چھج تے بولے پرچھاننی تے نہ بولے۔۔۔۔۔۔خیال تھا کہ یہ ایک قدیمی مقولہ ہے جسے ہم بچپن سے سنتے چلے آ رہے ہیں ،لیکن اب پتہ چلا یہ مقولہ اتنا بھی قدیمی نہیں ہے ،یہ تو جناب شہباز شریف کی پیدائش کے بعد ایجاد ہوا تھا، اس بات کا انکشاف ایسے ہوا کہ جب چیئرمین نیب کے خلاف من گھڑت خبر کا معاملہ شروع ہوا تو سب سے پہلا رد عمل جس سیاستدان کی طرف سے سامنے آیا وہ سیاسی اختیارات کو تیاگ کر لندن میں بیٹھے ہوئے شہباز شریف کا تھا کہ یہ ایک ذاتی نوعیت کا معاملہ ہے ہم اس میں ملوث نہیں ہونگے، مگر کچھ ہی گھنٹوں بعد ان کا ایک لمبا چوڑا بیان آ گیا، جس میں انہوں نے بڑی بیباکی سے معاملہ پارلیمانی کمیٹی کے سپرد کرنے کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم اور چیئرمین نیب کو طلب کرکے ان سے سوالات کرنے کی بھی ڈیمانڈ کی ہے، پھر شہباز شریف کے اسی بیانیہ پر پوری ن لیگی قیادت نے اسلام آباد میں ایک سنسنی خیز پریس کانفرنس بھی کھڑکا دی، ن لیگ کی اس پھرتی نے اس معاملے میں خود ن لیگ کو مشکوک بنا دیا ہے، پیپلز پارٹی بحیثیت ایک سیاسی جماعت تو اس معاملے میں نہیں کودی لیکن اس کے دو تین اہم لیڈران کرام نے ضرور اس پر اظہار خیال کیا ہے، اعتزاز احسن صاحب نے رائے دی ہے کہ گفتگو کے اصلی یا نقلی ہونے کی جانچ کیلئے اس آڈیو اور وڈیو کو فرانزک لیبارٹری میں بھجوا دیا جائے، میرے خیال میں اس معاملے کو اچھالنے میں پہلی غلطی خود نیب سے ہوئی، آدھی رات کو ہاتھ سے لکھی ہوئی تردید یا وضاحت کرنا کیوں ضروری سمجھا گیا، جو زبانیں گنگ تھیں انہیں کھل کر بولنے کا خود موقع فراہم کر دیا گیا، اس پریس ریلیز نے خود بھی کئی نئے سوالات اٹھا دیے، ہمارا آج کا یہ کالم چیئرمین نیب جناب ریٹائرڈ جسٹس جاوید اقبال کے کسی مبینہ ایکٹ کی پردہ پوشی نہیں، ہم تو خود یہاں یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا چیئرمین صاحب انسان کی بجائے کوئی اور مخلوق ہیں؟ ایسے معاملات کن ،، فرشتوں،، کی زندگی کا حصہ نہیں بنتے، چلیں! یہاں ہم اپنے جیسے انسانوں کی نمائندگی جناب شہباز شریف کے سپرد کر دیتے ہیں، اگر وہ ملک سے باہر ہیں تو پھر یہ حق حمزہ شہباز کو تفویض کر دیتے ہیں وہ قبول نہیں تو ثالث نواز شریف کو بنا لیتے ہیں جو سب شریفوں کے چیف ہیں، اصل بات یہ ہے کہ جو سب سامنے آیا ہے وہی سچ ہوگا، مگر اس کے تانے بانے کیسے بنے گئے؟ ایک شادی شدہ عورت جو جتنی حسین ہے اتنی ہی بیباک اور چالاک بھی ہے ایک درخواست لے کر اسلام آباد میں نیب کے ہیڈ آفس پہنچتی ہے اور وہاں جاتے ہی اس کی چیئرمین نیب سے براہ راست ملاقات ہوجاتی ہے، پہلی ہی ملاقات میں اچھی علیک سلیک ہوتی ہے ، پھر دنوں میں ہی مبینہ طور پر دوستی بھی ہو جاتی ہے، من گھڑت خبر کے مطابق ملاقاتیں شروع ہوتی ہیں، اگر آپ غیر مصدقہ آڈیو، وڈیو کو غور سے سنیں تو اندازہ ہوجاتا ہے کہ اس عورت کا شوہر بھی سب حالات سے با خبر ہے، پھر اس اسٹوری کے کلائمکس کا وقت آ جاتا ہے، اس عورت سے آخری ملاقات کی آڈیو، وڈیو ریکارڈ کرائی جاتی ہے،،،، کیوں؟ کیونکہ اگر یہ مبینہ شارٹس درست ہیں تو پھر اس کا مطلب یہی ہے کہ جو کچھ مطلوب تھا وہ حاصل ہو چکا تھا اس کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ مشکوک آڈیو اور وڈیو اسی چینل سے کیوں نشر کرائی جاتی ہے جس کا مالک وزیر اعظم کا میڈیا مشیر تھا؟ اس کا مطلب بھی صاف ظاہر ہے کہ جن لوگوں نے یہ سب مبینہ ڈرامہ مکمل کیا وہ اس کا ملبہ عمران خان پر ڈالنا چاہتے تھے، اس چینل کے مالک کا بھی ایک طویل اور ڈرامائی ماضی ہے، وہ کبھی پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین جناب آصف زرداری کے خاص دوستوں میں شامل ہوا کرتا تھا اور اس نے اس دوستی کو بھی بہت کیش کرایا تھا،کئی ن لیگ والے بھی اس کے قریبی رہے ہیں اور کئی اب بھی ہوں گے، لیکن یہ بھی سو فیصد نہیں کہا جا سکتا کہ اسے معلوم ہوگا کہ کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونے جا رہا ہے، وہ ایک خالص کاروباری آدمی ہے گھاٹے کے سودے میں وہ کبھی شراکت دار نہیں بن سکتا، وزیر اعظم کو روزانہ مشاورت دینے والا وہ کوئی اکیلا آدمی بھی نہیں تھا، اس جیسے اور بھی بہت سے ہیں اور ممکن ہے کہ ان میں سے کئی اور بھی اسی طرح کے ڈراموں کی عکس بندی میں مصروف ہوں، وزیر اعظم کو قدم قدم پر محتاط رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ حکومت تو ضرور ان کی ہے مگر حکومت کرنے والے اور حکومت کو چلانے والے تحریک انصاف کے لوگ نہیں ہیں اس سانحہ کے حوالے سے حکومتی سطح پر ایک اچھا کام جو ہوا وہ وزیر قانون جناب فروغ نسیم کی پریس کانفرنس تھی، جس میں عمران خان کی جانب سے بیان دیا گیا کہ نیب کے چیئرمین جسٹس جاوید اقبال بدستور اپنے فرائض انجام دیتے رہیں گے،وہ ایک مستند ایماندار آدمی ہیں ، چیئرمین نیب کو وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر مل کر ہٹا سکتے ہیں لیکن عمران خان ایسا نہیں کریں گے، حکومتی پارٹی کا یہ اعلان ن لیگ کیلئے صدمے کا باعث ہو سکتا ہے کیونکہ میرے سامنے تو شک کی ساری کڑیاں وہیں جا کر کھڑی ہوتی ہیں، پیپلز پارٹی آج تک کبھی بھی اس قسم کی سازشوں میں ملوث نہیں ہوئی جبکہ ن لیگ کا سارے کا سارا ماضی ایسی سازشوں کی کہانیوں سے بھرا پڑا ہے، شہباز شریف اور ان کی قیادت سے محروم پارٹی کا مطالبہ ہے کہ اس من گھڑت خبر پر پارلیمانی کمیٹی قائم کی جائے، میرے خیال میں پارلیمانی کمیٹی تو ضرور قائم ہونی چاہئیے مگر اس عورت کے ماضی اور حال کو کھنگالنے کیلئے جو اس مبینہ کہانی کے تخلیق کاروں کی آلہ کار بنی کالم نگار سے مبینہ انٹرویو کے بعد چیئرمین نیب پر یہ دوسرا کاری وار تھا جسے وہ سہہ گئے اور سوشل میڈیا پر ان کے حامیوں کی یلغار تیز رہی، لیکن دوسرا وار آخری وار نہ سمجھا جائے، تیسرا وار اس جانب سے ہوگا جدھر کسی کا دھیان بھی نہیں ہوگا، یہ وار اس وقت تک جاری رہیں گے جب تک نواز شریف جیل میں ہیں اور ن لیگ کی دوسری قیادت ریفرنسز کے دھانے پر ہے، ٭٭٭٭٭ یہ جسٹس جاوید اقبال کی خوش قسمتی ہے کہ ایک ایسی من گھڑت کہانی ان کے مقدر میںآئی جو انسان کو انسان ثابت کرتی ہے، ہم اپنے بارے میں ایسی کہانیوں کے منظر عام پر آنے کے لئے عمر بھر جتن ہی کرتے رہے، کسی مہربان نے کرم نوازی ہی نہ کی، عشق پہ عشق کیا، نادانیوں پہ نادانیاں کرتے رہے، لوگ ہم سے عشق کرتے رہے ہم ان پر ستم ڈھاتے رہے، عشاق پر جتنے ظلم ہماری طرف سے ہوئے ان کی سزا کے منتظر ہی رہے، معاشقوں کی تعداد تک یاد نہیں رہی اب تو، لیکن کچھ عشق ایسے بھی تھے جو ہمیں آج بھی سونے نہیں دیتے، شاید یہ سزا ہی ہے کہ ساری ساری رات جاگتے رہتے ہیں ہم، نیوزی لینڈ کی اس لڑکی کا چہرہ بھولتا ہے نہ آنکھیں جو پانی پیتی تھی تو پانی اس کے حلق سے نیچے اترتا ہوا دکھائی دیتا تھا، ہم نے اسے بھی بس دھوکہ ہی دیا تھا، یہ ہماری زندگی کی وہ بظاہر ڈھکی چھپی باتیں ہیں جن کا کھوج لگانے کی ہم آپ کو کبھی بھی اجازت نہیں دیں گے اور خود بھی ایسی یک طرفہ یا دو طرفہ کہانیوں کو کبھی احاطہ تحریر میں نہیں لائیں گے،آپ کو بھی مشورہ ہے کہ کبھی کسی کی ڈھکی چھپی باتوں کا کھوج مت لگایا کریں، کیونکہ جتنے زندگی کے خفیہ خانے دوسروں کے ہوتے ہیں ان سے زیادہ خفیہ کاریاں آپ کی اپنی ہوتی ہیں،،،، اور اب کالم کی آخری سطور۔ ٭٭٭٭٭ ایک لڑکی سڑک پر بیٹھی تھی، اس کے سامنے ایک تھال پڑا تھا جو اس نے کپڑے سے ڈھانپ رکھا تھا، سڑک سے گزرتا ہوا ایک شخص اس کے سامنے آکر کھڑا ہو گیا اور اس لڑکی سے پوچھنے لگا ، اس تھال کے اندر کیا ہے؟ لڑکی نے بڑی بے رخی سے جواب دیا،،اگر بتانا ہی ہوتا تو اسے ڈھانپ کر کیوں رکھتی؟