معززقارئین !آج میں نے صبح سے یہ عہد کیا ہواہے کہ احمقوں کے بارے ایک کالم لکھوں گا۔بارہ بجے جب اپنے دفتر پہنچا تو کالم لکھتے وقت مَیںخاصا کنفیوزڈبھی ہوا ۔مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ آخر اس دنیا میں احمق لوگ کون ہیں جن کے اوپر میں لکھنے کی طبع آزمائی کرلوں،کیونکہ یہاں تو ہرکوئی خود کو لقمان حکیم اور یونان کاافلاطون جیسا سیاناسمجھتا ہیں۔طویل سوچ بچار کے بعدسامنے دیوارپر لگی ہوئی الماری کے اندر سے ایک کتاب پر نظر پڑی ۔کتاب اٹھاکر دیکھا تووہ خوشحال خان خٹک کے اشعار کا دیوان تھا ۔دیوان کیا تھا ، مختلف موضوعات اور پندونصائح کا ایک سمندر تھا ۔عشق ِحقیقی سے لیکر عشق مجازی تک ،طب سے لیکر مذہب تک اورمیدان جنگ کے طورطریقوں سے لے کر چرندپرندکے شکار تک سبھی موضوعات کے اوپر اس نابغہ روزگار شاعر نے لکھاتھا۔ چونکہ مجھے صرف احمقوں کے بارے میں جانکاری حاصل کرنی تھی یوں دیوان ِ خوشحال کی ورق گردانی کرتے کرتے آخرکاروہی مطلوبہ چیزمجھے مل ہی گئی ۔ خوشحال بابا کواللہ تعالیٰ غریق رحمت کرے کہ انہوں نے اس ٹولے کے علامات اور طورطریقوں کے بارے میں ’’احمقان‘‘ (بہت سارے احمق) کے عنوان سے باقاعدہ ایک نظم لکھی تھی۔قارئین ! اس نظم کاایک فائدمجھے یہ ہوا کہ ایک تومجھ پرایسے لوگوںکی حقیقت کشف ہوئی جبکہ دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ میں مفت میں کسی کے اوپر احمق کا حکم لگانے سے بھی بچ گیا کیونکہ بابا نے نظم میں صاف صاف اس ٹولے کی نشانیاں بتائیں ہیں۔ قارئین کی سہولت کی خاطر میں یہاں پروہی نظم اردوترجمے کے ساتھ پیش کی جارہی ہے، چی می شہ پہ زڑہ کے فہم فکر وکڑو احمقان راتہ شکارہ شو پہ خویونو ترجمہ؛ اپنے دل میں خاصے فہم وفکر کرنے کے بعدمجھے بے شمار لوگ اپنی عادات کی وجہ سے احمق نظرآنے لگے۔ یَو ھغہ سڑے احمق بللے بویہ چی باور کا د غلیم پہ سوگندونو ترجمہ: ایک اس شخص کو احمق سمجھو جو اپنے دشمن کی اٹھائی گئی قسموں کے اوپر بھی اعتماد کرلیتاہے۔ بل ھغہ سڑے احمق بللے بویہ چی بہ غواڑی دَے لوئی پہ نسبونو ترجمہ: اور اس شخص کو بھی احمق سمجھو جو نسب اور قومیت کے راستے عزت اور بلندی حاصل کرنے کے درپے ہو۔ بل ھغہ سڑے احمق بللے بویہ چی پاڑو کا د لڑمو دمارونو ترجمہ: اس شخص کی حماقت میں کوئی دورائے نہیں ہوسکتیں جس کاکام سانپ اور بچھوکے علاج کرنے اوردم وغیرہ کاہوتاہے۔ بل ھغہ سڑی احمق بللی بویہ چی پہ سپینہ ژیرہ خیال کوی د نجونو ترجمہ: وہ شخص بھی احمق ہے جوسفیدریش ہوکے بھی عورتوں کے بارے میں سوچتارہتاہے۔ بل ھغہ سڑے احمق بللے بویہ چی د شزو سرپ پاسی پہ جنگونو ترجمہ : احمق ہے وہ شخص بھی جو عورتوں کے ساتھ بھی لڑتاجھگڑتاہو۔ بل ھغہ سڑے احمق بللے بویہ چی پہ ھر طبیب دارو کا د رنزونو ترجمہ: دوسرا اس آدمی کو بھی بے وقوف سمجھو جو ایک ہی طبیب پر اکتفاء کرنے کی بجائے اپنی بیماری کا علاج بے شمار اطباء سے کرواتاہے۔ بل ھغہ سڑے احمق بللے بویہ چی بربنڈہ کونہ لامبی پہ سیندونو ترجمہ: اس شخص کو بھی احمق جان لوجو خود کو سرتاپا برہنہ کرکے دریاوں میں نہاتارہتاہے۔ بل ھغہ سڑے احمق بللے بویہ چی ویشتہ بہ توروی پہ خضابونو ترجمہ : وہ شخص بھی احمق ہی توہے جو سفید بالوں کو مہندی سے کالا کرنے کی لت پڑگئی ہو۔ بل ھغہ سڑے احمق بللے بویہ چی پیریان بہ کشینوی پہ خپلو خونو ترجمہ: اس شخص کو بھی بے وقوف سمجھنا جو اپنے گھر بار میں جنات بٹھاتا ہو۔ بل ھغہ سڑے احمق بللے بویہ چی خبرے کا پہ سترگو پہ لاسونو ترجمہ : اس شخص کی حماقت میں بھی کوئی شک نہیں جو ہاتھ اور آنکھوں کی مددسے بات کرتاہے۔ بل ھغہ سڑے احمق بللے بویہ چی بہ مال د دنیا نہ خوری پہ کورونو ترجمہ :بیوقوف ہے وہ بھی جو مال توکماتاہے لیکن اسے اپنے اہل وعیال کے اوپر خرچ نہیں کرتا۔ بل ھغہ سڑے احمق بللے بویہ چی غوژ نہ کا د خوشحال پہ دا حرفونو، ترجمہ : اور اس شخص کو بھی احمق ہی سمجھوجو خوشحال خان کے ان(سنہرے) الفاظ پر کان نہیں دھرتاہو‘‘۔ قارئین ! سچ سچ بتادوں کہ بے وقوفوں کے بارے میں بابا کی لکھی گئی یہ طویل نظم پڑھنے کے باوجودمجھے تشفی نہیں ہوئی۔کیونکہ بابا نے اپنے زمانے(سترہویں صدی عیسوی) کے مطابق احمقوں کا تخمینہ لگایاتھاجن کی تعداداس دور میں یقیناً بہت کم تھی ۔جبکہ میں چاہتاتھا کہ اکیسویں صدی کے اس ڈیجیٹل دور کے نت نئے احمقوں کے بارے میں بھی تھوڑا بہت جان سکوںجن کی کوئی حد نہیں ہے۔