فواد چودھری کی جگہ آنے والی فردوس عاشق اعوان صاحبہ نے اپوزیشن کو یہ کہہ کر لاجواب کر دیا ہے کہ ہمیں آئے ہوئے آٹھ مہینے ہی ہوئے ہیں‘ ہم سے تیس سال کا حساب نہ مانگا جائے۔ دوسرے لفظوں میں وہ اپوزیشن کو چیلنج کر رہی ہیں کہ ہم سے ہمارے آٹھ مہینے کا حساب مانگیں ویسے محترمہ کو شاید اندازے کی غلطی تھی‘ آٹھ سے اوپر ایک مہینہ اور ہو گیا۔ اپوزیشن یہ حساب کبھی نہیں مانگے گی۔ آٹھ نو مہینے میں حکومت نے ایسی مشکل مہمات سر کی ہیں کہ تاریخ میں اس کی مثال صرف فرہاد کی صورت ملے گی جس نے پہاڑ کھود کر دودھ کی نہر بہائی تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ فرہاد کی نہر بھی ان نہروں کا مقابلہ کہاں کر پائے گی جو تبدیلی سرکار نے کھودی ہیں۔ محترمہ فردوس نے ایک بارتو اپوزیشن کا منہ بند کر ہی دیا جو فواد چودھری اپنی منہ توڑ کوششوں کے باوجود بند نہ کر سکے تھے۔ مثال کے طور پر ایک جملہ کار ملاحظہ فرمائیے۔ تیس سال تک حکومت کرنے والے 331ارب کا گردشی قرضہ چھوڑ گئے تھے۔ تبدیلی سرکار نے آٹھ ماہ میں اسے بام بلند پر پہنچا دیا۔ ذرا جمع تفریق کیجئے۔ وزیراعلیٰ پنجاب بزدار نے گزشتہ روز ہی فرمایا کہ ہم نے آٹھ ماہ میں ستر سال کا سفر طے کیا ہے۔ یہ ان کی کسر نفسی ہے کہ کارنامے کا حجم نصف کے بقدرکم کر دیا ہے۔ گزشتہ سے پیوستہ حکومت یعنی زرداری سرکار میں بے روزگاری میں کمی ہوئی نہ اضافہ ہوا۔ یعنی صورتحال ’’تعطل‘‘ کا شکار رہی۔ نواز حکومت میں بے روزگاری لگ بھگ دو فیصد کم ہوئی یعنی تعطل ٹوٹا اور بے روزگار کم ہوئے۔ تبدیلی سرکار کا آٹھ ماہ کا حساب توکوئی قدر دان ہی لگا سکے گا۔ آٹھ ماہ میں اتنے تو پانچ سال میں کتنے؟ جواب لکھنے کی ضرورت نہیں کہ پانچویں جماعت کا بچہ بھی بتا دے گا۔ یہ دو چمتکار ہی کافی ہیں۔ ٭٭٭٭٭ دوسرا وزیر اعظم کا چار روزہ دورہ چین مکمل ہوا۔ ان چار دنوں میں ایک ہی قابل ذکر خبر آئی جسے پریس نے ناقابل ذکر ‘ سمجھا۔ وہ یہ تھی کہ وزیر اعظم نے کانفرنس میں بتایا کہ ان کی حکومت نے صوبہ پختونخواہ میں 5ارب درخت لگائے۔ اپوزیشن نے اس پر تنقید کی اور کہا کہ پانچ سال سے یہی دعویٰ خاں صاحب کرتے رہے ہیں کہ ایک ارب درخت لگائے‘ چین جا کر یہ پانچ ارب کیونکر ہو گئے۔ اتنا بڑا تضاد؟ ارے بھائی‘ تضاد تو اس میں ہے ہی نہیں۔ جب وہ کہتے تھے کہ ایک ارب درخت لگائے تو مطلب ہوتا تھا ایک صفر لگایا۔ جب پانچ ارب کہا تو مطلب تھا پانچ صفر لگا دیے اب پانچ صفر کا مجموعہ کتنا ہوتا ہے؟ ایک صفر بھی ہوتا ہے نا تو پھر تضاد کہاں سے ہو گیا۔ اپوزیشن کی چھاپہ مار پارٹیوں نے چھاپہ مارا تو پتہ چلا کہ 90فیصد درخت تو لگے ہی نہیں۔ جہاں سو ہونے چاہئیں تھے‘ وہاں دس تھے گویا 90فیصد کی غلط بیانی ہوئی؟ جی بالکل نہیں۔ یہ دس بھی کیا پتہ پہلے کے لگے ہوں۔ اصل سچ وہی ہے‘ پانچ صفر برابر ایک صفر کے۔ اس منصوبے میںاربوں کی کرپشن کے رونے روئے جا رہے ہیں۔ ٭٭٭٭٭ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ادارے پی ٹی آئی کی کرپشن پر کارروائی کیوں نہیں کرتے؟ کیسے کریں بھیا۔ابھی کل ہی ایف آئی اے کے ایک افسر نے ایک منی لانڈر کے خلاف کارروائی کی پتہ چلا کہ وہ تو عثمان ڈار کا کزن ہے۔ نتیجہ کیا نکلا خود ہی معطل ہو گیا۔ اب کیا پتہ۔ آج معطل ہوا ہے۔ کل پکڑا بھی نہ جائے۔ الٹا منی لانڈرنگ کا کیس اس پر نہ بن جائے۔خسرو کے بخت والے وزیر نے اربوں در اربوں بنائے‘ وہ بھی زلزلہ زدگان کے فنڈ سے۔ نیب کے چیئرمین اتنے سمجھدار تو ہیں،کیانی وزیر نے 50ارب کا ثواب کمایا۔ انعام میں آسان وزارت دے دی گئی۔ ایک صاحبہ 80کروڑ کھا گئیں۔ دوسری 85کروڑ۔ ٭٭٭٭٭ سراج الحق کا بیان ہے کہ حکمران جماعت کا سارا ٹبر ہی نالائق ہے۔ یہ تو رعایتی نمبر دینے والی بات ہو گئی۔ ایک صاحب باقاعدگی سے مسجد جاتے‘ اپنا پرانا جوتا بھول کر کسی کا نیا جوتا اٹھا لاتے۔ لوگوں نے اعتراض کیا تو ان صاحب کے ابا جانی بولے‘ بے چارہ بھولا اور بھلکڑ ہے۔ محلے والوں نے کہا‘ میاں جی‘ اتنا بھولا اوربھلکڑ ہے تو کبھی اپنا نیا جوتا بھول کر پرانا کیوں نہیں لے جاتا۔ایسا کیوں کہتے ہیں کہ سارا ٹبر نالائق ہے۔ ایسا کیوں نہیں کہتے کہ سارا ٹبر ایجنڈے پر ہے اور بڑی قابلیت سے ایجنڈا پورا کر رہا ہے ۔ اس وقت تو آپ بھی ان کے ساتھ تھے‘ پھر پانامہ ایکشن پلان بھی دھرنے ہی کا سیکوئل نہیں تھا؟ آپ سے زیادہ کون جانتا ہے۔دیکھ لیجیے۔ آٹھ ماہ سے تین صوبوں میں ایک اینٹ بھی نہیں رکھی گئی جو غالباً تاریخ عالم کا اکلوتا ماجرا ہے۔ پنجاب میں حکومت بنانے کے بعد سب سے پہلا کام یہ کیا گیا کہ بلدیات کا فنڈ روک لیا گیا تاکہ گلی محلے میں کوئی نالی بھی نہ بن سکے۔ ٭٭٭٭٭ انڈونیشیا کے الیکشن میں ووٹوں کی گنتی کرنے والے عملے کے 270کارکن بیمار ہو کر جان کی بازی ہار گئے۔ خبر میں بتایا گیا ہے کہ گنتی کا کام اتنا زیادہ تھا کہ جسمانی اور ذہنی دبائو خطرناک بیماری بن گیا۔افسوسناک خبر ہے اور حکومت کے لئے شرمناک بھی۔ کام زیادہ اور عملہ کم۔ شکر ہے ہمارے ملک میں ایسا کوئی خدشہ نہیں ہے۔