واسطہ یوں رہا سرابوں سے آنکھ نکلی نہیں عذابوں سے میں نے انساں سے رابطہ رکھا میں نے سیکھا نہیں نصابوں سے لوگ بھی بڑے بزلہ سنج اور ستم ظریف ہیں‘ عجیب طرح کی پوسٹیں لگاتے ہیں۔ایک لکھتا ہے کہ آپ حکومت کی کورونا کے حوالے سے دل کھول کر مدد کریں۔ دیے گئے اکائونٹ نمبر میںپیسے بھیجیں۔ آپ سے ہرگز نہیں پوچھا جائے گا کہ پیسے کدھر سے آئے اور کیسے آئے۔ مزید یہ کہ یہ بھی نہیں بتایا جائے گا کہ پیسے کدھر گئے‘‘ ایک اور صاحب لکھتے ہیں کہ آپ کو مدد ملے یا نہ ملے مگر ہر SMSپر آپ کے 7روپے موبائل پر کٹ جائیں گے۔ لاکھوں کالوں پر موبائل والوں کو کروڑوں ملیں گے تو کہاں جائیں گے۔SMSکے لئے 50کا بیلنس بھی ضروری ہے۔ ظاہر ہے آپ لوگوں کی نہ زبان پکڑ سکتے ہیں اور نہ ہاتھ۔ اصل مسئلہ ہوتا ہے حکومت کا اعتبار یہ سوچنے کی بات ہے کہ لوگ حکومت پر اعتبار کیوں نہیں کرتے۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا۔ قرض اتارو ملک سنواروں فنڈ والا معاملہ آپ جانتے ہیں۔ ڈیم فنڈ تو ابھی کل کی بات ہے۔ زرداری کے دور میں سیلاب فنڈ میں آنے والی کھجوریں اور کمبل تک مارکیٹ میں بیچ دیے گئے اور وہ ہار جو ترک خاتون اوّل نے خیرات میں دیا تھا گیلانی صاحب کی بیگم کے گلے میں جا پڑا۔ لیکن قبلہ ایسی بات بھی نہیں احساس کفالت ایمرجنسی پروگرام کے تحت 17ہزار پوائنٹس سے لوگوں کو 12ہزار روپے کے حساب سے ادائیگیاں شروع ہو گئی ہیں۔ کیش لیتے ہوئے لوگوں کے کلپس میں نے دیکھے ہیں یہ بہت خوشی کی بات ہے یہ اپنی جگہ درست کہ اس میں کچھ پیچیدگی ہو گی۔ چلئے غریبوں اور ضرورت مندوں تک رزق پہنچا۔ یہ لوگ دعائیں دیں گے وگرنہ اربوں کھربوں کھانے والے دوست نما کاروباری لوگ تو اب عمران خان کو دھمکیاں دے رہے ہیں۔ ایک پر تو ہمیں بھی ہنسی آتی ہے کہ وہ خسروانہ انداز میں الگ صوبہ بنانے نکلے تھے مگر ڈھیر ساری رقم بنا گئے۔ خان کی نیک نامی ایک مرتبہ پھر اضافہ ہوا ہے۔ اب آتے ہیں لاک ڈائون والے معاملے پر کہ کہا گیا ہے کہ اس میں نرمی کا فیصلہ 14اپریل کو کیا جائے گا۔ اس میں بھی میں عمران خاں سے متفق ہوں کہ اب تک ان کی اپروچ درست دکھائی دیتی ہے کہ ایک آدھ کھڑکی کھلی ہونی چاہیے کہ تازہ ہوا آتی رہے۔ وگرنہ لوگ دم گھٹ کر مر جائیں گے۔ وزیر اعظم اپنے حساب سے محتاط اقدام کرنے پر مجبور ہیں۔ باقی احتیاط تو ہمیں کرنی چاہیے۔ اس پر آپ کیا کہیں گے کہ میرے بھائی پیر صاحب جو دم کرنے میں مصروف رہتے ہیں کہنے لگے کہ میرے پاس خفیہ رپورٹس ہیں کہ پوری دنیا میں وائرس سے کوئی موت ہوتی ہی نہیں۔ یہ سب ڈرامہ ہے۔ اب بتائیے یہ خیالات کس قدر گمراہ کن ہیں۔ ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو‘ آپ اسے خوش فہمی کہہ لیں ‘غفلت ‘لاعلمی یا خواہش کچھ بھی کہہ لیں خدارا احتیاط‘ احتیاط اور احتیاط ۔ فی الحال تو سب کی نیندیں اڑی ہوئی ہیں: ہم بھی سوتے تھے کوئی یاد سرہانے رکھ کر ہاں مگر گردش ایام سے پہلے پہلے بہرحال بچوں کی موجیں ہیں۔ یہ ناسمجھی بھی کتنی بڑی نعمت ہے اب احساس ہوتا ہے۔ بڑوں کو باندھ کر گھر بٹھایا جا سکتا ہے۔ بچوں کو نہیں۔ لاک ڈائون کے منظر نامے میں بچے محلے میں کھیلتے نظر آتے ہیں۔ پتنگیں اڑ رہی ہیں۔ ان کو لوٹنے والے بے چارے غریب بچے۔ چھتوں پر بیڈ منٹن کھیلی جا رہی ہے۔ میرے بچے بھی رات کو لان میں نیٹ لگا لیتے ہیں۔ رات دو اڑھائی بجے سوتے ہیں صبح گیارہ یا بارہ بجے بیدار ہوتے ہیں یوں سمجھ لیں کہ فی الحال سب کے بارہ بجے ہوئے ہیں۔ پھر وہ بات کہ اب کام کے نہ کاج کے دشمن اناج کے‘ ایک خوبصورت شعر منیر نیازی کا یاد آ گیا: گھٹا دیکھ کر خوش ہوئیں لڑکیاں چھتوں پر کھلے پھول برسات کے شب بارات پر پٹاخے بھی چلے۔ میرے لئے خوشگوار منظریہ تھا کہ میری بیگم اور میری بیٹی نے روزہ رکھا اور دوسرے روز میرے منجھلے بیٹے زبیر نے بھی۔ یہ الگ بات کہ افطاری پر سارے گھر والوں نے ہاتھ صاف کئے۔ افطاری کا سحری سے بھی زیادہ مزہ آتا ہے۔ ایک افطاری جیالوں کی یاد آ گئی کہ روزہ داروں کے لئے کھجوریں بھی نہیں بچیں تھیں۔ خیر سیاسی افطار پارٹی ایسی ہی ہوتی ہے ۔ جمیل احمد عدیل نے لکھا ہے کہ جمعہ نہ پڑھنے والوں کے دل میں ایک گلٹ تھا جو بہانہ ملنے پر اب ختم ہو گیا۔ میں نے کہا جناب جمعہ پڑھنے والوں کے لئے تو ایک اذیت ہے کہ گھر بیٹھے ہیں ویسے ہم جیسے دائو لگا کر جمعہ تو پڑھ ہی آتے ہیں۔ اس لاک ڈائون میں بھارت نے بھی اپنا ڈرائون بھیجا اور پاکستان کے پیاروں نے اسے مار گرایا۔ بھارت چیک کرتا رہتا ہے کہ ہم سوئے ہوئے ہیں یا جاگ رہے ہیں۔ جو بھی کورونا کے خلاف جنگ جاری ہے۔ سعدیہ قریشی نے تو لکھا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جنگ میدان جنگ کی بجائے اب ہسپتالوں میں لڑی جا رہی ہے۔ اب کے سپاہی ‘ ڈاکٹر‘ نرسیں اور پیرا میڈیکل کا عملہ ہے ۔میرا خیال ہے کہ اس سے بھی بڑی جنگ گھروں میں لڑی جا رہی ہے اور اس کی وضاحت ضروری نہیں کہ میاں بیوی کو ہر وقت ایک دوسرے کا سامنا ہے۔ بعض گھروں میں تو ساس بھی ملنے آئی ہوئی ہے۔ اپنے خلاف بھی ایک جنگ ہے۔ خود پر جبر کرنا کہ باہر نہیں نکلنا۔ جس کو حجام کا کام نہیں آتا اس کی داڑھی یا شیو بڑھی ہوئی ہے ایک وحشت سی بہرحال ناچنے لگتی ہے۔ ظہیر کاشمیری یاد آئے: اپنے گلے میں اپنی ہی بانہوں کو ڈالیے جینے کا اب تو ایک یہی ڈھنگ رہ گیا چلیے چھوڑیے’’شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک‘‘ پھر میر کیوں یاد نہ آئیں گے: یاں کے سپید و سیہ میں ہم کو دخل جو ہے سو اتنا ہے رات کو رو رو صبح کیا یا دن کو جوں توں شام کیا پوری قوم ہی کیا پوری دنیا کورونا کے خلاف یکسو ہے۔ ابھی چھوٹے بھائی ثناء اللہ شاہ کا چشتیاں سے فون آیا کہ سب حیران ہیں کہ کسی بھی رکاوٹ کے بغیر مستحقین کو حکومت کی طرف سے پیسے بانٹے جا رہے ہیں۔ ایسا پہلی مرتبہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ہم بھی یہی چاہتے ہیں کہ حکومت اس ضمن میں جو کر سکتی ہے کرے۔ فی الحال سیاست چھوڑ دی جائے۔ قوم کے لئے کچھ کر گزرنا ہی دل جیتنے والی بات ہے۔ مگر یہ سیاست داں ہیرا پھیری سے پھر بھی نہیں جاتے۔ سیاست نہ کرنے کی اپیل کرنے والے فیاض الحسن فرما رہے ہیں لیگی رہنما بغلیں نہ بجائیں‘احتساب سب کا ہو گا اس بات پر انہیں خود بھی ہنسی نہیں آئی۔سب کو ان کے احتساب کا علم ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جہاز کی بنیاد پر حکومت بنتی تو شاہد خاقان کے پاس ایئر لائن ہے۔ ان کو اس بیوہ کی طرح قبر سکھانے کی ضرورت نہیں جس نے پوچھنے پر بتایا تھا کہ اس نے شوہر سے عہد کیا تھا کہ اس کی قبر کی مٹی خشک ہونے سے پہلے دوسری شادی نہیں کرے گی۔بہت سی باتوں کا سامنا انہیں بھی کرنا ہے جیسا کہ فارن فنڈنگ کیس ہے۔یہ بھی خوش آئند ہے کہ پنجاب زکوٰۃ فنڈ سے دو لاکھ گھروں کو 9ہزار روپے فی کس مہیا کرے گا۔ حکومت کے لئے بڑا ٹاسک یہ ہے کہ پیشہ ور بھکاریوں سے بچا کر مستحق سفید پوشوں تک پہنچائے یا حقیقی ضرورت مند لوگوں تک‘ اسی کو کہتے ہیں حق بحقدار رسید: ان کے ہوتے ہوئے کچھ بھی نہیں دیکھا جاتا کتنے روشن ہیں چراغوں کو جلانے والے