ابھی کچھ دن لگیں گے ۔ افتخار عارف کی یہ نظم ہے تو کسی اور تناظر میں لیکن اس کا یہ مصرعہ یاد آرہا ہے جوحالات پر پوری طرح منطبق بھی ہے ۔ آغاز ٹھیک ہے۔حکومت سنبھالے حلف اٹھائے ہوئے دن ہی کتنے ہوئے ہیں۔لیکن ان چند دنوں میں بھی وزیر اعظم، وزراء اعلیٰ اور وزراء کی صف میں جیت کے جشن کا منظر کہیں نظر نہیں آیا حالانکہ بائیس سالہ جد و جہد کے بعد مخالفوں کو زیر کرلینے اور اقتدار کی کرسیوں تک پہنچ جانے کا جشن کسی حد تک فطری تقاضا ہوتا۔لیکن تحریک انصاف کی مرکزی قیادت یہ جشن مناتی کہیں نظر نہیں آئی۔اور سچ یہ ہے کہ عام کارکنوں نے بھی عام طور پر بہتر رویوں کا مظاہرہ کیا ہے ۔ ورنہ نون لیگ کے ڈشکرے پنجابی محاورے کے مطابق بکرا بلانے میں ید طولیٰ رکھتے تھے ۔ یہ بات دو حقیقتوں کی طرف اشارہ کرتی ہے ایک تو یہ کہ تحریک انصاف کواس بات کا ادراک ہے کہ فتح یابی کا زعم اس جیت کا منظر بہت دھندلا کردے گا اور تاثر برعکس جائے گا ۔دوسرے یہ کہ کرسیوں تک پہنچ جانا تحریک انصاف کی کم از کم اکثر قیادت کی حقیقی منزل نہیں تھی۔حقیقی منزل مراد ابھی آگے ہے اس لیے شاد باد کے نعرے بھی ابھی جچتے نہیں ہیں۔ عمران خان جس طویل جد و جہد کے بعد وزیر اعظم کی کرسی پر پہنچے ہیں اس سے گزرنا عام آدمی کے لیے بلکہ عام سیاست دان کے لیے بھی ناممکن ہے ۔لیکن فتح کے بعد انہوں نے باوقار انداز اختیار کیا ہے۔میڈیا سے عام طور پر دور رہے ہیں۔کم از کم دو ایسی عوامی تقریریں کی ہیں جنہوں نے لوگوں کے دلوں کو گرما دیا ہے اور ایک طویل سرنگ کے آخری کنارے پر روشنی کا دہانہ نظر آنے لگا ہے۔سینیٹ میں عمران خان نے بھرپور خطاب کیا ہے۔وفاقی کابینہ نے وقت ضائع نہیں کیا اور چند ہی دنوں میں دور رس اور امید افزا فیصلے کیے ہیں۔سچ یہ ہے کہ گستاخانہ خاکوں کے سلسلے میں سینیٹ میں عمران کے بیان سے لے کر وزیر خارجہ کے بیانات تک کئی اقدام کیے گئے ہیں جو محض رسمی کارروائی نہیں لگتے اور محسوس ہوتا ہے کہ حکومت اس بارے میں مزید آگے بڑھنے کا ارادہ رکھتی ہے۔سادگی کفایت شعاری اور بے جا اخراجات سے چھٹکارا حاصل کرنے کا جذبہ قابل تعریف ہے۔کئی قدم اٹھا لیے گئے ہیں۔کچھ کا اصولی فیصلہ کرلیا گیا ہے۔اور بتدریج اس کے ثمرات سامنے آتے جائیں گے۔چھوٹی موٹی غلطیاں بھی ہوں گی۔کچھ مسائل بھی سامنے آئیں گے۔جائز اور ناجائز تنقید بھی ہوتی رہے گی لیکن سچ یہی ہے کہ مصمم ارادہ ہو تو راستے وا ہو ہی جایا کرتے ہیں۔مسلسل ضرب کے سامنے فصیلیں زیادہ دیر تک ٹھہر نہیں سکتیں اور عمران خان سخت دیواروں سے مسلسل سر ٹکرانے کا عادی ہے۔ اس وقت سب کاموں سے اہم تین کام ہیں۔پہلا وفاقی اور صوبائی وزارتوں کے لیے ناموں کا انتخاب۔یہ کام کافی حد تک نمٹ گیا ہے۔ کچھ تبدیلیاں آتی رہیں گے اور ممکنہ اضافے بھی ہوتے رہیں گے۔عام طور پر یہ فیصلے بہتر ہوئے ہیں۔وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب پر بہت انگلیاں اٹھی ہیں۔میں خود بھی گزشتہ دنوں اس پر بات کرچکا ہوں اور اس پر مجھ سمیت بہت لوگوں کے تحفطات ہیں۔دیکھتے ہیں کہ یہ فیصلہ کیا رنگ لاتا ہے۔ دوسرا کام درپیش ملکی اور بیرونی مسائل اور بحرانوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اصولی فیصلے جن کی بنیاد پر ایک مضبوط عمارت کی تعمیر اٹھائی جاسکے ۔یہ فیصلے مسلسل ہورہے ہیں اور کچھ سامنے آچکے ہیں۔مختلف سمتوں میں ٹاسک فورسز کا قیام عمل میں آچکا ہے اور وہ اپنا کام شروع کر رہی ہیں۔خدا کرے کہ یہ ٹیمیں ٹھوس اقدامات کے ذریعے نتائج لانے میں کامیاب ہوں۔ تیسرا کام وفاقی سطح پر دستیاب افسروں میں سے بہترین کا انتخاب ہے ،جن کے ذریعے اپنے پروگرام کو آگے بڑھایا جاسکے۔اہم اداروں کا رخ ٹھیک کرنے اور انہیں مضبوط کرنے کے لیے ان کے سربراہان کا تقرر نیز اہل،غیر متنازعہ اور نیک نام افسران کے ذریعے ایک مضبوط ٹیم کی تشکیل۔یہ کام بھی تیزی سے ہوا ہے۔وفاقی بیورو کریسی میں اعلیٰ سطحوں پر تیزی سے تبدیلیاں آئی ہیں۔اور عمران خان کے نکتہ چینوں نے بھی اسـ کا اعتراف کیا ہے کہ اہم عہدوں کے لیے اہل افسروں کا انتخاب کیا گیا ہے۔ان افسران میں کچھ کی شہرت یہ بھی تھی کہ وہ شہباز شریف کے منظور نظر ہیں یا ان کے تحت کافی عرصہ کام کرتے رہے ہیں ۔لیکن یہ بات بہت قابل تعریف ہے کہ ان افسروں کی اہلیت کے سامنے اس بات کو رکاوٹ نہیں بننے دیا گیا۔ان تقرریوں کا سلسلہ ابھی جاری ہے اور شاید چند دن اور لے گا لیکن دیانت دار اور اپنے قابل اعتماد افسران کی تقرری نہایت اہم ہے ورنہ سو دن کے اہداف حاصل نہیں کیے جاسکیں گے۔ میں اس کو درست سمجھتا ہوں کہ ان تین کاموں کے لیے عمران خان نے باقی کاموں کو مؤخر کردیا ہے۔جن میں کراچی کا دورہ اور مزار ِ قائد پر وزیر اعظم کی حاضری بھی شامل ہے۔اس تاخیر پر بھلے نکتہ چینی ہوتی رہے لیکن رسمیات سے دور رہ کر ترجیحات میں بنیادی کاموں کو سر فہرست رکھنا خود قائد کی چوکھٹ پر سر جھکانے کی طرح ہے ۔ مرکزی سطح پر بنیاد بھری جائے تو کراچی ، اس کے مسائل اور ان کے حل کا خاکہ لے کر کراچی جانا ایک اچھا تاثر چھوڑے گا ۔ دوسری طرف اس بار پیپلز پارٹی کو بھی پنجاب میں نون لیگ کا حال دیکھ کر یہ احساس شاید ہوا ہے کہ اگر کام نہ کیا گیا تو سندھ میں بھی اگلی بار پی ٹی آئی کو باگ دور سنبھالنے میں مشکل پیش نہیں آئے گی ۔ مراد علی شاہ کیا کرکے دکھاتے ہیں اور کرپشن کی دلدل اور الزامات سے اپنی جماعت کو کیسے نکالتے ہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن میرا خیال ہے کہ انہیں اس بار کام کرنا پڑے گا ۔یہ اب ان کی مجبوری ہے بیرون ملک دوروں کی مسلسل دعوتوں اورسربراہان کی غیر معمولی مبارکبادوں کے باوجود عمران خان نے بیرون ملک دوروں کا کوئی اعلان نہیں کیا اور کسی ٹھوس گفتگو کے بغیر محض دورہ کرنے میں ان کی دل چسپی بھی نہیںلگتی ۔ ان کا ذہن بظاہر یہی نظر آتاہے کہ ایک ہمہ جہت خارجہ پالیسی اور اس کے اصول بنا کر ملاقاتیں کی جائیں اور با مقصد ملاقاتیں ہی ٹھوس روابط کی بنیاد ہوا کرتی ہیں۔ایرانی وزیر خارجہ پاکستان آرہے ہیں ۔ امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ کی جلد آمد متوقع ہے ۔اچھی بات یہ ہے کہ وزارت خارجہ اپنی پالیسی میں یکسو نظر آتی ہے ایسے میں ان اہم غیر ملکی عہدے داروں سے مفید بات چیت ہوسکتی ہے ۔امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ کی آمد زیادہ اہم ہے اور اس سے بھی زیادہ اہم یہ کہ فوج اور سول ادارے ڈو مور کے حکم کو یکسر مسترد کرتے نظر آتے ہیں۔امریکہ ہو یا کوئی اور بڑی مفاد پرست طاقت،اسے یہ بہرحال تاثر جانا چاہیے کہ خاندان غلاماں کا آخری بادشاہ رخصت ہوچکا ہے ۔ چھوٹے موٹے مسئلے اٹھتے ہی رہتے ہیں اور اٹھتے ہی رہیں گے۔ڈی پی او کا تبادلہ ہو ، ہیلی کاپٹر کا قضیہ ہو یا کوئی اور درفنطنی ۔چھوٹے مسائل میں الجھ کر منزل کھوٹی کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ایک بار نظریے کے مطابق پولیس غیر سیاسی ہوجائے ، کسی بھی با اثر شخصیت کی حاکمیت سے نکل جائے تو یہ مسائل ہمیشہ کے لیے ختم ہوجانے چاہییں۔ملک کو جن مسائل کا سامنا ہے اور اب عمران خان جس مسند پر ہیں ۔یہ مسائل ان سے کافی نیچے کی ٹیم کو نمٹا دینے چاہییں اور عوام کو یہ تاثر ہرگز نہیں جانا چاہیے کہ سب کچھ اسی طرح ہوتا رہے گا جیسا ہوتا رہا ہے ۔عمران خان اور مرکزی قیادت کو یقیناـ یہ ادراک ہوگا اور ہونا چاہیے کہ اپنے مفادات کے تحت آخری دنوں میں پارٹی میں شامل ہونے والے پارٹی کے نام پراس امید کا خون نہ کرسکیں جو سال ہا سال کے بعد پیدا ہوئی ہے ۔ ابھی کچھ دن لگیں گے۔لیکن یاد رہے کہ کچھ دن کا مطلب کچھ دن ہے ۔نسل در نسل انتظار نہیں۔عرفان صدیقی مرحوم کے اس شعر جیساحال نہ ہو جل بجھیں گے کہ ہم اس رات کا ایندھن ہی تو ہیں خیر دیکھیں گے یہاں روشنیاں دوسرے لوگ