چند روز سے میرے ہاتھ میں منو بھائی کی کتاب ہے۔ جس کا نام ہے’’ جنگل اداس ہے‘‘ یہ ان کے کالموں کا انتخاب ہے، اس کتاب میں ہمیں اصلی منو بھائی دکھائی دیتے ہیں۔ پاکستان کے عام آدمی کی محرومیوں پر نوحہ کناں‘ اور اس کی حسرتوں کی لاش پر ماتم کرتا ہوا۔ دھاڑیں مار کر روتا ہوا منو بھائی جس کے بارے میں جاوید شاہین نے کہا کہ۔ منو بھائی کی خوبی یہ ہے کہ وہ کسی واردات یا تجزیے میں قاری کو اس حد تک شریک کر لیتا ہے کہ اسے سب کچھ اپنی ذات کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔ کوئی انسانی جسم ریل گاڑی کے نیچے کٹ جاتا ہے تو منو بھائی کے پرخچے اڑ جاتے ہیں۔ ہسپتال کے برآمدے میں پڑی بے یارو مددگار لڑکی بھی منو بھائی ہوتی ہے اور فٹ پاتھ پر دم توڑنے والا لاوارث بوڑھا بھی منو بھائی ہی نکلتا ہے۔ جنگل اداس ہے کی یہ تحریریں احساس کی سیاہی سے لکھی گئیں ہیں۔ سچی بات ہے اخبار کے جذبات سے عاری کالموں کو منو بھائی نے دھڑکتا دل دیا۔ اس میں اپنے احساس کی آنچ اور اپنے آنسوئوں کی نمی شامل کی۔ بڑے سیاستدانوں کی سیاسی قلا بازی کی بجائے چھوٹے آدمی کے بڑے بڑے دکھوں پر قلم اٹھایا۔ کسی اخبار کے کونے کھدرے میں چھپنے والی خبر منو بھائی کی توجہ اپنی جانب کھینچ کر اخبار کی شہہ سرخیوں کو غیر اہم بنا دیتی تھی اور پھر اس یک کالمی غیر اہم خبر پر کالم لکھ کر منو بھائی اپنا دل نکال کرقرطاس پر رکھ دیتے۔ اگلے روز کے اخبار میں قاری بھی ان احساسات میں منو بھائی کا ہم سفر بن جاتا کہ ریل کی پٹڑی پرلہو میں تر جو بکھرا ہوا جسم پڑا تھا وہ منظور احمد کا تھا، جسے اپنی غربت کے باوجود بڑا آدمی بننے کا شوق تھا یا پھر کل بادشاہی مسجد کے مینار سے گر کر اپنی زندگی ختم کرنے والی لڑکی نے تین رنگوں کا پراندہ کیوں پہنا ہوا تھا۔ منو بھائی ایک کھوجی کی طرح ان چھوٹی چھوٹی خبروں کے پیچھے ختم ہوتے زندگیوں کے اصل اور بڑے المیے کا پتہ ڈھونڈنے‘ شہر احساس میں دور دراز نکل جاتے۔ صحافت میں پاکستان کے عام آدمی کا مسئلہ ہی منو بھائی کا نظریہ حیات تھا۔ وہ بہت خاص ہو کر بھی ایک عام آدمی کی طرح رہے اور عام آدمی سے جڑے رہے۔ شاید اسی لئے انہوں نے بھی ریواز گارڈن سے ڈیفنس تک سفر نہ کیا۔19جنوری 2018ء کو جب دنیا سے رخصت ہوئے تو وہی ریواز گارڈن والا گھر تھا جس کے اندر باہر منو بھائی کے چاہنے والوں کا جم غفیر تھا۔ صحافت‘ ادب‘ شوبز انڈسٹری کا ہر بڑا نام وہاں موجود تھا لیکن ان سب سے بڑھ کر تھیلسیمیا کی بیماری میں مبتلا ننھے بچے اپنے والدین کے ہمراہ پرنم آنکھوں کے ساتھ اپنے مسیحا کو رخصت کرنے آئے تھے۔آج بھی 19جنوری ہے منو بھائی کو ہم سے بچھڑے ہوئے دو سال ہو چکے ہیں اور سچی بات یہ ہے کہ شہر میں منو بھائی جیسا اور کوئی بھی نہیں۔ ان کی جگہ آج بھی خالی ہے یہ فیصلہ کرنا بھی مشکل ہے کہ منو بھائی صحافی اور کالم نگار بڑے تھے یا ڈرامہ نگار بڑے تھے۔ میری رائے میں منو بھائی اپنی پنجابی نظموں کے ساتھ شاعری کے میدان میں بھی بہت اونچے مقام پر براجمان ہیں۔ایک بڑا شاعر اپنی ذات سے اوپر اٹھ کر اپنے شعروں میں اپنے عہد کا المیہ بیان کرتا ہے۔ منو بھائی کی نظم ’’احتساب دے چیف کمشنر‘‘۔ ایک شاہکار نظم ہے۔ منو بھائی آج زندہ ہوتے تو دیکھتے کہ کیسے ان کی نظم حرف بہ حرف سچ ثابت ہوئی اور احتساب کا نام نہاد عمل کس طرح‘ انہی کے حق میں زمین بوس ہو گیا۔ جنہوں نے اس ملک کے خزانے کو اپنی بنکوں کی تجوریوں میں سمیٹ کر رکھا۔ اندر سے سب طاقتور ہمیشہ سے ایک ہی صفحے پر ہوتے ہیں اس لئے کہ ان کے مفاد ایک ہیں۔ ایک ڈاکو دوسرے ڈاکو کا محافظ ہے۔ ایک چور دوسرے چور کے مفاد کی نگہبانی کرتا ہے کیونکہ اس کی اپنی بقا بھی اسی میں ہے۔ احتساب دے چیف کمشنر صاحب بہادر۔ منو بھائی کی ایک شاہکار نظم ہے اور جب یہ نظم وہ خود کسی محفل میں سناتے تو ان کے لہجے کا بانکپن ‘ آواز کا زیروبم سننے والا ہوتا۔ یہ نظم یو ٹیوب پر موجود ہے۔ رسائی ہو تو ایک بار ضرور سنیئے گا۔ میرے عہد کا المیہ اس سے بہتر کسی قلمکار نے اپنے شعر میں سمویا ہو گا۔ کالم میں اس نظم کا کچھ حصہ شامل کرتے ہیں۔احتساب دے چیف کمشنر صاحب بہادر۔! چوراں ڈاکواں قاتلاں کولوں چوراں ڈاکواں قاتلاں بارے کیہہ پچھدے او؟ ایہہ توانوں کیہہ دسن گے۔ کیوں دسن گے۔؟ دسن گے تے جنج وسدے ۔کنج وسن گے۔! کھوجی رسہ گیر نے سارے کیہہ پچھدے او! اک دوجے دے جرم سہارے کیہ پچھدے او! ڈاکواں کولوں ڈاکواں بارے کیہہ پچھدے او۔! ویسے توانوں تے پتہ ای ہونا ایں کہ وی (20) کنالاں دی کوٹھی دے وچ پنج پجارو‘ چالی(40) کتے‘ پنجی(25) نوکر‘ دس کنیزاں کتھوں آئیاں؟ کتھے لگیاں اے ٹکسالاں۔ دیس پرائے بنیاں چیزاں کتھوں آئیاں کتھوں آیا چٹا پوڈر۔ کالی دولت کتھوں آئی۔؟ کتھوں آئے پرمٹ۔ لیزاں کتھوں آئیاں۔؟ اسی وچارے بوڑاں تھلے اُگن والی کاء دے تیلے دھب تے مینہ نوں ترس گئے آں۔! لکھ کروڑاں دا کیہہ کہنا۔ دس تے وی(20) نوں ترس گئے آں پہلے پنجی(25) سالاں دے وچ ادھا ملک گنوا بیٹھے آں (26) چھبیس سال دے مارشل لاء اچ باقی عمر ھنڈاں بیٹھے آں جینہاں سانوں دھوکے دتے اوہناں کولوں نویاں آساں لا بیٹھے آں! احتساب دے چیف کمشنر صاحب بہادر! چوراں ڈاکواں قاتلاں کولوں چوراں ڈاکواں قاتلاں بارے کیہہ پچھدے او۔!