خداجانے ہماری آنکھوں کوقدرت الٰہی کی اورکونسی کونسی نشانیوں کانظارہ کرناہوگالیکن کوروناوائرس نے امریکہ کا جوحال کردیاوہ اس میں عبرت اورنصیحت کاوافرسامان موجودہے۔ دنیاکے دوسوممالک کے مقابلے میں اس وقت امریکہ میں کوروناسے سب سے زیادہ مارکھارہاہے۔تادم تحریرامریکہ میں کوروناوباسے 21ہزاراہلاکتیں ہوئی ہیں۔ نیویارک میں کورونا وائرس سے ہلاک ہونے والے ہزاروں افراد کی اجتماعی قبریں ایک مضافاتی جزیرے ہارٹ آئس لینڈ میں بنائی جا رہی ہیں۔ دیہاڑی پر لائے گئے متعدد مزدور حفاظتی لباس پہن کر قبروں کی کھدائی اور تابوت اجتماعی قبروں میں رکھتے ہیں، نیو یارک کے مردہ خانوں میں لاشیں رکھنے کی گنجائش کم پڑ رہی ہے،امریکامیں گورستان بھی کم پڑے ہوئے ہیںجہاں اب مزید قبروں کے لئے جگہ دستیاب نہیں۔ امریکا میں کورونا وائرس سے سب سے زیادہ ہلاکتیں نیویارک میں ہو رہی ہیں، صحت کا بہترین نظام رکھنے والا ملک بھی اس مہلک وائرس کے آگے بے بس نظر آتا ہے۔سوال یہ ہے کہ امریکہ کے حکمرانوںکو اپنے ملک میں بن رہی اجتماعی قبروں سے کچھ یادآرہاہے کہ دنیاکے کتنے خطوں میں امریکہ کی جارحانہ کاروائیوںاورمجرمانہ خاموشی سے کتنے اجتماعی قبرستان معرض وجود میںآگئے۔ امریکہ کی آزادی کے استعارہ مجسمہ آزادی کواپنے سائے میں سمائے ہوئے ہے۔ اسی مجسمے کے ہاتھ میں موجود لوح پر چار جولائی 1776 ء کی تاریخ کندہ ہے، وہ دن جب امریکا نے آزادی حاصل کی، اور اس کے ہاتھ میں پکڑی مشعل روشن ظاہر کرتی ہے کہ اب امریکہ کادورظلمت کاخاتمہ ہوچکاہے اوراب یہ ہرسوروشنی بکھیرے گا۔مجسمے کے پائوں میں پڑی ٹوٹی ہوئی زنجیریں جبر و استبداد سے نجات کی علامت ہے ۔نہویارک میں امریکہ کے یہ مجسمہ امید اور امکان سے لبریز ایک نئی زندگی کی شروعات تھا۔لیکن ہوا،اس کے برعکس ۔سپرپاورکہلانے کے بعدامریکی مجسمہ آزادی کافلسفہ یکسربدل گیا۔اس نے دنیامیں امن کی مشعل روشن کرنے کے بجائے دنیاکوگھپ اندھیرے میں ڈبوڈالا۔مجسمہ کی ٹوٹی ہوئی زنجیروں کوپھرسے جوڑااوردنیااورپوری انسانیت کواس میں جکڑدیا۔دنیاکوظلم کدے میں تبدیل کرنے کے بعدلیڈی لبرٹی کے مجسمے کے سبز زنگار رنگ جونیویارک شہر کے افق پر نظر آنے والی انیسویں اور بیسویں صدی کی اینٹوں اور مرصع پتھروں سے بنی فلک بوس عمارتوں چاہے وہ نیویارک شہر کے تجارتی مرکز میں بنی عمارتیں ہوں یا دوسرے حصوں میں بنے رنگدار شیشوں سے مزین فلک بوس ٹاور اوردیگرعمارتیں، جن میں72منزلہ یہ عمارت آرٹ ڈیکو ہے جو اب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ملکیت ہے ۔آج اللہ تعالی کے قہروغضب سے وہ ساری چکاچونداسے مکمل طورپرچھن چکی ہے اورپتانہیںکہ اورکب تک کے لئے ماندپڑچکی ہے۔امریکی ریاست نیویارک کا مقبول ترین علاقہ ٹائمز اسکوائر سیاحوں کی توجہ کا مرکز سمجھا جاتا ہے، جو سیاح نیویارک شہر میں گھومنے آتے ہیں وہ ٹائمز اسکوائر نا آئیں ایسا ہو نہیں سکتا۔نیویارک ٹائمز اسکوائر رات کی چہل پہل سے بھرپور جگہ ہے جہاں کی بڑی بڑی اسکرینوں پر بھاری معاوضے کے عوض اشتہارات وغیرہ چلائے جاتے ہیں۔کئی ہفتوں سے آج یہاں ایک خوفناک سناٹا چھایا ہوا ہے اورنیویارک اورواشنگٹن سنسان اور ویران پڑاہے ۔ 9/11کے بعد امریکہ نے افغانستان اور عراق میں بالخصوص جو وحشتناک درندگی کا کھیل کھیلاافغانستان میں’’مدرآف بمز‘‘ بموں کی ماں جس کے شکم سے سارے بم نکلے ہیں یہ کہتے ہوئے چلادیاکہ یہ اس کی کرہ ارض پرپہلی آزمائش تھی ۔یعنی مسلمانوں کی سرزمین اورانکی انسانی بستیوں کوعملی طورپربموں،میزائلوں اورجدیدترین اسلحے کی تجربہ گاہ بناکر بستیوں کی بستیاں تل پٹ کردیں اور کھنڈر بنا دیا۔ افغانستان اور عراق کی سرزمین کوبڑے ڑے اوروسیع اجتماعی قبرستانوں میں تبدیل کیا۔جبکہ اسکے پالتوریاستوں اوردیگرظالم حکمرانوں نے اپنااس کے نقش قدم پہ چل کر کشمیر اور فلسطین ،شام، روہنگیا اور سنکیانگ فلپائن اور یمن میں بھی مسلمانوں کواجتماعی قبروں میں سلادیا۔امریکہ جسے دیکھ کرقہقہے کگاکرانہیں ہلہ شیری دیتاہے ۔ مشت از خروارے کے طورپرصرف ایک اجتماعی قبرکی نشاندہی کرتاہوں جوامریکہ کے گلے میں تاقیامت طوق کے طورپرپڑاہواہے اوروہ یہ کہ نومبر 2001ء میں امریکی اور اس کے اتحادی افواج نے افغانستان کے مزار شریف میں 1300طالبان سے ہتھیار ڈالوا دیے پھر آہنی ڈبوں میں بند کر کے ٹرکوں کے ذریعہ منتقلی کے دوران تین دن تک پانی یا خوراک نہیں دی گئی تھی۔ جس سے وہ سب شہید ہو گئے۔ ان کو اجتماعی قبروں میں دفن کر دیا گیا۔ امریکی ذرائع ابلاغ اس واقعے کو جو جنگی جرائم کی ذیل میں آتا ہے، پردہ پوشی کی۔ سوال یہ ہے آج جب کوروناوائرس امریکیوں کواپنی سرزمین اوراپنے ہی ملک کے حدوداربعہ میںاجتماعی قبروں میں سلارہاہے توامریکی حکمران اوریہاں کانظام اس پرکیاکہہ رہاہوگا۔ 5اکتوبر2019ء کوکشمیرمیںمقبوضہ وادی میں 2700اجتماعی قبروں کا انکشاف ہوا ہے انٹر نیشنل ہیومن رائٹس کورٹ اور کشمیر میں عدالتِ انصاف’’آئی پی ٹی کے ‘‘کی جانب سے مرقومہ بالاتاریخ کوشائع کردہ اپنی رپورٹ میں کہا گیا کہ مقبوضہ کشمیر میں قابض بھارتی فوج کے انسانیت سوز مظالم میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے، وادی کے شمال میں 55دیہات میں کھدائی کے دوران دو ہزار سات سو اجتماعی قبروں کا انکشاف ہوا ہے۔فاعتبروایااولولاابصارآج امریکہ کی صورتحال امریکی نظام اوراس کے حکمرانوں کے لئے چشم کشاہے ۔امریکامیںمفت راشن بانٹنے والے اسٹور کے سامنے لوگوں کی لمبی قطار ہے۔لاس اینجلس میں ایک فوڈ اسٹور نے ضرورت مندوں کے لیے اشیائے خور و نوش کے پیکٹ تقسیم کیے۔مفت راشن لینے کے لیے اسٹور کے باہر ڈیڑھ کلومیٹر تک گاڑیوں کی طویل قطار لگ گئی، بارش کے باوجود راشن لینے کے لیے لوگوں کی بڑی تعداد لائن میں لگی رہی۔ ایک اندازے کے مطابق ہر دس میں سے ایک امریکی بے روزگار ہوگیا ہے۔