جس خاک کے ضمیرمیں ہو آتشِ چنار ممکن نہیں کہ سرد ہو وہ خاک ِ ارجمند شاعر ِ مشرق علامہ اقبال کے اس شعر سے لئے جانے والے آتش ِ چنارکے نام سے منسوب کتاب کے مصنف چالیس اور پھر پچاس ،بلکہ ساٹھ کی دہائی تک شیرِ کشمیر کے نام سے بے پناہ شہرت رکھنے والے شیخ محمد عبداللہ ہیں۔گزشتہ ہفتے لائن آف کنٹرول سے واپسی پر ڈھلتی شب میں نے اپنے میزبان سے کہا،’’کیا مظفر آباد میں بُک شاپس ہیں؟‘‘ شرمندہ کردینے والی نظروں سے کہا،’’صرف اس چوک پر آمنے سامنے پانچ کتابوں کی دکانیں ہیں۔ اِدھر کچھ دنوں سے کشمیر کے حوالے سے جس کتاب کی تلا ش تھی، وہ دکان میں داخل ہوتے ہی سامنے دھری تھی۔اعتراف کرنے دیجئے ،کہ تین دہائی قبل شائع ہونے والی یہ خود نوشت سوانح اب بھی میلوں ٹھیلوں میں نظر آئی ۔مگر اس طرف ہاتھ نہیں گیا۔شیخ عبداللہ کا جو imageسنااور اُن کے بارے میں ادھر ادھر سے جو پڑھا تھا،اُس سبب کوئی خاص کشش اورخواہش نہ تھی کہ اُسے پڑھا جائے ۔عمر کے اس پہر میں لگتا ہے کہ یہ ہماری چٹختی جہالت تھی اور ہے کہ جس کے سبب تاریخی و سیاسی کتاب کا چناؤ مصنف کو پسند یا پسند کرنے کے حوالے سے کرتے ہیں۔تاخیر سے احساس ِ زیاں ہوا ،تو اس کا ازالہ اسی طرح ہوسکتا ہے کہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر کم از کم برصغیر پاک و ہند میںنامور سیاستدانوں اور محققین کی لکھی خاص طور پر آپ بیتیوں کو بالتفصیل پڑھا جائے ۔یہ ساری تمہید اس لئے باندھی کہ اِدھر جو کشمیر کے حوالے سے ساری دنیا میں شور و غوغا ہورہا ہے، اس پر اسکرین پر آواز لگاتے اور کالم باندھتے ہوئے ہمارا علم خاصا غریب ہے۔اور پھر نوے کی دہائی کے بعد جو ہمارے لشکروں،سپاہوں اور حزبوں نے افغانستا ن کے بعد تنازعہ ِ کشمیر کے ساتھ ،معذرت کے ساتھ،جو کھلواڑ کیا ہے،اُس کے بعد تو لگتا ہے کہ یہ مسئلہ ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کے پاپولر نعرے سے جو شروع ہوا اُس کا انجام بھی اسی پر ہوگا۔بھارت کے زیر تسلط کشمیر میں جس بڑے پیمانے پر حریت پسندوں نے جو قربانیاں دی ہیں، جلد یا بدیر انہیں آزادی تو ملے گی ہی ،مگر برصغیر پاک و ہند کا یہ خونی تنازعہ اور اُس کی تاریخ اور پھر حال و مستقبل ایسا نہیں جو ہمیں ایک عرصے سے بتایا،پڑھایا اور دکھایا جارہا ہے۔بھارتی سورماؤں کے مظالم کے آگے، سفید جرمن ڈکٹیٹر ایڈولف ہٹلر بھی معصوم لگنے لگا ہے۔مگر پاکستانی حکمرانوں ،خاص طور پر ہماری مذہبی جماعتوں اور ان کے لشکروں ،حسبوں اور سپاہوں نے اپنی نادان دوستی سے جو کردارادا کیا،اُس سے بھی کشمیر کاز کو کچھ کم نقصان نہیں پہنچا۔’’شہہ رگِ پاکستان سے کب تک خون رستا رہے گا‘‘ عنوان سے کچھ پانچ کالم انہی صفحات پر کھینچے۔مگر اعتراف کرنے دیں کہ شیخ محمد عبداللہ ،اُن کی جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس سے لاکھ اختلاف کیا جائے ،اور یہ اس لئے بھی بجا ہے کہ بھارت کے زیر تسلط کشمیری آج جن مسائل اور آلام سے گذر رہے ہیں،اُس میں تقسیم ِ ہند سے پہلے اور پھر بعد میں شیخ عبداللہ کا جوکردار رہا، اُس میں ہیرو سے زیادہ وِلن نظر آتے ہیں۔سرینگر میں 1905میں پیدا ہونے والے شیخ عبداللہ ،جنہوں نے علی گڑھ یونیورسٹی سے سائنس (فزکس) میں ماسٹرز کیا ،اور پھر سن1930 ء کے لگ بھگ تحریک ِ آزادی ِ کشمیر سے وابستہ ہوئے، پھرپوری نصف صدی تک اقتدار میں ہوں یا جیل میں ،اُن کا ڈنکا بجتا رہا۔مگر بدقسمتی دیکھیں کہ آج کشمیریوں کے نوجوان ملیٹنٹس کے لئے وہ ایک گمنا م شخص کی حیثیت سے تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہیں۔مگر اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مہاتما گاندھی اور جواہر لال نہرو کے بغیر جہاں بھارت کی آزادی کا تصور نہیںکیا جاسکتا، قائد اعظم محمد علی جناح جیسی عظیم الشان شخصیت کے بغیر قیام ِ پاکستان ،شاعر ِمشرق علامہ اقبال کا محض خواب رہتا ،اسی طرح تحریک ِ آزادی ِ کشمیر کی تاریخ کے اوراق الٹتے ہوئے ، شیخ محمد عبداللہ کے کردار کو نظر اندازنہیں کیا جاسکتا۔بھلے اُن کا اس وقت کاکردار جیسا کہ میں نے پہلے بھی لکھا’’ہیرو ‘‘کی جگہ ’’وِلن‘‘ کا ہی کیوں نہ ہو۔اکتوبر سن1948میں سقوط ِ سرینگر آخری دموں پر تھا۔پنڈی سے مظفر آباد اور اُس کے اطراف سے ہزاروں قبائلی چھاپہ مار فتوحات کے جھنڈے گاڑتے، سرینگر سے محض ایک کلومیٹر کے فاصلے پر رہ گئے تھے۔مہاراجہ کشمیر راجہ ہری سنگھ،اپنے مال و اسباب اور خاندان کے ساتھ جموں فرار ہوچکا تھا۔سارے کشمیر میں تحریک ِ آزادی کی آگ لگی ہوئی تھی۔اگر اس وقت لاکھوں کشمیریوں پر راج کرنے والے بے تاج بادشاہ شیخ محمد عبداللہ دہلی میں بھارت سے کشمیر کے الحاق پر دستخط نہ کرتے اور بعد میں اس کا اعتراف خود شیخ عبداللہ نے اپنی کتاب ’’آتش ِ چنار‘‘ میں کیا بھی ہے،بھارت کسی صورت کشمیر پر قابض نہیں ہوسکتا تھا۔ کشمیر قوم جو 72برس سے ایک آگ کے دریاسے گذر رہی ہے۔۔۔ تواُس کا سبب اُس وقت کے شیر ِکشمیر شیخ محمد عبداللہ کی ہمالیہ سے بڑی وہ غلطی تھی،جس میں انہوں نے کشمیریوں کو جواہر لال نہرو کے بھارت کے ہاتھوں فروخت کردیا۔ ابھی میں نے شیخ محمد عبداللہ کی کتاب ’’آتش ِ چنار ‘‘ کے ادھر ادھر سے چند ہی اوراق الٹے ہیں۔ کم و بیش ساڑھے چھ سو صفحے کی کتاب کی منفرد بات یہ ہے کہ وہ شاعر ِ مشرق علامہ اقبال سے بیحد متاثر تھے۔جیسا کہ خود اس کاثبوت کتاب کا نام ہے جو علامہ اقبال کے شعر سے لیا گیا ہے۔یقین کیجئے ،ہر آٹھویں اور دسویں صفحے پر اپنے بیانیوں کو آگے بڑھانے اور زور دینے کے لئے علامہ اقبال کے اشعار کا سہارا لیا گیاہے۔خود علامہ اقبال سے ان کے آخری وقت میں شیخ عبداللہ کی تواتر سے ملاقاتیں بھی ہوتی رہیں۔شیخ عبداللہ اپنی اس پوری آپ بیتی میں علامہ اقبال کے بیحد معترف نظر آتے ہیں۔شیخ عبداللہ جہاں قائد اعظم محمد علی جناح سے شکوہ شکایت کرتے رہے،وہاں بہر حال انہیں اس بات پر داد دینی پڑے گی کہ انہوں نے جواہر لال نہرو سے اپنی طویل دوستی اور وابستگی کے باوجود ان کے بارے میں یہ بھی لکھا کہ جواہر لال نہرو اپنی سحر انگیزشخصیت اور دانش کے باوجود اندر سے چانکیا تھے۔(جاری ہے)