صادق آباد سے علاج کے لئے لائے گئے 330کلو وزنی نور الحسن کی زندگی کا اختتام ہسپتال میں ہونے والی بدترین بدنظمی اور انتشار کے جن حالات میں ہوا‘ وہ انتہائی افسوسناک اور قابل مذمت ہے۔ یہ صرف ایک حادثہ ایک خبر‘ ایک واقعہ نہیں‘ بلکہ ایک بکھرتے ہوئے سماج کی علامت‘ اداروں کے زوال اور معالج اور مریضوں کے درمیان اعتماد کے باہمی رشتوں کی شکست و ریخت کی کہانی ہے۔ نور الحسن کچھ عرصہ سے خبروں میں تھا۔ خصوصاً اس وقت جب وہ اپنے صادق آباد والے چھوٹے سے گھر میں چارپائی پر لیٹا آرمی چیف جنرل باجوہ سے ایک ویڈیو میں اپیل کرتا ہوا پایا گیا ۔اسے شالیمار ہسپتال کے ڈاکٹروں نے اس کے موٹاپے سے نجات دلانے کے لئے مفت علاج کی امید دلائی تھی۔ وہ اپنے موٹاپے کے ہاتھوں کئی برس سے قریب قریب معذوروں والی زندگی گزار رہا تھا۔ لاہور کے نجی ہسپتال کے لیپرو سکوپک کے ماہر ڈاکٹر معاذ نے علاج کا وعدہ کیا تھا۔ خیر اس کی اپیل پر آرمی چیف نے ایئرایمبولینس کا بندوبست کروایا اور وہ لاہور منتقل ہو گیا۔ پھر خبر آئی کہ پہلی سرجری ہونے کے بعد وہ کامیابی سے وزن کم کر دیا ہے اور جلد ہی وہ ایک صحت مند انسان کی زندگی گزارنے کے قابل ہو سکے گا۔سوشل میڈیا کے اس دور میں لائکس ‘ کمنٹس اور شیئرنگ کی خواہش ایک بیماری کی طرح انسانی فطرت میں سرایت کر چکی ہے۔ سو بے چارہ نور الحسن بھی ڈاکٹروں کی اس خواہش کی نذر ہوتا رہا‘ پل پل کی خبریں ویڈیوز اور اپ ڈیٹس لوگوں کو پتہ چلتی رہیں۔ مجھے ہمیشہ اس بات کی کوفت ہوتی ہے کہ لوگ مریض کی اجازت کے بغیر ہسپتال کے بیڈ پر پڑے ہوئے دوران علاج‘ مریض کا تصویریں اور ویڈیوز شیئر کرتے ہیں۔ بہرحال لوگوں کو نور الحسن کے بارے میں جان کر ہی اس سے ایک انسیت پیدا ہو گئی۔ علاج کے دس روز میں روزانہ خبریں آتی رہیں کہ وہ صحت یاب ہو رہا ہے۔ پھر اچانک خبر آئی کہ چیف آف آرمی سٹاف نے جس مریض کے لئے ایئر ایمبولینس بھجوائی تھی اس کا انتقال ہو گیا۔ یہ خبر سارے ٹی وی چینلز پر چلی۔ اس کا پس منظر نہایت افسوسناک ہے۔ جن حالات میں نور الحسن کا انتقال ہوا اسے ہم طبعی موت نہیں کہہ سکتے بلکہ ہسپتال کی بدنظمی اور طبی سٹاف کی بے حسی‘ ہسپتال میں قانون ضابطے اور قاعدے کی عدم دستیابی نے نور الحسن کو قتل کر دیا۔واقعے کا پس منظر یہ ہے کہ اس ہسپتال میں ایک مریضہ بچے کی پیدائش کے دوران دم توڑ گئی اس کے لواحقن نے الزام عائد کیا کہ ڈاکٹروں کی غفلت مریضہ کی موت کا سبب بنی۔ لواحقین نے اپنے غم و غصہ کا اظہار اس بری طرح کیا کہ ہسپتال میں توڑ پھوڑ شروع کر دی۔ نور الحسن کی موت کی وجہ بتاتے ہوئے اس کے ڈاکٹروں نے بھی یہی کہا کہ مریضہ کے لواحقین نے آئی سی یو کی مشینیں توڑ دیں۔ تار نکال دیں اور اس حملے سے جان بچانے کے لئے میڈیکل سٹاف اور نرس ادھر ادھر چھپ گئے۔جبکہ وینٹی لیٹر کی مدد سے سانس لیتا ہوا نور الحسن ان مشینوں پر انحصار کئے ہوئے تھا اس کی توڑ پھوڑ کے بعد اس کا مرنا یقینی تھا۔ انتہائی نگہداشت کے مریض کے وارڈ تک ہسپتال میں توڑ پھوڑ کرنے والے تخریبی افراد کی رسائی سمجھ سے باہر ہے۔ ہسپتال کی سکیورٹی کا اپنا عملہ اس وقت کہاں تھا بدنظمی کی اس صورت حال پر کیوں نہ بروقت قابو پایا گیا۔ انتہائی نگہداشت کے مریض کو میڈیکل سٹاف اکیلا چھوڑ کر کیسے ادھر ادھر ہو گیا۔ صورت حال سے تو ایسا لگتا ہے جیسے یمن یا فلسطین کے کسی جنگ زدہ علاقے کے ہسپتال کا تذکرہ ہو رہا ہے‘ جہاں دشمن نے اچانک ہلہ بول دیا ہو اور اس حملے میں جان بچانے کے لئے سب کو اپنی اپنی پڑی ہو۔ لیکن نہیں جناب‘یہ پنجاب کے دارالحکومت کے ایک بڑے ہسپتال میں ہونے والی بدترین بد نظمی ہے۔ سوچ لیجیے کہ اگر صوبائی دارالحکومت کے بڑے اور مہنگے ہسپتالوں میں ابتری کی یہ صورت حال ہے تو پھر سرکاری ہسپتالوں اور پسماندہ شہروں کی سہولتوں سے عاری علاج گاہوں کا کیا حشر ہو گا۔ یہ بات بھی یقینا قابل غور ہے کہ ایک صحت مند خاتون زچگی کے دوران کیسے اچانک مر گئی؟ اس کے لواحقین کا غم و غصہ اپنی جگہ جائز ہو گا۔ پیسے کے بل بوتے پر تیار شدہ لوگوں کی نالائق اولادیں‘ اب عطائی ڈاکٹروں کے روپ میں ہسپتالوں میں موجود ہیں جس تعلیم کی بنیاد ہی بددیانتی پر رکھی گئی ہو اس سے کسی کو کیا برکت مل سکتی ہے۔ تشخیص کرنا آتا نہیں بس مریض کو تختہ مشق بنا کر فارما سوٹیکل کمپنیوں کی مہنگی دوائیں بکوانا بھی بیشتر ڈاکٹروں کی اصل ڈاکٹری ہے تاکہ پنج ستارہ ہوٹلوں کے فیملی ڈنر اور بیرون ملک کی سیریںکھری کروائی جا سکیں۔ مسیحائی اب کمرشل ہو چکی ہے۔ مریض اور ڈاکٹر کے درمیان اعتماد اور اعتبار کا رشتہ شکست و ریخت کا شکار ہے۔ ڈاکٹر کے لئے بیمار شخص‘ اس کا مریض نہیں محض ایک گاہک ہے۔ چونکہ وہ خود ایک معالج سے دکاندار بن چکا ہے۔ معالج اور مریض کے درمیان احساس اور درد کا رشتہ ہوتا ہے۔ جبکہ گاہک اور دکاندار کے درمیان پیسے کمانے کا اور منافع کا رشتہ ہوتا ہے۔ گاہک اپنی جیب بچاتا ہے اور دکاندار اس کی جیب سے پیسے نکلوانا جانتا ہے۔ اب معالج کے پاس جاتے ہوئے مریض کو اپنی صحت کے ساتھ جیب کی فکر بھی ہوتی ہے۔ وہ غیر ضروری ٹیسٹ اور غیر ضروری دوائیں نہ دے تو فارما سوٹیکل آقائوں کو خوش کیسے کرے۔جہاں پورا سماج ہی اقدار کے زوال کا شکار ہو وہاں نور الحسن کی موت کی شفاف تحقیقات کی خواہش کرنا اور اس حادثے کے ذمہ داروں کو ان کی مجرمانہ غفلت پر سزا دلانے کا مطالبہ کرنا اس معاشرے میں ایک بے ثمر کوشش کے مترادف ہے۔اس لئے کہ یہاں روز ایسے سانحے ہوتے ہیں۔ آج ہونے والے ٹرین کے حادثے کو ہی لے لیں۔ ایک شخص کی غفلت سے کتنی قیمتی جانوں کی ہلاکت ہوئی۔ جس معاشرے میں مسلسل انتشار کی کیفت ہو ‘ بدنظمی‘ ابتری اور بکھرائو روز بڑھتا جائے وہاں ایسے سانحے معمول کی خبریں بن جاتے ہیں۔ اس لئے کہ ابتری اور انتشار کے مظاہر جگہ جگہ سماج میں ہمیں دکھائی دیتے ہیں۔ آئرش شاعر W.B yeatsکی نظم "the second coming" کی دو سطور یاد آتی ہیں۔ things fall a aprt: the centre connot hold mere anarchy is loosed upon the world''