پاکستان کی سیاسی اور فوجی حکومتوں کی تاریخ میں کابینہ میں رد و بدل کئی کئی بار ہوتا رہا ہے، وزیر تبدیل ہی نہیں معزول اور زلیل ہوتے بھی دیکھے گئے، ماضی کی کس حکومت میں کابینہ کے حوالے سے کیا کچھ نہیں ہوا، لیکن اٹھارہ اپریل کو عمران خان حکومت کی کابینہ میں جس پراسرار اور ڈرامائی طریقے سے رد و بدل ہوا، اس نے پاکستان کے عوام کے سامنے کئی پیچیدہ سوالات لا کھڑے کئے ہیں، بات صرف اسد عمر کو وزارت خزانہ سے ہٹائے جانے تک محدود رہتی تو گوارا تھی، اور عبدلحفیظ شیخ کو خالی بلکہ مبینہ خالی خزانے پر بٹھا دینے سے عمران خان کی واہ واہ ہو جاتی، کیونکہ عوام واقعی معزول وزیر خزانہ کیخلاف بغاوت پر اتر آئے تھے، ان کی معاشی پالیسیاں عمران خان کی حکومت کو بھی پستی کی جانب دھکیل رہی تھیں، لیکن اسدعمر کو جس بھونڈے طریقے سے ہٹایا گیا اسے بھی کسی طور سراہا نہیں جا سکتا، اسد عمر سات سال پہلے ایک بڑی نوکری کو لات مار کر عمران خان کے ساتھی بنے تھے، وہ سات سال تک پارٹی کو معاشی منصوبے بنا بنا کر پیش کرتے رہے، اس وقت کسی کو یہ بات سمجھ میں کیوں نہ آئی کہ موصوف تو معیشت دان ہیں ہی نہیں؟ بہر حال یہ ایک فاش غلطی تھی جس کا خمیازہ بائیس کروڑ عوام کو بھگتنا پڑا، وزیر اعظم اچانک اسد عمر کو طلب کرتے ہیں اور حکم صادرکرتے ہیں کہ استعفیٰ دے دو، اس سے پہلے کہ استعفیٰ کا کوئی سرکاری ہینڈ آؤٹ جاری ہوتا، اسد عمر نے بھی اپنے کسی ایک ساتھی کو بھی صورتحال سے آگاہ کئے بغیر پریس کانفرنس کر ڈالی اور حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ پریس کانفرنس براہ راست ٹیلی کاسٹ ہوجانے کے کئی گھنٹوں بعد تک بھی کابینہ کے کسی اوررکن کے علم میں نہ آئی ، اس بات کا ثبوت شیریں مزاری اور شفقت محمود جیسے اہم ترین لوگوں کے بیانات ہیں جنہوں نے وزیر خزانہ کے استعفے کے بعد میڈیا کے سوالات کے جواب میں دیئے، شفقت محمود نے تو یہ بھی کہا کہ، اس حوالے سے کسی کو اعتماد میں نہیں لیا گیا، شیریں مزاری نے تو حدہی کردی وہ اسد عمر کے استعفے کی بات تک سننے کو تیار نہ تھیں، فرما رہی تھیں کہ وہ تو ابھی اس اجلاس سے اٹھ کر آ رہی ہیں جس کی صدارت اسد عمر کررہے تھے، اوہ ہو یہ بڑے بڑے فیصلے اور کابینہ کی بے خبریاں،،،، اسدعمر نے بیشک یہ کہا ہے کہ وہ تحریک انصاف اور عمران خان کو نہیں چھوڑیںگے، اس نہ چھوڑنے کا مطلب مجھے تو الٹا نظر آ رہاہے، میرے خیال میں تو وہ سب پول کھولیں گے مثلاً بیرونی ممالک سے امداد اور قرض کی مد میں ملنے والی ساری رقوم کہاں گئیں، عوام کو محض یہ بتایا گیا ہے کہ پچھلی حکومتوں کے لئے گئے قرضوں کا سود ادا کیا جا رہا ہے، کیا لوگ اس لئے تحریک انصاف کو اقتدار میں لائے تھے کہ وہ سابقہ حکومتوں کے جرائم دھونے لگ جائیں ؟ اور خود عوام کو دو وقت کی روٹی سے بھی محروم کر دیا جائے، انہیں دو کی بجائے ایک روٹی کھانے کے شاعرانہ اور فلسفیانہ مشورے دیے جائیں، اسد عمر نے پارٹی کے اندر سازشوں کا ذکر بھی کیا ہے اور کہا ہے کہ انہوں نے توانائی کی متبادل وزارت اس لئے ٹھکرادی کیونکہ میں سازشوں کے ماحول میںنہیں رہ سکتا، ان کی یہ بات سو فیصد درست بھی ہو سکتی ہے کیونکہ جن الیکٹ ایبل لوگوں کی فوج ظفر موج عمران خان نے اپنے ارد گرد جمع کر لی ہے وہ واقعی ہی پارٹی میں سازشیں کرکے ہی داخل ہوئے اور پھر وہاں سے باہر نکلے۔ یہاں یہ بتانا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ سبکدوشی سے چار دن پہلے ہی ایک ملاقات میں وزیر اعظم نے اسد عمر کی کار گردگی کو سراہا تھا، اسدعمر پر ایک الزام یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انہوں نے آئی ایم ایف سے معاہدہ کرانے میں بہت دیر کردی، اسی آئی ایم ایف سے جس کے ساتھ ماضی کی حکومتوں کے معاہدوں پر وہ بہت تنقید کیا کرتے تھے۔ ٭٭٭٭٭ اب تھوڑی سی بات فواد چوہدری سے وزارت اطلاعات کا پورٹ فولیو چھینے جانے اور اس تاج کو فردوس عاشق اعوان کے سر پر سجانے کی، میں نہیں سمجھتاکہ میڈیا کے حوالے سے فواد چوہدری کسی ذاتی پالیسی کو چلا رہے تھے، ان کی پہلی پریس کانفرنس سے ہی پتہ چل گیا تھا کہ وزارت اطلاعات کی پالیسیاں وہی ہونگی جو سالہا سال سے عمران خان کے دماغ میں پھنسی ہوئی ہیں، غلطی صرف یہ ہوئی کہ وزیر اعظم میڈیا مالکان اور کارکن صحافیوں کو ایک ہی پلڑے میں تولتے رہے، انہیں احساس تک نہ تھا کہ اصلی کارکن صحافی میڈیا مالکان کے کتنے جبر میں پھنسے ہوئے ہیں، نام نہاد اخبارات اور جرائد کو میڈیا لسٹ سے نکالنا ایک احسن اقدام تھا، مگر اشتہارات اور اشتہارات کی قیمتوں میں کمی کا خمیازہ مالکان کو نہیں سفید پوش صحافیوں اور ان کے خاندانوں کو بھگتنا پڑا، ملک بھر میں ہزاروں صحافیوں کو ملازمتوں سے فارغ کر دیا گیا، وہ بے چارے اب تک سڑکوں پر احتجاج کرتے دکھائی دے رہے ہیں، میڈیا مالکان اپنے اپنے اداروں سے بڑے پیمانے پر چھانٹیاں کرنے کا برسوں سے سوچ رہے تھے، ان کا بس نہیں چلتا تھا کہ وہ ایک ہی لمحے میں ایسا کر سکیں، ان کا یہ دیرینہ خواب عمران خان حکومت نے پورا کر دکھایا، ویسے بھی جیسا کہ نظر آ رہا ہے کہ پاکستان کو صدارتی نظام کی جانب دھکیلا جا رہا ہے اور پاکستان کو ون یونٹ بنانے کے اس خواب کی تکمیل کی جا رہی ہے جس کا خواب پرویز مشرف نے دیکھا تھا، اور قدم قدم پر لوگوں کو احساس دلایا جا رہا ہے کہ موجودہ حکومت پرویز مشرف کے دور کا ہی تسلسل ہے، میں اپنے دیرینہ دوست فواد چوہدری سے اظہار ہمدردی کے سوا اور کر بھی کیا سکتا ہوں، یقیناً وہ اپنے مشوروں سے عمران خان کو راہ بدلنے کا کہتے ہوں گے مگر کیا کیا جائے عمراں خان کو مشورے سننے کی عادت ہی نہیں ہے، میں نے فواد چوہدری بارے کئی تنقیدی کالم لکھے جن کا مقصد صرف ان کی اصلاح کرنا تھا، مجھے شروع شروع میں فواد چوہدری کے انداز تخاطب پر اعتراض رہا، وہ اس وقت ایسے بولتے تھے جیسے انہیں حکومتی طاقت نے اپنے حصار میں لے لیا ہو، غرورٹپکتا تھا ان کی باتوں سے، مگر آہستہ آہستہ انہوں نے اپنی ان خامیوں پر قابو پا لیا اور ایک نارمل آدمی کی طرح برتاؤ کرنے لگے ، جب وزیر اطلاعات کے طور پر وہ ہمیں اچھے لگنے لگے تو وزیر اعظم صاحب نے ان سے ان کا منصب ہی چھین لیا، خیر اب ڈاکٹر فردوس اعوان صاحبہ اس منصب پر جلوہ افروز ہوئی ہیں دیکھئے کیا بنتا ہے، ان کی ایک خوبی تو ضرور ہے کہ وہ صحافیوں کی اچھی دوست ہیں، انہیں دونوں قسم کے صحافیوں سے برتاؤ کاسلیقہ آتا ہے، میڈیا مالکان کی نفسیات کو بھی خوب جانتی ہیں، کیا وہ حکومت اور میڈیا مالکان کے مابین اور صحافیوں اور مالکان کے درمیان ایک مضبوط پل بن سکیں گی؟ اس حوالے سے ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا، پیپلز پارٹی سے موجودہ حکومت نے نیا وزیر خزانہ ہی نہیں نئی وزیر اطلاعات کو بھی لیا ہے، لیکن دیکھنا یہ ہوگا کہ کیا ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان صاحبہ وزیر اعظم جناب عمران خان کو اپنے ساتھ ڈائیلاگ کی پوزیشن پر لا سکیں گی؟ ٭٭٭٭٭ نئی کابینہ میں اعجاز شاہ کو وزارت داخلہ کی ذمہ داری سونپے جانے پے بہت لے دے ہو رہی ہے، حکومت تشکیل پانے کے بعد یہ منصب وزیراعظم نے اپنے ہی پاس رکھا ہوا تھا، اب اس اہم ترین منصب کی اعجاز شاہ کو منتقلی نے پورے ملک میں تھرتھلی مچا دی ہے، ان کے کمالات تاریخ پاکستان کا ایک اہم باب ہیں، موصوف اپنی مخصوص صفات کے باعث انٹیلی جنس بیورو کے چیف بھی بن گئے تھے، انہیں حکومتیں گرانے اور حکومتیں بنانے کا وسیع تجربہ ہے، وہ اگر نواز شریف کو جنرل پرویز مشرف کی جانب سے ان کا تختہ الٹائے جانے سے پیشگی مطلع نہ کرتے تو شاید سانحہ اکتوبر رونما ہی نہ ہوتا، ان کی زندگی کا غور سے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ سوائے پرویز مشرف کے انہوں نے کبھی کسی سے وفا کی ہی نہیں، مجھے امید ہے کہ موجودہ حکومت کے وزیر داخلہ کی حیثیت سے بھی وہ پرویز مشرف کے مفادات کا پورا دھیان رکھیں گے، ا ن کی کہانیاں اتنی زیادہ ہیں کہ انہیں ایک، دو یا دس کالموں میں بھی نہیں سمیٹا جا سکتا، سن دو ہزار دو کے انتخابی نتائج بھی اعجاز شاہ کی صلاحیتوں کے مرہون منت تھے، ان انتخابات کا منظر نامہ انہی کا لکھا ہوا تھا،اسی اعلی ترین خدمت کے عوض انہیں انٹیلی جنس بیورو کا چیف بنایا گیا تھا،جب پرویز مشرف کے اقتدار کا سورج غروب ہو رہا تھا انہی دنوں بینظیر بھٹو نے انکشاف کیا تھا کہ انہیں عسکریت پسندوں کی جانب سے قتل کی دھمکیاں مل رہی ہیں، اگر انہیں قتل کیا گیا تو اس میں اعجاز شاہ کا ہاتھ ہوگا، بی بی شہید ہو گئی ،پیپلز پارٹی کی حکومت بن گئی اور اعجاز شاہ آئی بی چیف کے عہدے سے مستعفی ہو گئے تھے۔