افغانستان میں سیز فائر کا عمل شروع ہے اور اگر کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما نہ ہوا تو 29فروری کو صدر ٹرمپ امن معاہدے پر دستخط کر دیں گے‘ امریکہ افغانستان سے اپنی فوج نکال لے گا اور صدر اشرف غنی بدلخواستہ ہی طالبان کی خوشنودی کے جتن کریں گے۔ مصدقہ اطلاعات کے مطابق صدر ٹرمپ پچھلے سال جنوری ‘فروری میں سیز فائر اور مئی میں امن معاہدہ چاہتے تھے مگر طالبان نہیں مانے‘ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ آیا اپنی مرضی سے تھا‘ جائے گا ہماری مرضی سے‘ ٹائم شیڈول بھی ہم دیں گے‘ امریکی صدر نے درمیان میں مذاکرات معطل کر کے دیکھ لیا فائدہ کچھ نہ ہوا‘ نقصان بڑھ گیا اور اتحادیوں کے علاوہ امریکہ کی Deep Stateکے سامنے شرمندگی اٹھانی پڑی‘ سیز فائر اور امن معاہدے میں تاخیر کی ایک وجہ شائد یہ بھی تھی کہ افغان طالبان اور ان کے خیر خواہ امریکہ میں انتخابی عمل شروع ہونے کے منتظر تھے‘ چند ماہ قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مذاکرات معطل کر کے افغان طالبان اور ان کے خیر خواہوں کے ذہنوں میں موجود اس خدشے کو سچ ثابت کر دیا کہ اگر سیز فائر یا امن معاہدہ امریکی ٹائم شیڈول کے مطابق ہوا اور افغانستان میں 1990ء کے عشرے کی طرح خانہ جنگی کا آغاز ہو گیا تو سپر پاور کے سربراہ اندرونی دبائو پر معاہدے سے مکر بھی سکتے ہیں۔ امن معاہدے کے مطابق افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا اس وقت شروع ہو رہا ہے جب افغان صدارتی انتخابات تنازع کا شکار ہیں۔ عبداللہ عبداللہ اور طالبان نے انتخابات کے نتائج ماننے سے انکار کر دیاہے‘ صدر ٹرمپ انتخابی عمل میں اتر چکے ہیں اور انہیں جماعتی سطح پر شدید مخالفت کا سامنا ہے۔ نامزدگی حاصل کرنے اور انتخابات جیتنے کے لئے انہیں افغانستان میں کامیابی اور دہشت گردی کے خاتمے کا دلکش نعرہ درکار ہے اور امریکی deep Stateاس امر کی خواہش مند کہ انخلا سے امریکہ کی پسپائی کا تاثر نمایاں ہو نہ نیٹو کی صفوں میں دراڑ پڑے۔ پچھلے سال صدر ٹرمپ یکطرفہ انخلا پر تل گئے تھے انہیں مشکل سے روکا گیا ۔یکطرفہ انخلا امریکہ کی پسپائی بلکہ رسوائی کا آئینہ دار ہوتا اور نیٹو کی شکست و ریخت کا باعث۔نیٹو کے رکن ممالک آئندہ امریکہ پر اعتماد کیوں کرتے اور کسی مہم جوئی میں حصہ دار کیوں بنتے؟ امن معاہدے میں تاخیر کے خواہش مند افغان طالبان کے خیر خواہوں کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ ہمسایہ ملک کے معاملات سے بھارت کو مکمل طور پر بے دخل کیا جائے۔ یہ مقصد حاصل ہو چکا ہے ۔اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کا اتحاد بھارت کے مفاد میں تھا جو پارہ پارہ ہو چکا‘ بھارت کشمیر کے علاوہ قانون شہریت کی دلدل میں پھنس چکا ہے اور وہ افغانستان پر توجہ دینے کے قابل نہیں‘ بین الاقوامی اور علاقائی سطح پر بھارت اب جارحیت کے بجائے دفاع کی پالیسی اپنانے پر مجبور ہے اور پاکستانی مداخلت و دہشت گردی کی گردان پر امریکہ توجہ دے رہا ہے نہ یورپ اور نہ پاکستان کا کوئی ہمسایہ۔روس کا یہ بیان کہ ہم نے بھارت سے دوستی کر کے غلطی کی‘ چشم کشا ہے‘ جلد یا بدیر امریکہ کو بھی اس کا احساس ہو گا‘ فی الحال بھارت کی آبادی رقبے اور منڈی نے امریکی بنیا کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی ہے۔ امریکہ طالبان امن معاہدہ افغانستان میں پائیدار امن و سلامتی کا ضامن ثابت ہوا تو یہ پاکستان کے لئے مژدہ جانفرا ہو گا‘ ان عناصر کے مُنہ پر زبردست طمانچہ جو برس ہا برس تک یہ راگ الاپتے رہے کہ افغانستان کو اپنے حال پر چھوڑ کر‘ افغان تحریک مزاحمت کچلنے میں امریکہ کی مدد کر کے پاکستان داخلی صورت حال بہتر بنائے۔ اگر خدانخواستہ پاکستان افغانستان سے لاتعلق ہو کر ایک طرف بیٹھ جاتا‘ بھارت اپنا لچ تلتا رہتا تو آج امریکی انخلا کے بعد افغانستان میں پیدا ہونے والا خلا بھارت پُر کرتا‘ اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کی ہمدردیاں بھارت کے ساتھ تھیں‘ طالبان پاکستان کے مخالف ہوتے اور پاکستان بھارت و افغانستان کے مابین سینڈ وچ ریاست۔ جو دانشور1979ء میں سوویت یونین کی افغانستان آمد کے بعد پاکستان کی افغان پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے نوجوان نسل کو یہ باور کراتے ہیں کہ اگر پاکستان مزاحمتی قوتوں کا ساتھ نہ دیتاتو یہاں کلاشنکوف کلچر آتا نہ ہیروئن کی وبا‘ وہی بزر جمہر امریکی مداخلت کے بعد پاکستان کو دو عملی بلکہ دوغلے پن کا مجرم گردانتے ہیں۔مگر آج پاکستان کی پوزیشن واضح ہے جبکہ امریکی پسپائی اور ناکامی کا اعتراف ہر جگہ کیا جا رہا ہے۔ سوویت یونین کی تو تاریخ ہی غلبے اور توسیع پسندی کی تھی وہ وسطی ایشیا میں کہیں رکا نہ مشرقی یورپ میں چین سے بیٹھا‘ افغانستان تک محدود رہنا اس کی سرشت میں تھا نہ مفاد میں‘ گرم پانیوں تک رسائی زار روس کے عہدسے رومی حکمرانوں کی خواہش تھی‘ سوویت یونین کی مداخلت کے بعد ہمارے ہاں کے تربوزی دانشور پاکستان میں سرخ ریچھ کو خوش آمدید کہنے کے لئے بے تاب تھے مگر وہ افغانستان کی دلدل میں پھنس کر اپنا وجود کھو بیٹھا تو یہ امریکی گود میں بیٹھ کر بھاشن دینے لگے کہ سوویت یونین کا تو ایسا کوئی ارادہ نہ تھا‘ جنرل ضیاء الحق نے خواہ مخواہ اس مسکین صفت ریاست کی شکست و ریخت میں امریکہ کا ساتھ دیا۔ توقع یہ تھی کہ امن مذاکرات میں کلیدی کردار کا اعتراف کرتے ہوئے امریکہ پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کے جھنجھٹ سے نکالنے کے لئے ہماری مدد کرے گا مگر سی پیک سے خائف امریکہ اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہے۔ ہمارے حکمرانوں اور مقتدر قوتوں کی خواہش پوری نہیں ہوئی اور ہم مزید چار ماہ تک ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں ہیں۔صرف سی پیک ہی نہیں ہمارا ایٹمی پروگرام اور اسلامی تشخص بھی امریکہ و یورپ کے لئے تکلیف دہ ہے۔چند سال پہلے تک ہمارے دانشور باور کراتے تھے کہ امریکہ سی پیک سے خائف نہیں مگر اب کچھ مخفی نہیں رہا‘ ہمارا اسلامی تشخص اور ایٹمی پروگرام سی پیک سے کہیں زیادہ اور بڑا مسئلہ ہے‘ افغانستان کے کمبل سے جان چھڑانے کے بعد اندیشہ یہ ہے کہ امریکہ کسی نہ کسی بہانے اس پر توجہ دے گا اور پاکستان کا بازو مروڑنے کی پالیسی جاری رہے گی‘ دانش مندی کا تقاضا یہ ہے کہ ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کے لئے ہم اپنی کوشش جاری رکھیںمگر امریکہ کے بارے میں کسی خوش فہمی کا شکار نہ ہوں۔ امریکہ طالبان معاہدے کے بعد افغانستان کو خانہ جنگی کا شکار نہ ہونے دیں‘ ہمارے دشمن اس خانہ جنگی کی آڑمیں ہی ہمارا کمبل چرانے کی کوشش کریں گے۔بھارت میں مسلسل بدامنی اور افغانستان میں پائیدار قیام امن پاکستان کے امن و استحکام کی شاہ کلید ہے۔ افغان امن معاہدے کے بعد ہم فائدہ نہ اٹھا سکے تو یہ تاریخی ناکامی ہو گی۔ دہشت گرد ریاست پاکستان کو دہشت گردی اور تخریب کاری کے ذریعے مٹانے کا خواب دیکھ رہی تھی‘ خدا کا شکر ہے ناکام رہی‘ یہ جنگ اب بھارت میں پھیلے تو ہم سکھ کا سانس لے پائیں گے ورنہ اس کی شرارتیں جاری رہیں گی۔ ٹرمپ کے دور سے اس کے حوصلے بلند ہوئے ہیں۔دشمن کو اپنی سرحدوں سے دور اور اس کی اپنی جغرافیائی حدود میں مصروف رکھنا بہترین دماغی حکمت عملی ہے۔کاش ہم یہ اپنا سکیں۔