ان کی عظمتوں کی داستان سنائوں یا اپنے ماضی کا وہ ورق الٹائوں جو آج مرے بہت سے ساتھیوں سے پوشیدہ ہے۔ میں کئی دن سے سوچ رہا تھا کہ خاص طور پر ساہیوال جا کر ان سے ملاقات کروں۔ ان سے ملے ہوئے نصف صدی سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہو گا مگر ان دنوں کی داستان ذہن میں ایسے تازہ ہے جیسے کل کی بات ہو۔ یہ دن مری اپنی شخصی تشکیل میں بھی بہت اہم رہے ہیں۔ آج برادرم ڈاکٹر عبدالقادر نے ان کے انتقال کی خبر دی توپہروں ان کی باتیں کرتے رہے۔ منظورشاہ صاحب سے جب میں ملا تھا اسوقت بھی وہ ایک نامور شخصیت کا درجہ رکھتے تھے۔ مناظروں کا زمانہ تقریباً ختم ہو رہا تھا اورشاہ صاحب اس پس منظر میں فاتح عیسائیت معروف تھے۔ مگر رکیے کہیں ان کا ایسا امیج نہ بن جائے کہ وہ ایک مناظرہ باز شخص تھے۔ ہرگز نہیں۔ ان کا مزاج ہی دوسرا تھا۔ آج میں نے کہیں پڑھا ہے کہ انہوں نے 1963ء میں جامعہ فریدیہ کی بنیاد رکھی جو اس علاقے میں ایک بہت عظیم الشان درس گاہ ہے۔ بس یہ سمجھ لیجیے کہ جب انہوں نے اس درسگاہ کی بنیاد رکھنے کا فیصلہ کیا تو سب سے پہلے جن دو تین افراد سے مشورہ کیا ان میں یہ بچہ بھی شامل تھا۔ مشورہ اوربچہ یہ دونوں لفظ میں نے سوچ سمجھ کر استعمال کئے ہیں۔ شاہ صاحب ساہیوال کے گول چکر والی سنہری مسجد کے خطیب تھے اور اس جامعہ میں مدرس تھے جو شہر کی سب سے بڑی مدینہ مسجد میں قائم تھا۔ اچانک اس جامعہ نے انہیں علیحدہ کرنے کا فیصلہ کر لیا‘ میں تفصیل میں نہیں جاتا۔ صرف یہ بتا رہا ہوں کہ ہم اس میں کیسے آئے۔ میں اس وقت دسویں جماعت کا طالب علم ہوں گا۔ پھر مجھ سے مشورہ کیسا۔ آج میں ایک راز سے پردہ اٹھاتا ہوں جن سے مرے سب پرانے ساتھی واقف ہیں۔ شہر میں بلدیہ کے دفاتر کے سامنے بلدیہ کی ایک وسیع و عریض گرائونڈ ہے جہاں بچے شام کو جا کر کھیلا کرتے تھے۔ ہمارے بھی کھیلنے کودے کے دن تھے۔ ایک دن دیکھا کہ وہاں سٹیج سجایا جا رہا ہے۔ سمجھا کہ کوئی سیاسی جلسہ ہونے والا ہو گا۔ میں یہاں اپنے ماموں کے ساتھ حسین شہید سہروردی کا جلسہ سننے گیا تھا جہاں آغا شورش کشمیری نے بڑی زور دار تقریر کی تھی بڑا مزہ آیا تھا۔ سوچا معلوم کرو کیا ہو رہا ہے۔ پتا چلا کہ شام کو ایک مذہبی جلسہ ہے جس میں کوئی مولانا مسلم بی اے خطاب کریں گے۔ بتایا گیا بہت خوب بولتے ہیں۔ گھر سے اجازت لے کر میں بھی وہاں جا پہنچا۔ مسلم صاحب کی خطابت اوراردو کے درمیان انگریزی فقروں کی آمیزش نے مسحور کر دیا۔ جانے کون سی گھڑی تھی کہ میں بھی اس تنظیم میں شامل ہو گیا جس کا نام ادارہ تعمیر اہل سنت تھا۔ دو نوجوان صوفی عبدالوحید اورنذیر بٹ صاحب اس کے روح رواں تھے۔ آٹھویں یا شاید نویں جماعت کا یہ طالب علم بھی بڑے جذبے کے ساتھ اس کا حصہ بن گیا۔شام کو عصر کی نماز کے بعد سر پر ٹوپی رکھ کر بازاروں میں دکان دکان جا کر چندہ اکٹھا کرنا‘ تخت پوش کو کندھوں پر اٹھانا اور اس کا سٹیج بنانا اور ملک بھر کے جید علماء کو جلسوں کے لئے بلانا گویا معمول بن گیا۔ یہ ادارہ اتنا فعال ہوا کہ شہر میں اس مکتب فکر سے تعلق رکھنے والا ہر فرد بشر اس سے واقف اور اس کا قدردان تھا۔ اسی لئے شاہ صاحب نے اس اہم اور نازک گھڑی میں ہمیں طلب کیا ہو گا۔ اس سے پہلے مجھے نہیں معلوم تھا کہ دیو بندی کیا ہوتے ہیں اور بریلوی کسے کہتے ہیں۔ ماں باپ نے قرآن پڑھنے کے لئے جس مدرسے میں داخل کیا‘ وہ دیو بندی مدرسہ تھا کہ گھر کے سب سے قریب تھا۔ ایسے میں منظور شاہ صاحب سے بڑا قریبی تعلق قائم ہو گیا۔ وہ محبت فرماتے گھر کے قریب جمعہ کی نماز کے لئے دو مساجد تھیں۔ ایک مسجد مہاجرین جس میں ایک زمانے میں شفیع اوکاڑوی جمعہ کی نماز میں خطابت کے جوہر دکھایا کرتے تھے۔ ان کے بعد مولوی بشیر آئے۔ وہ پنجابی میں یوسف زلیخا اوردوسرے قصے ایسے لحن سے پڑھا کرتے کہ مولانا اوکاڑوی کو سننے والے بھی مسحور ہوجاتے۔ دوسری طرف سنہری مسجد میں منظور شاہ صاحب تھے۔ بڑی متنانت ‘ سنجیدگی اور درد دل کے ساتھ گفتگو کرتے۔ پڑھے لکھے لوگ ان کی طرف کھینچے چلے آتے ‘اکثر روزے سے ہوتے۔ مغرب کے وقت باہر سے لسّی کا ایک گلاس منگواتے۔ دو چار گھونٹ پی کر افطار کر لیتے اور باقی اگر میں موجود ہوتا تو بڑی پدرانہ شفقت سے مری طرف بڑھا دیتے۔ ذرا تکلف کرتا‘ پھرگویا تبرک سمجھ کر پی جاتا۔ یوں سمجھیے دین کی محبت میں مجھے جن کی رہنمائی میسر رہی‘میں آج اعتراف کرتا ہوں منظور شاہ صاحب ان میں بہت اہم تھے۔ قدرت نے بھی انہیں بڑے کام کے لئے تیار کیا تھا۔ انہوں نے مولانا نور اللہ محدث بصیر پوری کے سامنے زانوئے تلمذ طے کیا۔ استاد کا احترام وہ ایسا کرتے تھے کہ میں نے بڑے بڑے لوگوں کو مسجد میں آتے دیکھا‘ امامت شاہ صاحب خود ہی فرماتے۔ ایک دن مغرب کی نماز کی نیت کر ہی رہے تھے کہ پیچھے نظر پڑی حضرت محدث بصیر پوری آ رہے تھے۔ بھاگ کر قدم بوسی کے لئے پلٹے اور اپنی جگہ انہیں امامت کے لئے کھڑا کیا۔ مجھ جیسے سوچتے ہی رہے کہ یہ کون بزرگ ہوں گے جن کی شاہ صاحب ایسی عزت کرتے ہیں۔ ان دنوں ہمارے شہر میں اس مکتب فکر میں ایک طرف تو مولانا سردار احمد محدث لائلپوری کے شاگرد تھے جن میں خوشتر گرامی بہت اہم تھے۔ ان کے مزاج میں ذرا تشدد تھا۔ دوسری طرف محدث بصیر پوری کے شاگرد تھے جو اعتدال کا مزاج رکھتے تھے جو مولانا نعیم الدین مراد آبادی کے مکتب فکر سے تھے عشق رسولؐ میں شدت کے باوجود شاہ صاحب کے مزاج میں ایک متانت تھی۔ سنہری مسجد اوقاف کے پاس گئی توعلماء کی ایک اکیڈمی کوئٹہ میں بنائی گئی۔ دو تین ماہ کا کورس تھا۔ شاہ صاحب کو اس کورس کے لئے منتخب کر لیا گیا۔ پھر بہاولپور میں اسلامی یونیورسٹی تھی مرے خیال میں یہ اس ملک میں اسلامی درسگاہ کا درست اور انتہائی مناسب تجربہ تھا۔ اسلام آباد کی انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی سے کہیں بہتر تجربہ۔ مولانا شمس الحق افغانی اس میں شیخ التفسیر تھے تو مولانا احمد سعید کاظمی شیخ الحدیث اس زمانے کے اساتذہ کی فہرست دیکھیے آپ کو اندازہ ہو گا‘ مسلک نہیں علم اہم تھا جیسے برصغیر میں پہلے ہوا کرتا تھا۔ شاہ صاحب کو اس کے لئے بھی منتخب کر لیا گیا۔ پتا نہیں کیا بندوبست تھا کہ جمعہ پڑھانے واپس ساہیوال آیا کرتے تھے۔ مجھے کسی نے انٹرنیٹ پر جامعہ فریدیہ کی عمارت کی جھلکیاں دکھائی ہیں اور تفصیل بھی بتائی ہے۔ اللہ اسے کامیابی دے‘ بڑی شاندار درسگاہ دکھائی دیتی ہے۔ میں پھر دوسرے کاموں میں لگ گیا ادب وغیرہ کا چسکا پیدا ہو گیا۔ شاہ صاحب سے گاہے گاہے رابطہ رہا پھر میں کراچی آ گیا اور ایک نئی دنیا میں کھو گیا۔ اکثر تذکرہ سنتا رہتا۔ ایک بارسنا کہ شہرمیں کوئی نئے مولوی صاحب آئے ہیں جن کا بڑاچرچا ہے۔ میں ان کا نام نہیں لکھ رہا۔ اختلافی مسائل میں لوگ ان کی بات سننے لگے ابھی ان دنوں فضا ایسی ہی تھی مجھے یہ بات شہر کے ثقہ راویوں نے بتائی کہ ایک محفل میں کسی نے دونوں کو اکٹھا کیا حیات نبیؐ پر بات چل پڑی تو سنا ہے شاہ صاحب جوش میں آ گئے اور انتہائی جلال میں گویا ہوئے کہ اگر آپ نہیں مانتے تو میں اپنے پیارے نبی ؐ سے درخواست کروں گا کہ وہ آئیں اور ہمیں سب کے سامنے اپنی حیات کا ثبوت دیں وہ مولوی صاحب بھی نیک دل تھے‘ ذرا سہم گئے اور بات واپس لے لی۔ کسی نے شاہ صاحب سے بعد میں پوچھا یہ بات آپ نے اتنے اعتماد سے کیسے کہی۔ کہنے لگے بس مجھے یقین تھا مرے آقاؐ اپنے اس غلام کو شرمندہ نہیں کریں گے۔ اس بات کو یہیں تک رہنے دیجیے۔ یہ صرف یہ بتانے کے لئے سنائی ہے کہ انہیں آقائے دو جہاں ؐ سے کیسا عشق تھا۔ سنا ہے وہ اکثر حج پر جاتے تھے جب بتانے والے نے یہ بتایا‘ تو مرے دل نے کہا حج کے لئے بھی جاتے ہوں گے‘ اصل میں تو وہ آقاؐ کے روضے پر حاضری دینے کی سعادت حاصل کرنے کی خواہش رکھتے ہوں گے۔ یہ کوئی توحیداور رسالت کی بحث نہیں ہے۔ ایک مزاج کا اظہار ہے۔ مجھے یقین ہے انہوں نے جو بھی مرکز قائم کیا ہے اس کا نور بھی پھیلتا رہے گا۔ میں نے جو چند دن ان کے ساتھ گزارے ہیں اتنے برس کی دوری کے باوجود میں اس کو بھلا نہیں پایا۔ انٹرنیٹ پر میں نے دیکھا ہے کہ انہیں غالباً بابا جی سرکار کہا جاتا تھا۔ ان کی تقریروں کے دو ایک کلپ بھی سنے ہیں۔ وہی درد‘ وہی سوز اور وہی علمی متانت اورسادگی جس نے ہم جیسوں کو گھائل کیا تھا۔ آج بھی ہے۔