پاکستانی سیاست کی تاریخ دھماکہ خیز واقعات سے بھری پڑی ہے لیکن جو دھماکے چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ نے کر دیے ان کی گونج کبھی ختم نہ ہوگی۔ سوچا تھا اب جمہوریت پٹری پر چڑھ جائے گی۔ 1977ء کے بعد اب تک جمہوریت کا چہرہ داغ دار ہے، اس کی سرجری کی ضرورت تھی، چیف جسٹس اس کے لئے آخری حد تک گئے۔ میرا کیا ہے میں تو دو اور دو چار والا آدمی ہوں اور یہ اصول جذباتیت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ پاکستان میں کبھی دو اور دو چار نہیں ہوتے۔ بدھ کی رات جب وزیر اعظم ہاؤس میں انتہائی سنسنی خیز حکومتی اجلاس جاری تھا،آرمی چیف بھی وہاں پہنچ گئے اور اجلاس میں شریک ہوئے۔ میں چونکہ ہمیشہ سے آئیڈیل ازم کا شکار رہا ہوں، سوچنے لگا کہ جنرل صاحب حکومتی اجلاس میں جاتے ہی کہہ دیں گے ،،،، بہت ہوگئی۔ میں نہ صرف قلیل مدت کے لئے دوبارہ آرمی چیف بننے کے لئے تیار نہیں بلکہ مزید تین سال کے لئے بھی اپنے موجودہ عہدے پر کام کرنے سے انکار کرتا ہوں۔ یہ میرا خواب تھا اور مجھ جیسے لوگوں کے خواب خواہمخواہ پورے نہیں ہو جایا کرتے۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے دورمیں قوم اس امید پر کھڑی تھی کہ ’’بابا رحمتے‘‘ کے بعد جوچیف آنے والا ہے وہ حقیقی طور پر انصاف سے محروم قوم کے لئے باعث رحمت ہوگا اور جسٹس کھوسہ نے قوم کی یہ آس پوری کردی۔ ماضی کی طرح آرمی چیف کو قواعد و ضوابط کو بالائے طاق رکھ کر تین سال میں مزید توسیع دینے کے اقدام کے خلاف انہوں نے جس دلیری سے نوٹیفکیشن معطل کیا اور کسی حکومت کو جس طرح وہ آئین کی طرف لے کرآئے یہ ان کا وہ کریڈٹ ہے جو مستقبل میں حکومت اور سیاست کی راہیں متعین کرے گا۔ اس تین چار دن کے عمل میں بہت کچھ بے نقاب ہوا۔ قوم کو پہلی بار ثبوتوں کے ساتھ علم ہوا کہ ان کے راہبر اور راہنما کتنے’’دانا‘‘ لوگ ہیں۔ جنرل باجوہ ایکسٹینشن کیس نے بحث مباحثہ کے کئی نئے در کھولے ہیں۔ ایک سوال یہ بھی پیدا ہوا کہ جس جمہوریت کے لئے قوم آج تک قربانیاں دیتی چلی آ رہی ہے اس کے ’’چمپئن‘‘ اتنے بے خبر لوگ کیوں ہیں؟ انہیں تو امور سلطنت اور امور حکومت سے واقفیت تک نہیں ہے۔ حکومت میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو خود معلوم نہیں ہوتا کہ حکومت چلا کون رہا ہے۔ میں نے ماضی میں کئی ایسے واقعات کا مشاہدہ کیا جنہوں نے مجھے ہلا کر رکھ دیا۔ دو وزرائے اعظم کی جانب سے دیئے گئے عشائیوں میں میں نے نوٹ کیا کہ وزیر اعظم صاحب کبھی کسی کو اور کبھی کسی کو کونوں میں لے جاتے ہیں اور ان سے استفسار کرتے ہیں ،،،،، کیا ہو رہا ہے؟ کیا ہونے والا ہے؟ پاکستان کی72 سالہ تاریخ ان دقیق سوالوں کا جواب دینے سے قاصر ہے کہ ریاستی اداروں کے دائرہ کار کا تعین کرنے کا اختیار کس کے پاس ہے؟ سارے کے سارے معاملات عدلیہ، انتظامیہ اور مقننہ میں گڈ مڈ ہو کر رہ گئے ہیں اور یہ سلسلہ اب تک جاری و ساری ہے۔ ماضی میں کبھی کسی کو یہ معاملہ سلجھانے کی توفیق نہ ہوئی۔ میں سمجھتا ہوں کہ جسٹس کھوسہ نے جس کام کا بیڑا اٹھایا ہے اور جو شروعات کی ہیں انجام خیر ہی خیر ہے۔ ٭٭٭٭٭ اصل ایشو ہمیشہ سے اختیارات کی جنگ رہی ہے، اختیارات کی یہ جنگ اسکندر مرزا کے ’’کوڈیٹا‘‘ سے شروع ہوئی تھی۔ بیورو کریسی نے ہمیشہ اس لڑائی میں لگائی بجھائی کرنے والی مائی کا کردار ادا کیا۔ جسٹس کھوسہ کے کھل کر میدان میںآنے کے بعد قوم سر پکڑ کر بیٹھ گئی ہے کہ پاکستان کہاں کھڑا ہے؟ انہی دو تین دنوں میں ہی یہ عقدہ بھی کھلا کہ اس ملک کے تو وزیر قانون تک قانون سے نا بلد ہیں۔ انہیں یہ تک علم نہ تھا کہ وکالت کا لائسنس منسوخ ہو جائے تو اسے بحال کون کرتا ہے۔ محترم اٹارنی جنرل بھی بجھے ہوئے دیے دکھائی دیئے۔ پوری کابینہ سپریم کورٹ کے ایک سوال کا تین دن تک جواب نہ ڈھونڈ سکی۔ یہ بھی پہلی بار سامنے آیا کہ حکومتوں کوآرمی ایکٹ تو دور کی بات آئین اور قانون کی ابجد تک کا پتہ نہیں۔۔۔۔۔ پاکستان کے بائیس کروڑ عوام کو یتیم بچے سمجھا جا رہا ہے۔ یہ عوام حکمرانوں کے ’’سوتیلے بچے‘‘ ہیں، حکمران انہیں وہ حقوق ہی نہیں دینا چاہتے جو خود ان کے اپنے بچوں کو حاصل ہیں۔۔۔۔ اس ’’بحران‘‘ نے عمران خان کے اقتدار کے دن بڑھا دیے ہیں۔ اب تو کمرہ امتحان میں ہیں، وہ آرمی چیف ایکسٹنشن کیس میں سپریم کورٹ کی گائیڈ لائن کو فالو کرکے بہت کچھ واپس حاصل کر سکتے ہیں۔ میں پھر کہتا ہوں کہ وزیر اعظم کو اپنے مزاج کو جمہوری بنانا ہوگا۔ انہیں نواز شریف اورآصف زرداری کے ہیولوں سے باہر نکلنا ہوگا۔ وہ نواز شریف کو نہیں روک سکے اورآصف زرداری کو بھی کبھی نہ کبھی راستہ ملنا ہی ہے۔ اپوزیشن آپ کے ان دو’’دشمنوں‘‘ کا نام نہیں ہے۔ اپوزیشن تو حکمرانی اور جمہوریت کے حسن کا نام ہے۔ سپریم کورٹ نے اب تک کے غیر طے شدہ معاملات پر چھ ماہ میں قانون سازی کی یقین دہانی حاصل کی ہے اور خان صاحب منتخب وزیر اعظم ہونے کے باوجود بظاہر پارلیمنٹ کی اہمیت پر شاید ایمان ہی نہیں رکھتے، لیکن اگر انہوں نے سیاست میں زندہ رہنا ہے تو انہیں پارلیمنٹ پر ایمان لانا ہی پڑے گا۔ اپوزیشن کو امور قانون سازی میں شامل کرنا ہی پڑے گا۔ مجھے یہ لکھتے ہوئے کوئی عار نہیں کہ خان صاحب اپنے مزاج کے قیدی ہیں اور اس قید سے انہیں کوئی دوسرا نہیں نکال سکتا، انہیں اپنے’’ٹمپرامنٹل ڈس آرڈر‘‘ کو اب آرڈر میں لانا ہی پڑے گا۔ وزیر اعظم نے نواز شریف کے ہاتھ سے نکل جانے کے بعدعدلیہ کو ’’طاقتور‘‘ ہونے کا طعنہ دیا تھا۔ اب عوام جسٹس کھوسہ کے اقدام کے بعد پہلی بار اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ آج کی عدلیہ کو واقعی طاقتور ہونا چاہئیے اور امید رکھتے ہیں کہ آنے والے چیف جسٹس گلزار بھی انہی کی طرح ’’بولڈ‘‘ اور دلیر ہوں اور جو سلسلہ جسٹس کھوسہ نے شروع کیا ہے اسے جاری و ساری رکھیں گے۔ ہم آخر میں سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ کی ملک اور قوم کے لئے گراں قدر خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ انہوں نے پاکستان سے چار دہائیوں کی دہشت گردی کو جس طرح ختم کیا یہ ان کا ہم پر بڑا احسان ہے۔ انہیں عدالت عظمیٰ کی جانب سے چھ ماہ کے لئے جو مشروط، توسیع دی گئی ہے اس دوران بھی اپنی عسکری صلاحیتوں کو پوری طرح بروئے کار لائیں گے۔ عدالت نے آرمی ایکٹ میں قانون سازی کے لئے عمران خان کی حکومت کو بھی چھ ماہ کا وقت دیا ہے۔ قانون سازی اس ایوان میں ہونا ہے جہاں اپوزیشن نے اب تک صرف، سلیکٹڈ، سلیکٹڈ کے نعرے لگائے ہیں۔