برادر ِبزرگ، آداب! مجھے امید ہے کہ آپ بزرگ کہلائے جانے پر برا نہیں منائیں گے کیونکہ سب جانتے ہیں کہ بزرگی کا تعلق عمر سے نہیں کارناموں سے ہوتا ہے، اور اس وقت آپ اپنے مخصوص اور اہلِ صفا کی نظروں میں منحوس کارناموں کی بنا پر اتنے بڑے ہو گئے ہیں کہ کئی بار تو مجھے اپنا عہدہ چھن جانے کا ڈر لگا رہتا ہے۔میرے عزیز! روز ازل، اس زمیں پر اترنے سے قبل میں نے خدا کو ایک چیلنج دیا تھا کہ میں اُس کی اِس اشرف مخلوق کو اپنا مطیع بناکے دم لوں گا۔ اس وقت اگرچہ فرشتوں نے میرے اس دعوے پر میرا مذاق اڑایا تھا لیکن آپ جیسے مخلص دوستوں کی بدولت میں اس قابل ہو گیا ہوں کہ اب اگر کسی دن میرا خدا سے آمنا سامنا ہو گیا تو میں نہ صرف اس سے اپنی کارکردگی کی بابت دریافت کروں گا۔ پیارے مودی جی! میں دنیا کے موجودہ حالات پر نظر کرتا ہوں تو سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کہ اگر میری مدد کے لیے آپ جیسے مخلص دوست نہ ہوتے تو میں اکیلا بھلا کیا بھاڑ جھونک سکتا تھا۔ آپ کی موجودہ پرفارمنس دیکھ کے تو کبھی کبھی میرا جی چاہتا ہے کہ اس کرۂ ارض کی تمام تر ذمہ داریاں آپ کو سونپ کر خود گولڈن شیک ہینڈ کی درخواست کر دوں لیکن پھر سوچتا ہوں کہ میرے بغیر یہاں آپ کی پیٹھ تھپکنے والا کون ہو گا؟ ویسے تو اس خدمت کے لیے میرا پرانا یار اسرائیل بھی کافی ہے اور میرا خفیہ حلیف امریکہ بھی اندر کھاتے یہ ذمہ داری بطریق احسن پوری کرتا رہے گا اور پھر بقیہ غیر مسلم طاقتوں نے بھی مجھے کبھی مایوس نہیں کیا بلکہ اب تو بہت سے مسلمان حکمران اور پاکستانی سیاست دان بھی میرے ہاتھ پہ بیعت کرنے کے لیے میرے اردگرد چکر لگاتے رہتے ہیں لیکن میرا اس قوم سے اعتماد اٹھ گیا ہے۔ یہ کسی وقت بھی باغیانہ روش اختیار کر سکتے ہیں، اس لیے میں نے ان کو ابھی تک پروبیشن پیریڈ میں رکھا ہوا ہے… لیکن یاد رکھو! ان تمام کرم فرمائوں کے باوجود میرا تم سے دور جانے کو جی نہیں چاہتا کیونکہ یہاں میں جب روزانہ تمھارے نئے نئے کارنامے دیکھتا ہوں اور تمھارے ولولہ انگیز بیان پڑھتا ہوں تو میری روح نہال اور فطرت بحال ہو جاتی ہے۔ میرے ہمدم! میرے رفیق! کشمیر میں آپ روزانہ اپنا تہوار ہولی جس مہارت سے منا رہے ہیں اس پر تو میرا جی چاہتا ہے کہ میں روزانہ آ کے تمھارا ان دھلا منھ بھی چوم لیا کروں۔ میرے ذرا سے اشارے پر آپ نے اور آپ کے پیش روئوں نہرو، پٹیل، شاستری، اندرا ، راجیو، باچپائی، نرسیما راؤ وغیرہ نے جو کارکردگی دکھائی ہے اس پر تو میں آپ لوگوں کو قومی، بلکہ عالمی، بلکہ یونیورسل، اِول(evil) ایوارڈ دلوانے کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔ ان لیڈروں سے میرا نرگ میں اکثر آمنا سامنا ہوتا رہتا ہے۔ وہ اگرچہ اب کچھ پریشان دکھائی دیتے ہیں، لیکن میں نے انھیں اب تک تسلی دے رکھی ہے کہ کسی دن خدا کو اپنے پرانے تعلقات کا واسطہ دے کر انھیں دوسرا جنم دلوا دوں گا۔ دوسرے جنم میں، میں انھیں بندروں، گائوماتاؤں اور چوہوں کے روپ میں دنیا میں لانے کا متمنی ہوں تاکہ یہ ایک بار پھر سے اسلام کی جڑیں کھوکھلی کرنے کا فریضہ انجام دے سکیں۔ تم بھی زیادہ فکر نہ کرنا، تمھارے لیے میں نے ایک مرکھنے سانڈ کی سیٹ خالی کروا رکھی ہے۔ یہاں سے جیسے ہی تمھاری مکتی ہو گی میں تمھارے نئے آرڈر ٹائپ کروا دوں گا۔ آخر یار ہی یاروں کے کام آتے ہیں۔ زمین پہ تم میری نمائندگی کرتے نہیں تھکتے تو آسمان پہ میں تمھاری وکالت نہیں کروں گا تو اور کون کرے گا کالیا؟کچھ عرصہ پہلے جبریل مجھ سے بڑی بحث کیا کرتا تھا کہ مَیں دنیا میں آپ جیسے لوگوں کی رہنمائی کرنا(وہ توپشت پناہی اور اُشکل جیسے مشکل جیسے الفاظ استعمال کرتا تھا) ترک کر دوں۔ اس بحث کی ایک جھلک مسلمانوں کے شاعر اقبال سیالکوٹی کی ایک نظم میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ ارے ہاں! اقبال سے یاد آیا کہ ایک زمانے تک اس شاعر سے مجھے بڑا دھڑکا لگا رہتا تھا۔ اس نے اگرچہ کئی اشعار میں میری اپنے مشن سے لگن اور ذمہ داری کے احساس کی بنا پر مجھے ایک ہیرو کے طور پر بھی پیش کیا ہے لیکن اس کے بہت سے اشعار کی تاثیر اور خوف ناک تعبیر سے مجھے اکثر خوف آتا تھا کہ کہیں یہ خطرناک دانش مند بڑی مشکل اور مسلسل کوششوں سے سدھائی اور سکھائی ہوئی مسلم قوم کا ضمیر بیدار کرنے میں کامیاب نہ ہو جائے، لیکن شکر ہے کہ اس قوم میں موجود میرے کچھ نمائندوں نے اس مشن کو تکمیل تک نہیں پہنچنے دیا۔ اچھا تو مَیں آپ کو بتا رہا تھا کہ یزداں کا سب سے بڑا نمایندہ جبریل ایک زمانے میں میرے بہت پیچھے پڑا ہوا تھا کہ میں اپنے فرائض کی ادائیگی سے باز آ جائوں، اب اس کو کیا معلوم کہ جب کوئی گردن خدا کے سامنے اکڑتی ہے یا کوئی سینہ ظالم کے حق میں تنتا ہے تو اس کا کیا نشہ ہوتا ہے۔ اب کسی مظلوم کے بہتے ہوئے خون یا گلے میں جمتی ہوئی سسکیوں کا لطف تم لے سکتے ہو یا میں لے سکتا ہوں۔ لیکن یقین جانو! اس بزرگ فرشتے کی باتوں میں کچھ ایسا جادو ہوتا تھا کہ کئی بار تو خود میرے ہاتھ پائوں پھولتے محسوس ہوتے تھے۔ ایک دو بار تو میں نے یہ دھندا ترک کرنے کا بھی فیصلہ کر لیا تھا۔ وہ تو بھلا ہو آپ کا اور آپ کے کچھ ہم خیال لوگوں کا کہ جنھوں نے کشمیر، برما، بوسنیا، چیچنیا، فسلطین، شام اور عراق وغیرہ میں میری ساکھ بحال رکھنے کے لیے اپنی ساری توانائیاں صرف کر ڈالیں۔ اب جس طرح اپنے دیس میں صدیوں تک چَین امن سے بستی اقلیتوں کا تم نے ناک میں دم کیا ہے، اس معاونت پر مَیں آپ کا احسان عمر بھر نہیں بھلا سکوں گا۔ تم ذرا خط میں شتاب لکھنا کہ اگلے جنم میں تمھارے لیے سانڈ یا سؤر کی سیٹ مناسب رہے گی یا پھر اسی جنم میں مَیں اپنی جملہ ذمہ داریاں تمھارے مضبوط کاندھوں پر ڈال کر خود اس عہدے سے مستعفی ہو جائوں؟نیتن یاہو یا ٹرمپو بھائی ملے تو میرا سلام کہنا، بال ٹھاکرے اپنے دہکتے گھر سے تمھارے لیے آداب لکھوا رہے ہیں۔ آئی ایم ایف والوں تک بھی آداب پہنچنا دینا اور جب کبھی امریکہ والوں سے کوئی خفیہ مراسلت کرو تو بھی ان کی دوہری پالیسیوں پر میری مبارکباد پہنچا دینا۔ اجازت چاہتا ہوں فقط آپ کا چھوٹا بھائی ابلیس گجراتی