کس قدر سناٹا اور خاموشی ہے۔ مادہ پرستی اور ٹیکنالوجی کے بتوں کو خدا ماننے والوں کے قلم یوں لگتا ہے زنگ آلود ہو چکے ہیں اور زبانیں گنگ۔ وہ اخبار، جریدے اور ٹیلی ویژن جو افغانستان میں کسی امریکی کو مچھر بھی کاٹنے پر وہاں ملیریا کی افتاد تک کہانی لے جاتے تھے۔آج انہیں وہ مظلوم ملا عبدالسلام ضعیف نظر نہیں آتا، جسے انسانی تہذیب کے تمام سفارتی آداب کو پس پشت ڈال کر امریکیوں کے حوالے کیا گیا تھا۔ آج وہ مذاکرات کی میز پر ان امریکیوں کے روبرو بیٹھا تھا، جن کی بدترین گوانتاناموبے جیل میں وہ اذیت کے دن گزار کر آیا تھا اور آج امریکی اس سے افغانستان کی دلدل سے باحفاظت نکل جانے کی بھیک مانگ رہے تھے۔ داڑھیوں اور اماموں والوں کی یہ عزت افزائی دیکھ کر ان دانشوروں کے منہ سے جو نعرے بلکہ مغلظات برآمد ہوتی ہوں گی، مجھے ان کا بخوبی اندازہ ہے اور میں ان کی جلن و کڑھن سے بھی خوب واقف ہوں۔ یہ تو آج سے چالیس برس قبل 1979ء میں جب روسی افواج افغانستان میں داخل ہوئیں تھیں، تو ہمیں یہ نوید سناتے تھے کہ روس جہاں جاتا ہے وہاں سے کبھی واپس نہیں ہوتا۔ یونیورسٹی میں ہمارے ساتھ پڑھنے والے کیمونسٹ انقلابی رقص کرتے تھے کہ دیکھو اب سرخ انقلاب سر پر آ گیا ہے، اب تمہارے درس قرآن یہاں نہیں چلیں گے۔ وہ پشتون رہنما جن کی سیاست ہی پشتون عصبیت پر بنیاد رکھتی تھی، اپنے ہی پشتون بھائیوں کا روس کی افواج کے ہاتھوں قتل کو جائز سمجھتے تھے اور پشتونوں کو غیرت و حمیت سے جینے اور عزت و توقیر سے جہاد کرنے کو پاکستان، امریکہ اور آئی ایس آئی کی سازش قرار دیتے تھے۔ دن گزر گئے۔ آج ان میں سے باپ جلال آباد کی مٹی میں دفن ہے اور بیٹا ولی باغ کے قبرستان میں۔ باقی رہ گئے انقلابی سورمے تو وہ سوویت یونین کے ٹوٹتے ہی امریکی ٹیکنالوجی کے بت کے سامنے سجدہ ریز ہو گئے۔ امریکہ افغانستان میں اپنے ساتھ اڑتالیس طاقت و قوت کے اصنام کے ساتھ داخل ہوا تو میرے ان ٹیکنالوجی پرست دوستوں کو پرستش کے لیے ایک ساتھ کئی طاقت ور بت میسر آگئے۔ امریکی ٹیکنالوجی کے بڑے بت کے ساتھ نیٹو کے اڑتالیس چھوٹے چھوٹے صنم بھی تو موجود تھے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ان بتوں کی پوجا کے لیے فضا بھی بہت سازگار تھی۔ پاکستان میں ان کا سب سے بڑا پجاری اور پروہت پرویز مشرف تھا۔ ہر کوئی زبان و قلم کے یہ درس دیتا پھرتا تھا کہ اب دنیا بدل چکی ہے۔ اب اس کائنات سے ٹیکنالوجی نے اللہ کو دیس نکالا دے دیا ہے۔لیکن نقشہ ہی بدل گیا اور آج ہر سیکولر لبرل اور مادہ پرست کے دل میں ایک ہی خواہش ہے جو تجزیہ بن کر سامنے آرہی ہے کہ امریکہ کے جانے کے بعد افغان عوام آپس میں لڑنے لگیں گے اور قتل و غارت کا بازار گرم ہو جائے گا۔ یہ تجزیہ نگار بلا کے ہیں۔ یہ 1741ء میں احمد شاہ ابدالی کی نیشن سٹیٹ سے تاریخ شروع کرتے ہیں اور 1994ء پر ختم کر دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی افغان، تاجک، ازبک اور ہزارہ کی افغانستان میں قوم پرستانہ جنگوں کی داستانیں بیان کرتے ہیں۔ انہیں طالبان کے وہ پرامن افغانستان کے چھ سال نظر نہیں آتے۔ ان کے ہیرو آج بھی جنرل عبدالمالک اور جنرل دوستم جیسے ظالم جرنیل ہیں جو امریکہ، ایران اور بھارت کی مدد سے طالبان دور میں افغانستان کے صرف پانچ فیصد حصے پر قابض تھے اور دوستم تو بھاگ کر افغانستان سے ازبکستان چلا گیا تھا۔ اس بگھوڑے کو امریکی اپنے ساتھ اس لئے واپس لائے تاکہ طالبان سے جنگ کروائی جائے۔ اسی کے مظالم پر ایک آئرش صحافی نے بیس منٹ دورانیہ کی ایک فلم بنائی تھی جس کا نام تھا "The Afghan massacre : The convoy of death." یہ فلم مزار شریف اور شبرغان کے قریب دریافت ہونے والی اجتماعی قبروں سے متعلق تھی جس میں تین ہزار طالبان کو دشت لیلیٰ میں کنٹینروں میں بند کرکے لایا گیا تھا اور کنٹینر دھوپ میں رکھ دیئے گئے تھے، جہاں وہ بے چارے اندر ہی اندر کباب ہو گئے تھے اور انہیں وہاں دفن کر دیا گیا تھا۔ کس قدر ظالم اور بے حس ہیں یہ تجزیہ نگار حضرات جن کے دماغ میں قوم پرستی کا زہر ہے اور جن کے عقیدے میں ٹیکنالوجی کو سجدہ کرنے کی عبادت شامل ہے۔ اسی لئے ایک صاحب لکھتے ہیں کہ ’’افغانستان کے بچوں کا حق ہے کہ ان کے ہاتھ میں بندوق نہ ہو، کتاب اور لیپ ٹاپ ہو۔‘‘ ایسے لگتا ہے جیسے افغان قوم نے سب سے پہلے روس کو دعوت نامہ بھیجا تھا کہ ہم پر حملہ کرو، جب وہ چلا گیا تو پوری دنیا کی طاقتوں کو خطوط لکھے تھے کہ امریکا سمیت ہم پر حملہ آور ہو جاؤ۔ ان پر جنگیں مسلط کی گئیں تھیں اور انہوں نے اللہ پر توکل اور غیرت کا ثبوت دیا اور آج وہ فاتح ہیں۔ ان کے کسی نمائندے کی ایئرپورٹ پر تلاشی کے لئے کپڑے نہیں اتارے جاتے ہیں، انہیں طعنے، گالیاں اور حرام خوری کے لقب سے نہیں نوازا جاتا۔ ان دانشوروں کا تجزیہ مان لیا جائے تو پھر اگر خدانخواستہ ایک دن بھارت پاکستان پر حملہ آور ہو جائے تو یہ صاحب مشورہ دیں گے آخر کب تک بندوق پاکستانی بچوں کے ہاتھ میں رہے گی، کتاب اور لیپ ٹاپ کیوں نہیں آتا۔ جناب والا یہ کتاب اور لیپ ٹاپ تو آپکو بھارتی تاجر متل اور امبانی بہت زیادوہ فراہم کر سکتے ہیں۔ بس تھوڑی سی ذلت و رسوائی پر آمادہ ہوجاؤ، ایسی ذلت آمیز زندگی جیسی بائیس کروڑ مسلمان بھارت میں گزار رہے ہیں۔ اقبال نے ہر بزدل فریب خوردہ شخص کے بارے میں کیا خوب کہا تھا ؎ وہ فریب خوردہ شاہیں جو پلا ہو کرگسوں میں اسے کیا خبر کہ کیا ہے رہ و رسم شاہبازی میں شاید ان کے ارشادات پرکبھی تبصرہ نہ کرتا لیکن انہوں نے اپنی مخصوص امن کی آشا اور جہاد مخالف نظریے کے لئے ، سیدنا عمرؓ کے ایک قول سے دلیل تراشنے کی کوشش کی ہے۔ ایران سے متعلق حضرت عمرؓ کا یہ قول کہ ’’کاش آگ کا پہاڑ ہمارے اور ان کے درمیان ہوتا۔ وہ ادھر رہتے اور ہم اس طرف‘‘۔ اس کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ’’کیا امیر المومنین عجم کی قوت سے خائف تھے؟ نہیں وہ جنگ کی ہولناکیوں سے اپنے عوام کو ہر ممکن حد تک بچانا چاہتے تھے۔’’ موصوف کا یہ تجزیہ حضرت عمرؓ پر اتنی بڑی تہمت اور بہتان ہے بلکہ انہیں فلسفہ جہاد و قتال سے نفرت کا علم بردار ثابت کرنے کی ایک بھونڈی سی کوشش ہے۔وہ عمرؓ جو روز مدینے کی سرحد کے باہر اس انتظار میں آکر بیٹھ جاتے تھے کہ ایران سے جنگ کے محاذ قادسیہ سے کیا خبر آئی اور فتح کی خبر لانے والے سوار کے ساتھ میلوں دوڑتے رہے ،اور بے صبری سے پوچھتے رہے کہ کیا خبر ہے۔ کاش یہ مرعوب، خوفزدہ اور جدید ٹیکنالوجی کے پرستار حضرت عمرؓ کے اس قول کے اصل ماخذ اور وجہ تسمیہ پر پہنچ پاتے۔ حضرت عمرؓ نے ایسا ایران کی تہذیبی یلغار سے متعلق فرمایا تھا۔ قصہ یوں ہے کہ حضرت حذیفہ بن یمان قادسیہ ، ایران کے گورنر تھے، انہوں نے وہاں ایک ایرانی یہودی عورت سے شادی کرلی۔ حضرت عمرؓ نے انہیں خط لکھا کہ اسے فوراً طلاق دے دو۔ انہوں نے حضرت عمرؓ سے کہا اے امیرالمومنین کیا یہ میرے لیے جائز نہیں، جس پر حضرت عمرؓ نے جواب دیا کہ حرام نہیں ہے لیکن "ولکنی آخاف ان تعاطوا المومسات منہن " مجھ اس سے یہ ڈر ہے کہ اس طرح ’’مومسات‘‘ یعنی آزاد خیال اور بدکردار عورتیں مسلمانوں کے قریب آنا شروع کردیں گی اورمسلمانوں کی تہذیب و تشخص تباہ ہو ۔ یہاں پر وہ فقرہ کہا گیا ہے کہ "کاش آگ کا پہاڑ ہمارے اور ان کے درمیان ہوتا (ابن کثیر )۔ یہ ایرانی تہذیب کا حملہ ہی تھا کہ میر تقی میر کی ایسی شاعری جنم لیتی۔ ترک بچے سے عشق کیا تھا، ریختے کیا کیا ہم نے سہے رفتہ رفتہ ہندوستان سے شعر میرا ایران گیا اک ذرا صبر! ابھی تو تم لوگوں کی آنکھوںنے بہت کچھ دیکھنا ہے۔ ابھی تو قرآن کا وہ وعدہ پورا ہونا ہے کہ اللہ کا دین سب ادیان پر غالب آئے گا۔ابھی تو خراسا ن میں لشکر جرار کی فتح ہوئی ہے۔ا س لشکرکے جھنڈے نے تو پوری امّت پر بلند ہونا ہے۔ ٹیکنالوجی کے پرستاروں کے مزاج ابھی سے برہم ہیں۔ ابھی تو تماشا شروع ہوا ہے۔