فرض کریں آپ کسی کمرے میں بڑی سکرین پہ پچاس ساٹھ افراد کے ساتھ بیٹھے کسی سنسنی خیز میچ سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔ ان میں سے چند اتنے پرجوش ہیں کہ اپنی جگہ سے کھڑے ہوجاتے ہیں اور داد جوش دینے لگتے ہیں۔ ان کی دیکھا دیکھی چند اور لوگ اس عمل میں شریک ہوجاتے ہیں۔آپ کو لطف اندوزی کے اس بے سرو پا انداز سے کوفت ہوتی ہے کیونکہ آپ کے اور ٹی وی اسکرین کے درمیان کچھ ناہنجار حائل ہوگئے ہیں اور آپ کی تفریح کھٹائی میں پڑ رہی ہے۔ کمرے میں نئے آنے والے جب یہ منظر دیکھتے ہیں تو انہیں بجا طور پہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ اب میچ سکون سے بیٹھ کر نہیں دیکھا جاسکتا۔اس کے لئے کھڑا ہونا پڑے گا۔اس لئے کمرے میں کھڑے ہونے والوں کی تعداد بیٹھے رہنے والوں سے بڑھتی جاتی ہے ۔آپ کچھ دیر اس صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں اور بالاخر یہ ٹیکنیکل فیصلہ کرتے ہیں کہ اگر آپ کو بھی میچ سے لطف اندوز ہونا ہے تو اپنی جگہ چھوڑ کر کھڑا ہونا پڑے گا ورنہ آپ کمرے میں موجود وہ آخری آدمی رہ جائیں گے جسے کچھ دکھائی نہیں دے گا۔لہٰذا آپ بھی ایک غیر اصولی لیکن تکنیکی فیصلہ کرتے ہیں اور اپنی جگہ سے کھڑے ہوجاتے ہیں۔اب صورتحال یوں بن گئی ہے کہ کمرے میں جہاں لوگوں کو بیٹھ کر سکون سے میچ دیکھنا چاہئے،ہر شخص ایک دوسرے کے کندھوں پہ سوار نہ صرف ہڑدنگے پن کا مظاہرہ کررہا ہے بلکہ سر پھٹول کی نوبت بھی آن پہنچی ہے۔ایسا صرف اس لئے ہوا کہ لوگوں کے مجموعی مزاج کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایک اصول کو توڑا گیا اور رواج کے احترام میں اصول کو پامال کیا گیا۔یہی ہماری کہانی ہے۔ کلیشے بننے میں وقت لگتا ہے ، اسے قبول کرنے میں کم وقت لگتا ہے اور اسے ہمارے عمومی مزاج کا حصہ بنتے بالکل دیر نہیں لگتی۔ہم قطار بنانے والی قوم نہیں ہیں کیونکہ ہمیں ہجوم بنایا گیا ہے۔ ہمیں اس خوف میں مبتلا رکھا گیا ہے کہ اگر ہم نے قوم کے عمومی مزاج کا احترام نہ کیا تو ہمارے جائز اور ضروری کام ایک ایسے گھن چکر کا زرق بن جائیں گے جس کے بعد کانوں کو ہاتھ لگا کر رجوع کرنے کی گنجائش بھی نہ رہے گی۔ اگر آپ نے اتفاق سے یورپ میں کچھ عرصہ گزار لیا ہے اور آپ کو ہر کام قانونی اور تھرو پراپر چینل کرنے کی قبیح عادت بن گئی ہے تو وطن عزیز میں ایک سے بڑھ ایک سرپرائز آپ کا منتظر ہوگا۔ اگر آپ نے یہاں بھی یہی پریکٹس جاری رکھنے کا عزم مصمم کرلیا تو ہر ادارے میں بیٹھا مفاد باہمی نیٹ ورک کبھی آپ کے سگنل پورے نہیں آنے دے گا۔ آپ جھک مار کر مقامی رجحان اختیار کرنے کی کوشش کریں گے تو مزید خوار ہونگے اور ممکن ہے آپ کو مزید رشوت دینی پڑے ۔ یہی نہیں آپ جو ساری عمر رزق حلال کماتے آئے ہیں، کوئی بعید نہیں کہ ایک رشوت خور کلرک کے آگے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتے نظر آئیں۔مرشدی یوسفی کا بیان ہے کہ ساری عمر راستی اور نیکی کی راہ پہ چلنے والا جب جھک مار کر بدمعاشی پہ اتر آئے تو پہلے سے زیادہ ذلیل و خوار ہوتا ہے۔اگر آپ فرنگیانہ اخلاق سے اس درجہ متاثر ہوگئے ہیں کہ ملک عزیز میں کسی بس اسٹاپ ، بینک یا کسی اور ادارے میں قطار بناکر انچ انچ سرکنے کی عیاشی کرنا چاہتے ہیں تو مبارک ہو آپ مکمل طور پہ تباہ ہو چکے ہیں۔ اگر آپ کسی سرکاری ادارے میں بغیر رشوت کام نکالنا چاہتے ہیں کیونکہ آپ میرٹ پہ ہیں تو واللہ آپ ولی ہیں اور ولیوں کے ساتھ دنیا جو سلوک کرتی ہے ،اسی کے مستحق ہیں۔ اگر آپ کی کمپنی سرکاری ٹینڈر کے معیار پہ پورا اترتی ہے اور آپ کو سو فیصد یقین ہے کہ یہ ٹینڈر آپ کے نہیں تو کم سے کم میرٹ پہ کسی اور کمپنی کے حوالے کیا جائے گا بالخصوص اس وقت جب متعلقہ ادارے کا تعلق عوام کی جان و مال سے متعلق کسی منصوبے سے ہو تو خدا کی قسم آپ ہمارے ان وزرا کو نہیں جانتے جن کے رشتہ داروںنے اسی مقصد کے لئے عین ان ہی دنوں میں جعلی کمپنیاں بنا رکھی ہیںاور وہ یقینا اس لئے نہیںبنائی گئیں کہ یورپ سے درآمد شدہ ایک الل بچھیرا ان کے اربوں کے کک بیکس پہ کک مار کے نکل جائے۔اگر آپ کو لگتا ہے کہ اس لٹی پٹی قوم کو میٹرو ، اورنج ٹرین اور موٹر وے سے زیادہ تعلیم، انصاف اور صحت کی ضرورت ہے اور یہ منصوبے ان بنیادی ضروریات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ چلتے رہیں تو بہتر ہوگا، تو آپ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں جو کھڑے ہوکر میچ دیکھنے والوں کے ہجوم میں سکون سے بیٹھ کر میچ دیکھنا چاہتے ہیں۔ یورپ کوئی جنت نہیں ہے، آپ کو بھی علم ہے کہ رشوت اور ٹینڈر خوری وہاں بھی چلتی ہے اور بڑے منصوبوں میں ہاتھ کرجانا وہاں بھی رائج ہے۔آپ مگر اتنا جانتے ہیں کہ یہ قبحات و معائب وہاں کلچر کا حصہ نہیں ہیں اور اگر عوامی حمایت کے کسی علمبردار کے متعلق یہ سن گن بھی مل جائے کہ وہ کرپشن میں ملوث رہا ہے تو اس کی پارٹی اسے بچانے سڑکوں پہ نہیں نکل آتی۔وہ ساری عمر اپنے پڑوسیوں اور ووٹروں سے شرمندہ رہے گا اور کوئی اسے یہ کہہ کر تسلی نہیں دے گا کہ کیا ہوا کھاتا ہے تو لگاتا بھی تو ہے۔کوئی یہ بھی نہیں کہے گا کہ کیا ہوا جو کرپشن کرلی، ملک میں عام شہری کو انصاف بھی مل رہا ہے، تعلیم اور صحت کی سہولیات بھی۔ ایسے دل خوش کن لیکن حیران کن فقرے آپ کو وطن عزیز میں ہی سننے کو ملیں گے۔ کوئی اپنے حکمرانوں سے یہ نہیں پوچھے گا کہ میٹرو اور اورنج ٹرین جیسے سفید ہاتھی منصوبوں پہ خرچ کرنے سے پہلے سرکاری اسپتالوں کی حالت زار ٹھیک کرلیتے۔ان علاقوں میں جہاں بھینس اور انسان ایک ہی گھاٹ پہ پانی پیتے ہیں، صاف پانی کا پلانٹ لگا دیتے۔ جہاں بچیاں ایک گلاس صاف پانی کے لالچ میںاسکول جاتی ہیں، یہ بنیادی ضرورت ان کے گھروں میں بھی پہنچادیتے۔جہاں مائیں بچے جننے کے لئے بیل گاڑیوں کا میٹرنٹی وارڈ استعمال کرتی ہیں وہاں صحت کے مراکز بنا دیتے۔ جہاں شرف انسانی ایک لقمے پہ بکتا ہو وہاں لنگر خانے کھول دیتے ۔ تب جتنے چاہے میگا پروجیکٹس بناتے اور کک بیکس بھی۔ یہ قوم لیکن لنگر خانوں کا مذاق اڑائے گی اور سفید ہاتھی عرف اورنج ٹرین پہ فخر کرے گی۔ ٹورازم کے فروغ کا ٹھٹھا اڑائے گی لیکن رینٹل پاور پروجیکٹس پہ خاموش رہے گی۔ مرغی اور انڈوں سے معیشت کی بحالی پہ فقرے کسے گی لیکن موٹر وے کے گروی رکھے جانے سے لاعلم رہے گی۔ چوروں اور لٹیروں کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے کے مغالطے میں خوش رہے گی لیکن انہیں کیفر کردار تک اس لئے نہیں پہنچنے دینا چاہے گی کہ اس راہ میں کہیں نہ کہیں ان کا بھی مفاد ہے۔ایسے میں عمران خان کھڑے ہوکر میچ دیکھنے والوں کو بٹھانے پہ تلے ہوئے ہیں۔تکلیف بھی ہوگی اور وقت بھی لگے گا۔