ اصحاب باطن بھی ہیں اور خود چیئرمین سینٹ سنجرانی اصحاب باطن یعنی روشن ضمیر بزرگوں کی صف اول میں شامل ہیں۔ اس کی گواہی بھی اخبار کی خبر نے دی جس میں بتایا گیا کہ ووٹنگ کے مرحلے پر سنجرانی کو اپنی جیت کا مکمل یقین تھا اور وہ پورے اعتماد میں یہ کہہ رہے تھے کہ میں جیتوں گا حالانکہ چند منٹ پہلے ہی قرار داد میں 65ووٹ ان کے خلاف پڑے تھے۔ اسی طرح شبلی فراز ووٹنگ سے پہلے ہی پھولوں کے ہار لے آئے۔ ظاہر ہے یہ روشن ضمیری ہی تھی جو آفاق سے آنے والی الہامی لہروں نے ان کے دلوں پر نازل کی تھی۔ دو مقرب قلم کاروں نے دو الگ الگ اخبارات میں الگ الگ تحریروں میں ایک ہی مشترکہ بات لکھی ہے۔ شورش یعنی تحریک عدم اعتماد۔ ایک اور شاہکار جناب جام کمال نے کیا کمال ارشاد فرمایا۔ کہا اپوزیشن عدم استحکام لانا چاہتی تھی اس کی کوشش ناکام بنا دی گئی۔ یہ بکھرے بکھرے اجزا جوڑنے سے اصول پرستی اور حق سچ کی فتح کا ایک روشن لینڈ سکیپ بن سکتا ہے۔ تاریخ روشن ضمیراں جب کبھی لکھی گئی‘ ایک باب تو یہی ہو گا۔ ٭٭٭٭٭ پیپلز پارٹی کی رہنما شہلا صاحبہ نے فرمایا‘ ہارس ٹریڈنگ ہوئی۔ سینیٹر کی بولی 70کروڑ تھی(اس خبر پر تائیدی حاشیہ سراج الحق نے لگایا ۔ فرمایا کہ حکومت کی قوت خرید زیادہ تھی) سراسر مبالغہ۔ ابھی کل پرسوں ہی وزیر اعظم صاحب نے پھر فرمایا کہ خزانہ بدستور خالی ہے۔ خالی خزانے کی حکومت ستر ستر کروڑ کیسے دے سکتی ہے۔ 70کروڑ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ٭٭٭٭٭ اخبارات میں آج کل خبریں کم روز مرہ زیادہ چھپ رہاہے۔ ایک نظر پہلے اور آخری صفحے پر ڈال لیجیے۔ خود ہی معلوم ہو جائے گا نہیں تو دو مثالیں پیش ہیں۔ مثلاً ایک تین کالمی خبر کل ہی چھپی کہ مہنگائی بے قابو‘ افراط زر بلند ترین سطح پر‘ ہر شے کی قیمت بڑھ گئی۔ اسی خبر کو لے لیجیے‘ یہ ایک سال سے ہر روز نہیں تو ہر آئے روز چھپ رہی ہے۔ بتائیے کیا اسے خبر کہا جا سکتا ہے؟ ظاہر ہے کہ نہیں‘ یہ تو روز مرہ ہے جو ’’تبدیل اللغات ‘‘ کے آنے کے بعد سے چالو شے ہو گیا ہے۔ ایک اور مشہور عالم روز مرہ تو لوگوں کو حفظ ہی ہو گیا: کسی کو نہیں چھوڑوں گا‘ چیخیں نکلوائوں گا۔ رلائوں گا‘ ترسائوں گا‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ ٭٭٭٭٭ مقبوضہ کشمیر کے رہنما سید علی گیلانی نے کہا ہے کہ بھارت کشمیری مسلمانوں کا بڑا قتل عام کرنے والا ہے‘ مسلم امہ ہمیں بچائے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے اس بیان کو ایس او ایس کال سمجھا جائے۔ ایس او ایس کال کی تو سمجھ آ گئی‘ ڈوبتے یا گرتے جہاز کا پائلٹ ہماری جان بچائو کی کال دے تو اسے یہ نام دیا جاتا ہے۔ لیکن مسلم امہ کی سمجھ میں نہیں آئی۔ یہ کس شے کا نام ہے‘ گیلانی صاحب وضاحت کردیتے تو اچھا تھا۔ کچھ کچھ سمجھ میں یہ آ رہا ہے کہ گیلانی صاحب شاید مسلمان ملکوں کو مدد کے لئے پکار رہے ہیں۔ درحقیقت مسلمان ملک کی اصطلاح بھی ناقابل فہم ہے۔ ہاں‘ دنیا میں پچاس ساٹھ ملک ایسے ہیں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے لیکن ایک آدھ کے سوا یہ سارے کے سارے اتنے برے حال میں ہیں کہ رومن امپائر میں بنی اسرائیل کی گمشدہ بھیڑوں کا بھی نہیں تھا۔ وہ گمشدہ بھیڑیں تھیں‘ یہ امریکی کھونٹے سے بندھی بھیڑیں ہیں۔ ہاں‘ ترکی کچھ‘ ذرا سی ‘ مدد کرنے کی پوزیشن میں ہے لیکن وہ بہت دور ہے۔اب آپ کیا کریں گے گیلانی صاحب؟ آل یاسر کی طرح صبر سے کام لیں گے؟ سنا ہے ‘ بھارت کنٹرول لائن پر ہی نہیں‘ سرحد پر بھی کسی بڑی بدمعاشی کا فیصلہ کر چکا ہے۔ اب ہم کیا کریں‘ گیلانی صاحب؟