پاکستان میں کرپشن کے خلاف مہم اور احتساب کے عمل پر فاتحہ پڑھ لینی چاہیے۔ وزیراعظم عمران خان اور انکی جماعت تحریک انصاف کی سیاست کا محور و مرکز کرپشن ختم کرنے کا نعرہ تھا لیکن اقتدار میں سوا سال گزارنے کے بعد عمران خان کو کرپٹ طبقہ کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑگئے‘نیب قانون میں ترمیم کرکے کرپشن کے خلاف ادارہ کو بے اثر‘ بے اختیار کرنا پڑ گیا۔عمران خان کرپشن کے خلاف لمبی چوڑی تقریریں کیا کرتے تھے‘ اعداد وشمار کی مددسے لوگوں کو بتایا کرتے تھے کہ سیاستدانوں کا ایک طبقہ ملک لُوٹ کر کھا گیا‘ اس نے ملکی دولت بیرون ملک منتقل کردی‘ ملک کو کنگال کردیا۔وہ دعویٰ کرتے تھے کہ بے شک ان کی حکومت چلی جائے لیکن وہ کسی کو این آر او نہیں دیں گے‘ مطلب یہ کہ کرپشن کے مقدمات ختم کرنے کے لیے کوئی قانونی تبدیلیاں نہیں کریں گے۔ لیکن ان کے مقابل لوگ زیادہ پُرعزم ‘ زیادہ طاقتورثابت ہوئے۔ کرپشن کے خلاف نیب کی کارروائیوں کو ناکام بنانے کے لیے کاروباری طبقہ نے کاروبار میں سرمایہ لگانا چھوڑ دیا یا بہت کم کردیا‘ معیشت میں مسلسل مندی آگئی۔ سرمایہ داروں نے حکومت سے کہا کہ نیب کے ہوتے ہوئے سرمایہ کاری ممکن نہیں۔ ملک کی معیشت میں ایک بڑا حصّہ کالے دھن کا ہے جس کا حساب کتاب نہیں دیا جاسکتا۔دوسری طرف‘ بیوروکریسی نے احتجاج کے طور پر کام کرنے کی رفتار انتہائی سست کردی ‘ پیغام یہ تھا کہ حکومت سرکاری افسروں کے خلاف نیب کی کارروائیاں روکے‘ ورنہ وہ کام نہیںکریںگے‘ فائلوں پر دستخط نہیں کریںگے‘ تاکہ مستقبل میں انہیں نیب کی تحقیقات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔نتیجہ یہ نکلا کہ ترقیاتی اسکیموں پر کام کی رفتار بہت آہستہ ہوگئی۔بالآخر وزیراعظم عمران خان نے نیب کے قانون میں صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ترمیم کردی‘ کاروباری طبقہ کواحتسابی ادارہ کے دائرہ کار سے باہر نکال دیا‘ سرکاری افسروں کی بدعنوانی پر مقدمے بنانے کے عمل کو اتنا پیچیدہ بنادیا کہ اب نیب ان پر ہاتھ نہیں ڈال سکے گا۔ این آر او تو ہوگیا۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں کرپشن کا کلچر اتنا عام ہوگیا ہے کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد اسے برائی نہیں سمجھتی‘ اپنا حق سمجھتی ہے۔ بدعنوانی تو دنیا کے اکثر ترقی پذیر ملکوں میں عام ہے لیکن ہمارے ملک میں جو لوٹ کھسوٹ ہے وہ دنیا سے کچھ بڑھ کر ہے۔ ہمارے ہاں بدعنوانی ہمہ گیر ہے اور اس کی شرح بہت زیادہ ہے۔ا محتاط اندازہ ہے کہ سرکاری ملازمین اور سیاستدان ایک سال میں کم سے کم چار ہزار ارب روپے ناجائز ہڑپ کرجاتے ہیں۔ سرکاری سطح پر کرپشن کی تین بڑی قسمیں ہیں۔ سرکاری فنڈز کی لوٹ کھسوٹ ‘ حکومتی اداروں میںجائز ناجائز کام کرنے کے عوض رشوت خوری اورٹیکس چوری میں مدد کرنے کے عوض مال بٹورنا۔ نجی ادارے جو ٹیکس چوری کرتے ہیںیا عوام کو جو چُونا لگاتے ہیںاُس کی کہانی الگ ہے۔ اگر کوئی حکومتی پراجیکٹ اصل پلان کے مطابق مکمل ہوجائے تو سمجھیں کہ اس کی کل رقم کاتقریباّ تیس فیصد سرکاری افسروں اور سیاستدانوں نے کھایا ہے اور باقی رقم منصوبہ پر خرچ ہوئی۔ تاہم اگر منصوبہ کی تکمیل میں زیادہ گڑ بڑ کی جائے ‘ ناقص میٹریل استعمال کیا جائے تو بدعنوانی کی نذر ہونے والی رقم کاتخمینہ پراجیکٹ کی کل رقم کا پچاس فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔ حال ہی میں اینٹی کرپشن پنجاب نے لاہور میںایک ارب روپے کی لاگت سے تعمیر کیے جانے والے گریٹر اقبال پارک کی انکوائری کی تو پتہ چلا کہ کُل رقم کا چایس فیصد خرد برد ہوا۔یہ تو ایک چھوٹی سے مثال ہے‘ ایسے ان گنت منصوبے ہیں ۔سیاستدانوں‘ سرکاری افسروں اور ٹھیکیداروں کا ایک مافیا ہے جو اپنے کام میں اتنے ماہر ہوچکے ہیں کہ ان کے خلاف کوئی مقدمہ عدالت میںجاتا نہیں‘ اگر چلا جائے تو انہیں سزا نہیںہوتی۔ایک عدالت سے سزا ہوتی ہے تو وہ دوسری عدالت سے رہا ہوجاتے ہیں۔ نیب ان میں سے کچھ لوگوں کو سزا دلوانے یا ان سے پلی بارگین کے ذریعے رقم اگلوانے میںکامیاب ہوجاتا تھا تو اس کے پر بھی کاٹ دیے گئے۔ وزیراعظم سرکاری افسروں سے درخواست کررہے ہیںکہ بھائی‘ اب تو کام کرنا شروع کردو‘ اب تو کام نہ کرنے کا کوئی بہانہ نہیں ہے۔ کیسی زبردست بلیک میلنگ ہے اور ریاست کی کتنی بے بسی ! اگر ملک میں ایک طاقتور حکومت ہوتی تو سب سے پہلے بدنام سرکاری افسروں کی بڑے پیمانے پر بیک جنبش قلم چھٹی کروائی جاتی‘ہر محکمہ میں جھاڑو پھیری جاتی‘ اس کے بعد دیانت دار افسروں کو تحفظ دیا جاتا۔ ملک میں تعلیم یافتہ افراد کی کمی نہیں جو نئے اہلکار اور افسر بھرتی نہ کیے جاسکیں۔ قانون بدلنا ہے تو دیانت دار افسروں کو تحفظ دیا جائے۔ بدعنوانی کوبر وقت بے نقاب کرنے والے افسروں کی حفاظت کی جائے جسے دنیا کے کئی ملکوں میں سیٹی بجانے والوں کا قانون (وسل بلوورز ایکٹ) کہا جاتا ہے۔ حکومت واضح قانون بنائے کہ جو سرکاری افسر ایک خاص مدت سے زیادہ فائل روکے گا اس کے خلاف انضباطی کارروائی ہوگی۔ نیب کا ادارہ اپنی تمام خامیوں کے باوجود عوام کے فائدہ کے لیے کچھ نہ کچھ کام کررہا تھا۔ اس نے کئی ایسے بڑے اسکینڈل پکڑے جن کا تعلق نجی کاروباری اداروں کی بدعنوانی سے تھا جیسا کہ ہاؤسنگ سوسائٹیوںکے اسکینڈل‘ مضاربہ کے فراڈ‘ بدنام زمانہ ڈبل شاہ کی غیرقانونی بینکنگ۔ بعض معاملات میںنیب نے عوام کو ریلیف دلوایا۔قانون میں ترمیم کے بعد نیب ایسے معاملات پر ہاتھ نہیں ڈال سکے گا۔ کہا جارہا ہے کہ دیگر ادارے جیسے ایف بی آر‘ سکیورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان‘ اسٹیٹ بنک ‘ ایف آئی اے وغیرہ نجی کاروباری اداروںکی ہیرا پھیری کے خلاف کاروائی کریں گے۔ یہ ادارے تو طویل عرصہ سے موجود ہیں لیکن عوام کو ریلیف دلوانے میں کبھی موثر ثابت نہیں ہوئے۔ان اداروں کے ہوتے ہوئے انیس سو نوّے کی دہائی میں تاج کمپنی کا مالیاتی اسکینڈل اور کوآپریٹو سوسائٹیوں کے اسکینڈل ہوئے تھے جن میں لوگوں کے اربوں روپے ڈوبے تھے۔ بہتر ہوگا کہ قانون میں ترمیم کرکے نیب کی مداخلت کی کوئی حد مقرر کردی جائے کہ وہ چھوٹے موٹے کاروباری معاملات میں ہاتھ نہیں ڈالے گا بلکہ جہاںبڑے پیمانے کی کرپشن ہو‘ عوام کو لوٹا گیا ہو‘ دھوکا دہی کی گئی ہو وہ اس کے دائرہ کار میں آئیں گے جیسا کہ ہاؤسنگ سوسائیٹیوں کے فراڈ یا منی لانڈرنگ وغیرہ۔ نجی شعبہ کونیب کے دائرہ سے بالکل آزادکردینا عوام کے ساتھ خیرخواہی نہیں ۔