خدا خیر کرے۔ جوں جوں آزادی مارچ کی تاریخ نزدیک آ رہی ہے، مولانا فضل الرحمن کے لہجے کی تمازت بڑھتی جا رہی ہے۔ دو تین روز پہلے آپ پرویز مشرف کے ریٹائرڈ پسماندگان پر برس پڑے۔ اربوں روپے کے فارم ہائوس میں رہائش پذیر یہ ریٹائرڈ پسماندگان آج کل مختلف ٹی وی چینلز پر تاحیات تجزیہ نگاری کے منصب پر فائز ہیں۔ مولانا کو ان پر ہاتھ ہلکا رکھنا چاہئے۔ اس گھنگھور بڑھاپے میں محض قوم کو حب الوطنی سکھانے ہر شام، سرشام چینلز پر آ جاتے ہیں اور رات گئے تک قوم کی خدمت کرتے ہیں ورنہ باغاتِ ارم کے گرم جوش گہوارے چھوڑ کر ہر رات ٹی وی پر آنا کوئی آسان کام ہے۔ مولانا وزیر اعظم پر مسلسل ناوک انداز رہتے ہیں۔ انہوں نے انہیں تازہ خطاب ریجیکٹڈ کا دیا ہے۔ اس سے پہلے بلاول انہیں سلیکٹڈ کا خطاب دے چکے ہیں۔ ڈپٹی سپیکر نے اسے غیر پارلیمانی قرار دے دیا چنانچہ اب بلاول پارلیمان سے باہر یہ خطاب دہراتے ہیں۔ کل بھی دہرایا حالانکہ جو پارلیمنٹ کے اندر غیر پارلیمانی ہے، وہ باہر بھی غیر پارلیمانی ہے۔ ہر دو حضرات کو چاہئے کہ پارلیمانی الفاظ استعمال کریں۔ مثال کے طور پر وہ وزیر اعظم کو نافذ شدہ بھی تو کہہ سکتے ہیں۔ نافذ شدہ یعنی جسے ملک کی قوت نافذہ نے نافذ کیا۔ یہ محض پارلیمانی ہی نہیں، قانونی لفظ بھی ہے۔ امید ہے مولانا اور بلاول اس تجویز کو پذیرائی بخشیں گے اور بلاول اس تجویز کو پذیرائی بخشیں گے اور حکمران جماعت کے دل مزید نہیں دکھائیں گے۔ سوا سالہ حکمرانی کے ہاتھوں وہ پہلے ہی بہت دکھی ہیں۔ ٭٭٭٭٭ مولانا کے ملفوظات ٹی وی پر نہیں آئے، لوگ سوشل میڈیا پر سن لیتے ہیں۔ ٹی وی پر مولانا کا کہا ہوا کچھ بھی نہیں سنایا جاتا، ہاں ان کے بارے میں کہا گیا دن رات سننے کو ملتا ہے۔ میڈیا کے حلقے کہتے ہیں، پیمرا نے پابندی لگا دی ہے اور کیا ہے، جو مولانا کا کلپ چلائے گا، نتائج کا خود ذمہ دار ہو گا۔ ادھر پیمرا نے تردید کی ہے یعنی اس نے کوئی پابندی نہیں لگائی۔ لیکن پابندی تو لگی ہوئی ہے۔ پیمرا نے نہیں تو کس نے لگائی؟ شاید میڈیا والوں کو غلطی لگی۔ پابندی ہو سکتا ہے واپڈا نے لگائی ہو۔ اس خیال سے کہ مولانا کا کلپ چلا تو کئی چراغوں میں روشنی نہیں رہے گی۔ واللہ اعلم۔ اسلام آباد پنڈی میں انتظامیہ نے دکانداروں پر پابندی لگا دی ہے کہ وہ مولانا کے مارچ والوں کو کچھ بھی نہیں دیں گے۔ نہ برتن نہ خیمے نہ قناتیں نہ کوئی کھانے پینے کی شے، پابندی کس دفعہ کے تحت لگائی گئی! شاید دفعہ دفع دور کے تحت۔ وجہ؟ وجہ یہ کہ خان اعظم یہ چیزیں خود مارچ والوں کو دیں گے۔ انہوں نے ایک نہیں، تین تین بار یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ دھرنے والوں کو کنٹینر بھی دیں گے کھانا بھی پانی بھی۔ انہوں نے سوچا ہو گا، جب میں یہ ساری چیزیں خود دینے والا ہوں تو دکانداروں کو زحمت کیوں دی جائے، یہی سوچ کر پابندی لگا دی۔ ٹھیک ہے، وزیر اعظم نے اب تک جتنے وعدے کیے، سب پر یوٹرن لے لیا لیکن ضروری تو نہیں اس وعدہ پر بھی یو ٹرن لیں۔ ٭٭٭٭٭ پنجاب اور پختونخوا کے ہسپتالوں میں ہڑتال چل رہی ہے۔ حکومت ان ہسپتالوں کی نجکاری کر رہی ہے اور ڈاکٹر، بالخصوص ینگ ڈاکٹرز اس نج کاری کے خلاف ہیں اس لیے ہڑتال کر رہے ہیں۔ حکومت کو اس ہڑتال کی پروا نہیں ہے، اس لیے کہ اس کا مقصد پورا ہو رہا ہے۔ مقصد مریضوں کو علاج کی سہولت سے محروم رکھنا ہے۔ اور نجکاری کا مقصد بھی یہی ہے۔ سابق لوٹ مار والی حکومتوں نے مریضوں کو بہت سی سہولتیں دے رکھی تھیں۔ مفت ٹیسٹ،مفت دوائیں، نجکاری سے پہلے ہی یہ سب ختم کر دیا گیا۔ نج کاری کے بعد یہ ہسپتال صرف ’’متمول‘‘ مریضوں ہی کو دیکھا کریں گے۔ غریبوں اور لوئر مڈل کلاس کے لیے نو انٹری، یہی مشن قبلہ پرویز مشرف کا تھا۔ ایسا ماجرا تعلیم کا بھی ہو رہا ہے۔خبریں ہیں کہ ہسپتال جن کاروباری افراد کو دیئے جا رہے ہیں وہ تحریک انصاف کی ہائی کمان والوں کے قریبی رشتہ دار یا احباب ہیں۔ بعض تو براہ راست ’’اعلی مقام‘‘ سے رشتہ رکھتے ہیں۔ مزید تسلی کے لیے مولانا طارق جمیل حاضر ہیں۔ دریں صورت اسے نجکاری کا نام دینا ذرا دقیانوسی سا لگتا ہے۔ دراصل یہ انصاف کاری ہے یعنی پرائیویٹائزیشن نہیں، پی ٹی آئی نازیشن۔ ٭٭٭٭٭ وزیر اعظم نے پھر شکوہ کیا ہے کہ پاکستانی عوام ٹیکس نہیں دیتے۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف کی یوتھ قرضہ سکیم کو نئے نام کامیاب جوان کا بپتسمہ دیتے ہوئے انہوں نے مولانا فضل الرحمن کو ڈیزل کے نام سے بھی دوبارہ یاد فرمایا۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ ساری دنیا سے زیادہ ٹیکس پاکستانی عوام دیتے ہیں۔ خان صاحب نے ہر شے پر ٹیکس لگایا اور ان گنت نئے ٹیکس لگا دیئے۔ بجلی ہی کو لے لیجئے، اس کے بل میں کتنے ٹیکس الگ سے لگے ہوئے ہیں۔ ٹیکسوں کی شرح بھی دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔ پھر بھی وزیر اعظم کہتے ہیں کہ پاکستانی ٹیکس نہیں دیتے تو ضرور اس کے کچھ معنے ہوں گے۔ یہی کہ یہ بھی کوئی ٹیکس دینا ہے، ٹیکس تو ابھی ہم لگائیں گے۔اتنے ٹیکس وصول کرنے کے بعد تازہ اطلاع یہ ہے کہ بجٹ خسارہ 3.45ٹریلین زیادہ، خدا ہی جانے وصولیوں سے ملنے والی رقم جا کہاں رہی ہے۔ امریکی اخبار وال سٹریٹ جرنل نے لکھا ہے کہ پاکستانی معیشت آنے والے دنوں میں مزید کمزور ہو گی۔ اگلے برس مزید 20لاکھ افراد بے روزگار، مزید 80لاکھ خط غربت سے نیچے جا پڑیں گے۔ مہنگائی تین گنا بڑھ گئی اور اخبار نے آخر میں یہ بھی لکھا ہے کہ پاکستان کا غریب اور متوسط طبقہ مر رہا ہے۔ ابھی کہاں مر رہا ہے۔ ابھی تو…ابتدائے ’’مرگ‘‘ ہے روتا ہے کیا والا معاملہ ہے۔