صاحبزادہ پیر مختاراحمد جمال تونسوی

 

    خدائے واحدکی پاک ذات نے اشرف المخلوقات کی بھلائی ، ہدایت اور مثبت تعلیم و تربیت کیلئے رسولوں او ر انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد اپنی نثار وارادہ کے تحت بزرگانِ دین اور اولیائے کرام کا باقاعدہ سلسلہ شروع کیا ور بے شک انبیائے کرام علیہم السلام کے بعد بزرگانِ دین اور اولیائے کرام نے نہ صرف کروڑوں لوگوں کو مسلمان کرتے ہوئے مشرف بہ اسلام کیا ۔ بلکہ دیا سے دیا جلانے کے مصدق ان مسلمانوں میں سے بے شمار بزرگانِ دین اور اولیائے کرام کی صورت میں چراغ روشن کیے ۔ آج الحمدللہ مشرق ہو یا مغرب اطراف عالم میںہرطرف آپ کو اولیائے کرام اور بزگانِ دین کی خانقاہوں اور روشن چراغوں سے ،پروردگارِعالم اور اُس کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انوار و تجلیات کی روشنی پھوٹتی نظر آئے گی اُنہی اولیائے کرام میں سے ایک ’’درخشندہ ستارہ‘‘  تاجدارِ دارالاحسان ابو انیس محمد برکت علی لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ کے نام سے بھی نظر آتا ہے۔

      ابو انیس محمدبرکت علی لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ27ربیع الثانی1329ھ بروز جمعرات بمطابق 27اپریل1911ء میں موضع برہمی لدھیانہ(انڈیا)میں پیدا ہوئے۔آپ رحمۃ اللہ علیہ کے والد ِ محترم کا اسمِ گرامی میاں نگاہ بخش ‘جبکہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی والدہ محترمہ کا اسمِ مبارک جنت بی بی تھا۔

آپ رحمۃ اللہ علیہ مادر زاد ولی تھے اور آپ رحمۃ اللہ علیہ کی والدہ بہت ہی نیک خاتون تھیں جو آقائے نامدارصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ مقدس پر کثرت سے درودوسلام کا نذرانہ بھیجا کرتی تھیں۔آپ رحمۃ اللہ علیہ کے والدِ محترم بھی نیک صالح اور نماز روزہ کے پابند تھے۔اہلِ اللہ سے محبت اور میل ملاقات ان کا خاص شغف تھا اکثر ایک مجذوب کی خدمت میں حاضری دیا کرتے تھے جس نے آپ کی شادی سے قبل ہی آپ رحمۃ اللہ علیہ کی آمد کی خوشخبری دیتے ہوئے اِن الفاظ میں فرمایا کہ’’نگاہیا!تیری قسمت میں‘تو کچھ نہیں‘البتہ تیرے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوگا ‘بڑا زبردست۔‘‘یہ پیش گوئی آپ رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت باسعادت سے پوری ہوئی۔

آپ کے والدِ محترم فوج میں ملازم تھے اور ان کی یہ خواہش تھی کہ میرا بیٹا بھی فوج میں بھرتی ہو اور بڑا افسر بنے۔اِس خواہش کی تکمیل کیلئے 9اپریل1930ء کے روزبابا کریر والا کی سفارش سے صوبیدارپاکھر سنگھ راجوآنہ فوج میں بھرتی کروانے کیلئے لے کر گئے‘تو عجیب معاملہ یہ ہوا کہ کسی بھی میڈیکل ٹیسٹ وغیرہ دیئے بغیر ہی کیپٹن ڈاکٹر ایم این اے کھنہ نے آپ رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھتے ہی فوج میں بھرتی کرلیا ۔ابتدا میں آپ رحمۃ اللہ علیہ بوائے کمپنی کیلئے بہتر سمجھے گئے‘بعد میں انڈین آرمی سپیشل ایجوکیشن کورس پاس کرکے وائی کیڈٹ کے طور پر منتخب ہوئے اور ہیڈ کواٹر میں نہایت ہی اہم اورحساس ذمہ داری پر متعین کئے گئے۔کور کمانڈر جنر ل وچ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی باوقار اور غیر معمولی شخصیت سے نہ صرف بے حد متاثر تھا بلکہ وہ آپ رحمۃاللہ علیہ کی تقلید میں ماہِ صیام میں روزہ کے اوقات میں کھانے پینے سے بھی گریز کیاکرتا تھا ۔ فوج کے عام جوانوں میں بھی آپ رحمۃ اللہ علیہ کے حسن ِ اخلاق اور نیک صفات کے چرچے عام تھے اور آپ رحمۃ اللہ علیہ کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔

آپ رحمۃ اللہ علیہ فوجی ملازمت کے دورانِ اپنے فرائض سے فارغ ہوکر اکثر اوقات کلیر شریف میں حضرت بابا فریدالدین گنجِ شکررحمۃ اللہ علیہ کے بھانجے اور خلیفہء خاص حضرت علائوالدین علی احمد صابر رحمۃ اللہ علیہ کے مزارِ پر انوارپر حاضری دیتے ہوئے ساری ساری رات مجاہدہ میں گزار دیتے۔بالآخر آپ رحمۃ اللہ علیہ نے22جون1945ء میںفوج سے استعفیٰ دے دیا۔اِس نازک وقت میں آرمی سے استعفیٰ برٹش حکومت سے غداری کے مترادف تھا،جس کی سزا کالا پانی،عمر قید یا پھانسی تھی۔ابتداء میں برٹش حکومت کی طرف سے آپ رحمۃ اللہ علیہ کو استعفیٰ کے فیصلہ تبدیل کرنے کیلئے مختلف قسم کے لالچ دیئے گئے۔لیکن آپ رحمۃ اللہ علیہ اُن کے دام میںنہ آئے‘توآپ رحمۃ اللہ علیہ کو زہر دے دیا گیا۔خدا کی قدرت کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کو قے آئی اور زہر خارج ہو گیا۔

آپ رحمۃ اللہ علیہ اللہ کریم کے مخلص سپاہی تھے اور مظاہر ِ قدرت کی طرح اپنے کام میںوقت کی پابندی خصوصی طور پرفرماتے۔اور فرماتے کہ’’تیرے لیے یہ ضروری ہے کہ تُو گھڑی کی طرح چلے‘تیری چابی کبھی بند نہ ہو اور تُو کبھی نہ رُکے اور نہ ہی تجھے کوئی روکے اور تیرے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ تُو یہ نہ کرے‘اور یہ نہ کرے‘اور یہ نہ کرے۔‘‘

آپ رحمۃ اللہ علیہ نے19ربیع الثانی1363ھ میں اپنے وقت کے مشہور بزرگ‘شاہِ ولایت حضرت شیخ امیر الحسن سہارنپوری رحمۃ اللہ علیہ کے دست ِ مبارک پر بیعت کرنے کی سعادت حاصل کی۔

قیامِ پاکستان سے دو سال پہلے ہی اس عظیم روحانی منصب کی تربیت شروع ہوگئی تھی کیونکہ پروردگارِ عالم نے آپ رحمۃ اللہ علیہ کو دین سے بھٹکے ہوئے لوگوںکے اِصلاحِ احوال اور رشدوہدایت اور رہنمائی کیلئے منتخب کررکھا تھا۔تقسیمِ ہند کے بعد 27اگست1947ء میںبھارت سے ہجرت کرتے ہوئے پاکستان کی طرف قصد فرمایا‘اور فیصل آباد میںسالار والا ریلوے سٹیشن کے قریب ڈیرہ لگایا۔یہ زمین آپ رحمۃ اللہ علیہ کو اپنے والد مرحوم کی زرعی اراضی کے عوض ملی تھی۔یہ جگہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی تشریف آوری سے قبل بالکل ویران اور بیابان تھی۔یہاں آپ رحمۃ اللہ علیہ نے 40سال لگا تار جدوجہد کی ‘اپنی زندگی کے شب وروزذکروفکر تصنیف وتالیف ‘دعوت وتبلیغ اور خدمت خلق میں گزارتے رہے۔اورآخر یہ جگہ ذکر ِ الہٰی کے خوبصورت اور نورانی صدائوں سے گونجنے لگی۔اور متلاشیانِ حق جوق در جوق یہاں پہنچنے لگے۔اسی جگہ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے وسیع وعریض مسجد‘مدرسہ‘قرآن محل‘مینار اصحابِ بدر‘لائبریری اور دارالشفاء تعمیر کرائے اور انہیں ادارہ دارالاحسان سے موسوم فرماکرخداوندِ کریم اور اُس کے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محبوب دین’’اِسلام‘‘کے لیے وقف کردیا۔

1984ء میں آپ رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں سے ہجرت کرکے فیصل آباد ہی کے قریب وسوحہ سمندری روڈپر ڈیرہ لگایا اور اِس مقام کو ’’المستفیض کیمپ دارالاحسان‘‘کے نام سے منسوب کیا گیا۔یہاں پربھی آپ رحمۃ اللہ علیہ نے بھر پور محنت سے ایک عالی شان قرآنِ کریم محل‘لنگر خانہ‘مسجد ‘دفتر دارالاحسان اور مطب وغیرہ کی بنیاد رکھی۔ اورسب بڑھ کر یہ کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں ایک بہت بڑا فری آئی ہسپتال بھی قائم فرمایا ۔آپ رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ فری آئی ہسپتال سے ہزاروںکی تعداد میں بندگانِ خدا اپنی آنکھوں کا مفت آپریشن کرواکراپنی زندگی کے شب وروز گزار رہے ہیں۔اور یہ سلسلہ تا حال جاری وساری ہے۔

آپ رحمۃ اللہ علیہ اپنے آپ کو ’’المہاجرالی اللّٰہ والمتوکل علی اللّٰہ العظیم‘‘فرمایا کرتے ۔آپ رحمۃ اللہ علیہ کا یہ فرمان محض زبانی جمع خرچ ہی نہ تھا بلکہ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے باقائدہ عمل بھی کرکے دکھایا۔اِسی سلسلہ میں مزید فرماتے ہیں کہ’’مہاجر الی اللہ کسی سامان کا پابند نہیں ہوتا’’توکلت علی اللہ‘‘ربِ کریم کی راہ میں سفر کیا کرتا ہے۔‘‘اور یہ کہ’’صاحب ِ توکل کیلئے نہ وطن ہے ‘نہ جائیداد‘نہ کسب نہ روزگار‘نہ مال نہ سوال‘صبح کرے تو شام اور اگر شام کرے تو صبح کا ذخیرہ نہ ہو‘نہ فکر اور نہ ہی زندگی کی امید۔خواہشات کی قربانی ‘سب سے بڑی قربانی ہے اور مہاجر الی اللہ ہی اِن خواہشات کو قربان کرسکتا ہے‘دنیا دار نہیں۔‘‘

آپ رحمۃ اللہ علیہ نے خدا کے سپاہی بن کر ‘حضرت علائوالدین علی احمد صابر کے مزارِ پر انوارپرکھڑے ہوکر پروردگارِ عالم سے تین وعدے کیے تھے کہ’’اپنی باقی زندگی ذکر ِ الہٰی میں صرف کروں گا۔دین ِ اِسلام کی دعوت وتبلیغ اور بندگانِ خدا کی بے لوث خدمت کروں گا۔‘‘

دنیائے فانی میں بسنے والے لوگوں نے دیکھا کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی میں کئی نشیب وفراز آئے‘مگرآپ رحمۃ اللہ علیہ پوری زندگی پہاڑ کی سی استقامت کیساتھ اِن تین محاذوں پرڈٹے رہے۔

آپ رحمۃ اللہ علیہ نے حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شریعت ِ مطہرہ کی پابندی کو اپنی زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا تھا اور بندگانِ خدا کو تلقین فرماتے تھے کہ’’ہمارا طرزِ حیات میرے آقاصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ِ مطہرہ کے مطابق ہو۔یہی راہ شاہراہ اس کے علاوہ ہر راہ کراہ۔قائد ایک ہوتا ہے اور اسی کے گرد زندگی گھوما کرتی ہے۔میرے آقاصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہماری زندگی کے قائد ہیں قائدالعرفان۔ ’’میرے آقاصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکارم اخلاق ہیںان کے کسی بھی اخلاق کو استقلال سے اپنا۔’’میرے آقاصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نمونہ معتبر،مستند فلاحِ دارین کا امین،یہ نمونہ ہر وقت تیرے پیش ِ نظر رہے۔‘‘

سابق صدرِ پاکستان ضیاء الحق مرحوم نے اپنے دورِ حکومت میںایک بار کمشنر گوجرانوالہ کو آپ رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت عالیہ میں بھیجا کہ صدر ضیاء الحق سرکٹ ہائوس فیصل آباد میں آپ رحمۃ اللہ علیہ سے ملاقات چاہتے ہیں‘تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے کاغذ کے ایک ٹکڑے پر یہ جواب لکھتے ہوئے کمشنر کے حوالہ کیا کہ’’بادشاہوں کے درباروںپر فقیر حاضر نہیں ہواکرتے۔‘‘

آپ رحمۃ اللہ علیہ زندگی بھر اِس اصول پر کارفرما رہے کہ آج کا مال آج ہی ختم ہو،کل کی روزی خداوند ِ کریم کل عطافرمائے گا۔اور فرماتے تھے کہ ہماری روزی پرندوں کی طرح ہے جو صبح گھونسلوں سے بھوکے نکلتے ہیںاور شام کو خوب سیر ہوکر لوٹا کرتے ہیں۔

آپ رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی شاعرِ مشرق اور قلندرِ لاہور حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے اِس شعر کے مصداق تھی کہ میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے 

مخلوقِ خدا کی بے لوث خدمت تو گویا آپ رحمۃ اللہ علیہ کا محبوب ترین کام تھا۔آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ’’میری دنیا اور آخرت کی کمائی بیوہ ،لاچار،بیمار اور میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیاری امت مُردوں کی مغفرت کیلئے وقف ومخصوص ہے۔‘‘’’شب و روز کی کمائی مخلوق ہی نے کھائی‘نہ حسانت کا ذخیرہ‘نہ کمائی کا۔ہر دو سے فارغ اور فقیر ہر حال میں فقیر رہتا ہے۔‘‘

آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ’’ہمارے تین کام ہیں۔1:ذکر ِ الٰہی:2تبلیغ ِ اِسلام3:مخلوقِ خداکی بے لوث خدمت۔اِن کاموں کے سوا کسی چھوتھے کام میں مشغول نہیں ہونا۔کسی کے تذکرے، تبصرے،تنقید،تنقیص یا الزام کا ہرگز برا نہ منائیں،نہ ہی بد دِل ہوں،بلکہ پوری یکسوئی کیساتھ اپنے تین بنیادی مقاصد کی طرف متوجہ رہیں۔اگر کسی نے ایسا نہ کیاتو اُس نے نہ صرف مجھ سے قائم اپنی نسبت کی ناموس کی توہین کی بلکہ اُس نے دارالاحسان کے نصب العین کو نظر انداز کرکے اس کے وقار کو ٹھیس پہنچائی اور مجھے شرمندہ کیا۔‘‘

ٓآپ رحمۃ اللہ علیہ کی ذات علم وحکمت کا ٹھاٹھیںمارتا ہوا سمندر تھی۔آپ رحمۃ اللہ علیہ نے بندگانِ خداکی اِصلاحِ احوال اور متلاشیانِ حق کی علمی اور روحانی تشنگی بجھانے کیلئے کی بے شمارتصانیف وتالیفات فرمائیںجن میں انتہائی اہم اور قابل ِ ذکر ’’کتاب العمل بالسنۃالمعروف ترتیب شریف مستند احادیث کی ایک خوبصورت ترین فقہی کتاب ہے کہ جسے پاکستان میں پہلی اسلامی سربراہی کانفرنس میںموجود شاہانِ عالم کوتحفتاًپیش کی گئی تھی۔اِس کتاب کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ دنیائے اِسلام کی تقریباً سبھی یونیورسٹیوںکی لائبریریوں میں موجود ہے۔جہاں سے دنیا بھر سے ریسرچ سکالرز اور علماء ‘فضلاء استفادہ کرتے رہتے ہیں۔اِس کے علاوہ دوسری قابلِ ذکر کتاب’’مقالاتِ حکمت‘‘ کے نام مشہور ہے ‘جو تیس جلدوں پر مشتمل ہے۔جس کے اندر اتنہائی خوبصورت انداز سے تحریر کئے گئے چھوٹے  چھوٹے مگر جامع فقرے‘برجستہ محاورے اور زنگ آلود دِلوں کو جھنجوڑنے والے جملے اپنی مثال آپ ہیں۔

آپ رحمۃ اللہ علیہ کی میز پر ہر وقت ’’کتاب العمل بالسنۃالمعروف ترتیب شریف ‘‘کھلی رہتی تھی‘کبھی اس میں موجود اعمال کی پیروی‘تو کبھی دنیا کی سب سے عظیم کتاب’’قرآن پاک‘‘کی تلاوت آقائے دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھوں کی ٹھنڈک’’نماز‘‘میں محوتو کبھی ذکرواذکار کی روحانی غذا تقسیم کرنے میں مصروف نظر آتے تھے۔اِس کے علاوہ بعد نمازِ فجر وعصرتو آپ رحمۃ اللہ علیہ باقائدہ اجتماعی محفل ِ ذکراللہ کا خصوصی اہتمام فرماتے‘جس میں لوگوں کی کثیر تعداد اللہ کریم کے اسمائے پاک کے ذکرسے اپنے قلب واذہان کو منور کرتے تھے۔

آپ رحمۃ اللہ علیہ اکثر فرماتے کہ’’کسی ولایت میں نہ کشف ضروری ہے نہ کرامت‘لیکن ہر ولایت میں’’ذکر اللہ‘‘ضروری ہے‘اور اطاعت۔ذکرواطاعت تیری منزل کے دو نشان ہیںیہ نشان گرنے نہ پائیں۔ذکرو اطاعت کی منزلیں مستغنی عین المدارج ہوتی ہیں۔تبلیغ وخدمت کے سوا کسی بھی کمال کو کبھی خاطر میں نہیںلاتی۔ذکر الٰہی سے بہتر اور کوئی کمال نہیں۔اللہ کے ذکر کیلئے کمالات وکرامات سے فارغ ہو۔جب تک تُو کمالات و کرامات کے پھندوں سے آزاد ہوکر مٹی میں مٹی نہیں ہوتا‘دین کی حقیقت سے واقف نہیں ہوتا۔تیرا مقام خاک اور تیرا کام خدمت ہو۔اِس سے بڑھ کر اور کوئی مقام نہیں اور اِس سے افضل اور کوئی کام نہیں۔‘‘

آخر کار آپ رحمۃ اللہ علیہ16رمضان المبارک1417ھ بمطابق26جنوری1997ء بروز اتوار بوقتِ ظہر اِس دنیائے فانی سے کوچ کرگئے مگر آپ رحمۃ اللہ علیہ کی یادیں آج بھی اُسی طرح زندہ ہیں اور متلاشیاںِ حق کے دِلوں میںخوب دھڑکتی ہیں۔

آپ رحمۃ اللہ علیہ کا سالانہ عرس مبارک ہر سال 16رمضان المبارک کوشریعتِ مطہرہ کی تمام تر پابندیوں کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے انتہائی شایانِ شان اور عقیدت واحترام کے ساتھ منایا جاتاہے۔جس میں پاکستان بھر سے یارانِ شریعت وطریقت شامل ہونے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔آپ رحمۃ اللہ علیہ کے اِس دنیائے فانی سے پردہ فرمانے کے بعد آپ رحمۃ اللہ علیہ کے عظیم مشن کو آپ رحمۃ اللہ علیہ کے عقیدت مندانتہائی ذمہ داری جوش و جذبہ اور ولولہ کیساتھ آگے بڑھانے میں مصروفِ عمل ہیں۔

دعا ہے کہ اللہ کریم اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نگاہِ فیض کے صدقہ ہم سب اسلام میں پوراپورا داخل ہونے کی توفیق عطا فرماتے ہوئے اولیائے کرام کے نقش قدم پر چلنے کی ہمت اور توفیق عطا فرمائے اور یہ کہ تا دمِ واپسیں ہمارے یمان کی سلامتی فرمائے۔

 آمین…یاحی یا قیوم