عین اس وقت جب امریکی سیکریٹری اسٹیٹ مائک پومپیو پاکستان میں قدم دھرنے کی تیاری کر رہے تھے ، افغانستان سے مولوی جلال الدین حقانی کی وفات کی خبر جاری ہوئی۔مجھے احساس ہے کہ ملک کے تجزیہ کاروں کے لئے اول الذکر کی آمد آخر الذکر کی رفت سے زیادہ اہم موضوع ہے لیکن میرا ذہن جلال الدین حقانی میں الجھ سا گیا ہے۔بات طبائع نازک پہ گراں تو گزرے گی لیکن کہے بغیر چارہ بھی نہیں ۔کچھ باتیں دل پہ قرض ہوتی ہیں۔ نہ کہی جائیں تو بوجھ بڑھتا جاتا ہے۔ سود در سود۔ماہ بہ ماہ۔سال بہ سال۔پورے سترہ سال۔ہم سے کہیں تو غلطی ہوئی ہے۔ کوئی جوہری، کوئی تزویراتی غلطی۔ آپ یقین کریں اگر امریکی وزیر خارجہ کو بھارت نہ جانا ہوتا تو وہ پاکستان کا رخ کبھی نہ کرتے۔دھمکیاں دی جا چکیں۔ امداد یا کولیشن سپورٹ روکی جاچکی۔ ڈو مور کے مطالبے کئے جاچکے۔ اب اس مختصر دورے میں فریقین نے کون سا تیر مار لینا ہے۔ اس کی حیثیت بھارت کے اسٹاپ اوور سے زیادہ معلوم نہیں ہوتی۔دشت بے آب نے دیکھے ہیں وہ کالے بادل۔جو کہیں اور برسنے کو ادھر سے گزرے۔اس پہ بات ہو سکتی ہے اور خاصی طویل بات ہوسکتی ہے لیکن میرا ذہن جلال الدین حقانی میں الجھا ہوا ہے۔ آخر ڈو مور کا ان کے نام پہ رکھے گئے نیٹ ورک سے گہرا تعلق ہے۔ اچھے دنوں میں یہ لمبی داڑھیوں والے، سر پہ صافی باندھے گھیردار شلواروں والے ،کاندھے پہ رومال ڈالے،رومال پہ امریکی اسٹنگر دھرے یا پھر ہاتھ میں روسی ساختہ کلاشنکوف پکڑے کہ دونوں کو ایک ساتھ چلانا ناممکن ہے گوانہو ں نے عملاایسا ہی کیا ، افغان مجاہدین امریکہ کے ہیرو ہوا کرتے تھے۔ ان پہ ہالی ووڈ نے فلمیں بنائیں۔ان کے وفود پورے جلال کے ساتھ امریکی اوول آفس میں صدر ریگن کے ساتھ میٹنگ کرتے تھے۔ انہیں پورا پروٹوکول دیا جاتا تھا۔ کیا ہی بھلے دن تھے اور ان بھلے آدمیوں میں ایک جلال الدین حقانی بھی تھے ۔وہ ان مردان خدا میں سے ایک تھے جن کی زندگی جہاں سے شروع ہوتی ہے وہیں ختم ہوتی ہے۔عجیب بات ہے۔ امریکہ نے اس شخص پہ اعتبار کیسے کیا جس کی زندگی کا مقصد ساری عمر ایک رہا ہو۔ ایسے لوگ تو خطرناک ہوتے ہیں۔ افغانستان کے سابق شاہ اور اپنے ہی برادر نسبتی اور کزن ظاہر شاہ کے خلاف سردار داود نے سوویت روس اور افغان کمیونسٹوں کی حمایت سے بغاوت کی تب بھی جلال الدین حقانی اسی پیج پہ تھے جس پہ آج وہ فوت ہوئے۔ہم بھی اسی پیج پہ تھے جس پہ آج موجود ہیں۔ پیج کوئی نہیں بدلتا۔تاریخ بدل جاتی ہے۔ترجیحات بدل جاتی ہیں۔ جس قطب نما کی سوئی پہ ہم قبلہ گھماتے تھے وہ بدل جاتی ہے۔ جلال الدین حقانی بھی نہ بدلے۔ انہوں نے تب بھی ہتھیار اٹھائے۔ سوویت روس کی افغانستان پہ جارحیت سے قبل وہ ہجرت کرکے پاکستان آگئے تھے اور میران شاہ میں ڈانڈے درپہ خیل میں اپنا مدرسہ چلا رہے تھے اور سکون کی زندگی گزار رہے تھے۔ ان کا کنبہ تھا اور رشتے دار بھی۔ جب سوویت روس نے افغانستان پہ باقاعدہ چڑھائی کی تو اسی جلال الدین حقانی نے ہاتھ سے سی پارہ رکھا اور درے کی بنی ہوئی کلاشنکوف اٹھا لی۔ یہی مدرسہ منبع العلوم افغان مجاہدین کا بیس کیمپ بن گیا۔ یہیں سوویت روس کے خلاف افغان مجاہدین اور پاکستان حکومت ایک پیج پہ آئے۔ اسی پیج پہ امریکی سی آئی اے نے جگہ بنالی۔ انہیں لمبی داڑھیاں اور گھیردار شلواریں اتنی بھائیں کہ صدر ریگن لہلوٹ ہوہو گئے۔ جارج کرائل اپنی بدنام زمانہ کتاب چارلی ولسن ز وار میں چارلی ولسن کے حوالے سے جلال الدین حقانی کا تبصرہ بیان کرتا ہے۔ چارلی ولسن سوویت افغان جنگ کے دوران ٹیکساس سے کانگریس کا رکن اور خفیہ طور پہ سی آئی اے کا انڈرکور نیول آفیسر تھا، اس جنگ کے دوران افغان مجاہدین اور امریکہ کے درمیان سہولت کاری کا فریضہ انجام دیتا رہا۔ مبینہ طور پہ افغان مجاہدین کو سی آئی اے کے بعد ظاہری طور پہ سب سے زیادہ مالی اور عسکری امداد اسی کے ذریعے دی جاتی رہی۔ دی چارلی ولسن وار کا مصنف اور فوجی صحافی جارج کرائل مجاہدین اور چارلی ونسن کے بہت قریب رہا۔ وہ لکھتا ہے چارلی ولسن جلال الدین حقانی کے متعلق کہا کرتا تھا کہ جیسے نیکی مجسم ہوکر سامنے آگئی ہو۔جب یہی نیکی ملا عمر کی صورت مجسم ہوکر سامنے آئی تو بدی کا محور لگنے لگی اور حقانی نیٹ ورک تو ہے ہی شیطانی جنجال۔ ویسے افغان جہاد میں امریکی ڈالروں اور ہتھیاروں کا جتنا ڈھنڈھورا پیٹا جاتا ہے وہ اتنے تھے نہیں۔مجاہدین کو دی جانے والی یہ امریکی امداد تو صرف پانچ لاکھ ڈالر سے آزمائشی بنیادوں پہ شروع ہوئی تھی۔اگر آپ اس دوران استعمال ہونے والے افغان مجاہدین کے ہتھیاروں کا جائزہ لیں تو ان میں سے اکثر روسی افواج سے مال غنیمت کے طور پہ ہاتھ لگنے والے بڑے اور چھوٹے ہتھیار ہیں۔ اگر اس بات میں تفنن کا پہلو محسوس ہو تو ہتھیاروں کی پوری لسٹ حاصل کی جاسکتی ہے۔ان میں صرف اسالٹ رائفلیں تھیں، ایم ون گرنیڈ تھے،بھاری ہتھیاروں میں اسٹنگر میزائل،بی جی ایم اینٹی ٹینک میزائل اور ریڈائے میزائل امریکہ نے فراہم کئے،باقی سب روسی، برطانوی اور چند ایک چینی ہتھیار تھے۔ پاکستان کو ملنے والی امداد میں البتہ اضافہ ہوتا رہا جو ابتدا کے چھ سالوں میں تین سو کروڑ ڈالر رہی ۔ اسی دوران پاکستان کو لگے ہاتھوں چالیس ایف سولہ طیارے بھی بیچ دیے گئے۔پاکستان اور افغان مجاہدین کیلئے ریگن انتظامیہ میں لابنگ چارلی ولسن کے علاوہ گورڈن ہمفرے اور دیگر رکن کانگریس کرتے رہے۔ آج اس برے وقت میں پاکستان کے لئے لابنگ کرنے والے کانگریس ارکان کتنے ہیں جبکہ ہم تو آج بھی اسی پیج پہ ہیں۔سو پیاز بھی کھاتے ہیں اور سو جوتے بھی پھر بھی کولیشن سپورٹ فنڈ جسے وہ امداد کہتے ہیں بند کردیا جاتا ہے۔ آئے دن دھمکیاں الگ دی جاتی ہیں۔مطالبے الگ جان کو آئے ہوئے ہیں۔ اور ذرا اس جلال الدین حقانی کو تو دیکھئے۔جی بھر کے امریکی امداد وصول کی۔ ریگن کے ساتھ ایک صوفے پہ بیٹھ کر چائے پی۔ نیلی آنکھوں کا تارا بنا رہا۔ اتنا کہ مجسم نیکی کہلایا۔روانی سے عربی بولنے والے جلال الدین نے دنیا بھر سے روس کے خلاف عرب مجاہدین اکھٹے کئے۔ کسی کے سر پہ عمامہ تھا تو کسی کے پاوں میں میخوں والے امریکی جوتے۔ تھے لیکن سب مجسم نیکی۔سب نے مل کر روس کی ایسی کی تیسی کردی۔ جب روس افغانستان سے نکلا تو یہی جلال الدین حقانی صبغت اللہ مجددی اور برہان الدین ربانی کی کابینہ میں کچھ عرصہ وزیر رہے لیکن مجاہدین کی آپس کی سر پٹھول نے انہیں اتنا دلبرداشتہ کیا کہ وہ واپس خوست چلے گئے جہاں عرب مجاہدین سے ا ن کے رابطے بحال تھے اور القاعدہ پراسرار طور پہ منظم ہوچکی تھی۔مجاہدین کی آپسی چپقلش سے بیزار طالبان نے جب سن چھیانوے میں کنٹرول سنبھالا تو کوئٹہ شوری میں جلال الدین حقانی شامل تھے۔ طالبان ان کے بچے تھے۔ وہ طالبان کے پورے دور حکومت میں وزیر کا عہدہ نبھاتے رہے یہاں تک کہ نائن الیون ہوگیا۔ صدر ریگن کی جگہ بش نے لے لی تھی۔دنیا کی واحد رہ جانے والی سپر پاور بری طرح بپھری ہوئی تھی۔ اس نے وہی غلطی کی جو روس نے کی تھی۔ اسے زعم تھا کہ روس کے خلاف تو اس نے مجاہدین کا ساتھ دیا تھا اب ان کا ساتھ دینے والا کون ہے؟جب طالبان حکومت کی امارات اسلامی افغانستان پہ حملہ ہوا تو جلال الدین حقانی نے وہی کیا جو انہوں نے سردار داود اور اس کے اتحادی کمیونسٹوں کے خلاف کیا تھا اور جو انہوں نے روس کے خلاف کیا تھا یعنی ہتھیار اٹھا لئے۔ افغان ویسے بھی بندوق کو زنگ نہیں لگنے دیتے۔ کوئٹہ شوری میں فیصلہ ہوا کہ وہ وہی کریں گے جو وہ صدیوں سے جارح افواج کے خلاف کرتے آئے ہیں یعنی جہاد۔ جلال الدین حقانی وائٹ ہاوس کی ضیافتیں بھی بھول گئے اور ریگن کی مہمان نوازی بھی۔انہیں یاد رہا تو بس وہ سبق جو وہ میران شاہ کے منبع العلوم میں بچوں کو پڑھایا کرتے تھے۔کتب علیکم القتال۔تم پہ جہاد فرض کردیا گیا ہے ۔افغانستان پہ امریکی حملے کے بعد وہ روپوش ہوگئے اور جب وہ واپس آئے تو انہوں نے نیٹو افواج کو اتنا نقصان پہنچایا جتنا کسی اور نے نہیں پہنچایا۔ امریکہ کی حکومت نے کل کے مجسم نیکی کے سر کی قیمت کئی لاکھ ڈالر مقرر کی ہوئی تھی۔ 1970 ء سے اپنی تاریخ وفات یعنی چار ستمبر 2018 ء تک نو عدد مہمات جلال الدین حقانی کے کریڈٹ پہ ہیں ۔ اپنی عمر کے اڑتالیس سال اس شخص کا ایک ہی نظریہ رہا۔جہاد۔ اس وقت بھی جب ہم طالبان سفیر ملا عبدالسلام ضعیف کو گردن سے پکڑ کر امریکہ کے حوالے کررہے تھے اور وہ روتا تھا اور کہتا تھا کہ کاش پاکستانی حکام میں سے کوئی میری ذلت پہ ایک لفظ کااحتجاج تو کرتا۔آج مائک پومپیو کہیں اور برسنے کو ادھر سے گزرے اورہم نے امیدیں لگالیں، ہم تخمینوں میں لگ گئے۔ادھر طالبان مذاکرات کی میز الٹ دیتے ہیں اور جلال الدین حقانی اپنے رب کے حضور سرخرو ہوئے۔