معاشرے کی سوچ میں اگر یکسانیت نمایاں ہو جائے تو جڑیں مضبوط ہوتی ہیں نا ہی آگے بڑھنے کی صلاحیت باقی رہتی ہے۔ ہر فرد ایک منفرد سوچ کا حامل ہوتا ہے اسی لیے ضروری نہیں کہ کسی کی کہی بات پر من و عن یقین کر لیا جائے، اسے تسلیم کیا جائے یا درست مان لیا جائے۔ ہمارے ملک میں سب سے زیادہ آئیڈیلائز کیا جاتا ہے ان ممالک کو جن کی آگے بڑھنے کی صلاحیت، زندگی گزارنے کے طریقے بہتر اور محفوظ مستقبل کی ضمانت ہو اور ہم ترقی پذیر ملکوں کے باسی انہیں ممالک ترقی یافتہ ملک مانتے ہیں۔ لیکن ان ترقی یافتہ معاشروں کے رویے سہانے محسوس ہونے کے باوجود اپنانے کے لئے ہم تیار نہیں۔ اس کی بنیادی وجہ صرف اتنی سی ہے کہ ہمارے زندگی کے تجربات یکسرمختلف ہیں۔مشہور برطانوی فلاسفر جان لاک نے انسانی علم پر مفصل بحث کی ہے۔ جان لاک کے مطابق انسان کا دماغ ایک ایسی سلیٹ کی مانند ہے جس کی سوچ کا زاویہ اسکے تجربات پر منحصر ہے۔ بچپن کی یادیں اور واقعے، صحبت کا اثر اور دفتر تک کا ماحول کسی نا کسی طور ہم پر اثر انداز ہوتا ہے۔ ترقی یافتہ یا حقیقت میں پڑھے لکھے معاشروں میں کسی ایک بات پر مختلف آراکو خوش آمدید اس لئے بھی کیا جاتا ہے کہ یہی اختلاف آپکے علم کا مظہر ہے مگر ہم جس سوسائٹی کا حصہ ہیں وہاں اختلاف رائے کا اظہار کرنا ایسا ہی ہے جیسے ' آ بیل مجھے مار' چند روز قبل کے واقعے کو ہی دیکھا جائے تو معلوم پڑے گا گلشن اقبال پارک لاہور جہاں لوگوں کی کثیر تعداد آتی ہے جن کا تعلق صرف لاہور سے ہو، ضروری نہیں۔ دوسرے شہروں کے لوگ بھی تفریح کی غرض سے لاہور کے دیگر حصوں کی طرح اس مشہور پارک کا رخ کرتے ہیں۔ پارک ک کے چندمالیوں نے اپنی مدد آپ کے تحت شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کا مجسمہ بنایا اور پارک میں نصب کر دیا۔اس مجسمے کو لے کر سول سوسائٹی نے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا، وہی سوشل میڈیا پر بھی ایک طوفان برپا ہوا۔چونکہ کسی ماہر مجسمہ سازی کی بجائے یہ تخلیق مالیوں نے کی تو کسی کی نظر میں یہ کاوش قابل تحسین ٹھہری تو مجھ سمیت دیگر صحافیوں اور عوام الناس کو اس پر شدید تکلیف ہوئی۔پارک کے مالیوں کی علامہ محمد اقبال سے عقیدت اور محبت پر کوئی شبہ نہیں مگر جو مجسمہ بنا کر نصب کیا گیا وہ کسی طور علامہ اقبال سے مطابقت نہیں رکھتا تھا جس پر شدید رنج ہوا۔۔ چونکہ ایک بھی سرکاری روپیہ نہیں لگا اور مالیوں نے اپنی محبت کا اظہار اس مجسمے کے ذریعے اس لئے بھی کیا کیونکہ ان کے نزدیک گلشن بھی ہے ،پارک بھی لیکن اقبال کی کمی تھی۔ اس مضحکہ خیز دلیل سے انتظامیہ نے جان خلاصی کروانا چاہی مگر یہ دائو نا چل سکا۔ اب انتظامیہ کی توجہ دلانے کے لیے جس بھی صحافی نے آواز اٹھائی یا کچھ لکھا تو اس کے خلاف جغادریوں کی بے لگام فوج نکل کھڑی ہوئی۔ مجسمہ پر رائے دینے کے خلاف ان جغادریوں نے بے رحمانہ آزادی کے ساتھ جو دل میں آیا بنا بات کو سمجھے لکھ ڈالا۔ اخلاقیات سکھانے والے خود بد ترین پستی میں لت پت ہوئے۔ یہ کہاں درج ہے کہ عقیدت اور پیار کے نام پر جس کے دل میں جو آئے بنا ڈالے اور کسی پارک، گلی کی نکڑ یا چوک چوراہے میں نصب کر دے۔بھلا ہو پنجاب حکومت کا جس نے معاملے کی حساسیت کو سمجھا اور ایکشن لیا اور بھلا ہو ان تمام سورماؤں کا جنہوں نے اختلاف رائے کے نام پر شرمناک طریقے سے برا بھلا کہا۔اختلاف رائے پر عوام کا غصہ، بے چینی اور جارحانہ پن عدم برداشت کے پہلو کو اجاگر کرتا ہے جسے بہت حد تک ان نمائندوں نے فروغ دیا جو عوام کی نمائندگی کرتے ہیں۔اختلاف رائے کا حسن اس اظہار سے بہت مختلف ہے جو گالم گلوچ، بد زبانی اور جہالت جیسے عناصر کو واضح کرے۔ تمام سیاسی جماعتوں کی مثال اس پر صادق آتی ہے۔ایک حدیث نبوی میں ارشا د ہے۔’’ جیسے تم ہو گے ویسے ہی تمہارے حکمران ہوں گے۔‘‘ یعنی جس قسم کے تم لوگ ہوگے ، اسی قسم کے تمہارے حکمران ہوں گے ، کیونکہ عوام اور حکمران دونوں کا سرچشمہ ایک ہی ہوتا ہے۔ ویسے پاکستان ایک ہے مگر عکس دو۔۔ پرانا اور نیا پاکستان ، جس کی نمائندگی سیاسی جماعتوں سمیت پوری قوم زور و شور سے کرتی ہے۔ چونکہ تقریبا ہر فرد کسی نا کسی پارٹی کا گلیڈی ایٹر ہے اس لیے مختلف رائے دینے والوں کو رسوا کرنا اپنا اولین فرض سمجھتا ہے اور یہی وجہ ہے سوشل میڈیا پر کسی بات یا سچی جھوٹی خبر کی تصدیق کی بجائے طوفان برپا رہتا ہے۔ اس قسم کے رویے ہمارے اندر سرایت کر چکے ہیں۔ ہم نے خود اپنی ذات کو قید کر لیا ہے۔ کوئی جیالوں کی صف میں کھڑا ہوا تو کوئی ن لیگی شیر بن گیا آج کل نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد انصاف بانٹ رہی ہے۔ اور سبھی اپنے اپنے لیڈر کے دفاع میں مخالف رائے رکھنے والے کو ناکوں چنے چبوانے کے در پے ہیں۔ جس جمہوریت کی دوڑ میں سب آن کھڑے ہیں اسے ڈکٹیٹر شپ کا رنگ دینا معاشرے کی تباہی کے مترادف ہے۔ انتشار کا پہلو مختلف ہے مگر لوگوں کو زندہ رہنے دیں۔ آزادی سے سانس لینے دیں۔ زندہ اور آزاد انسان کی پہچان اس کا اظہار رائے ہے۔ جو مختلف چیزوں کو اپنے زاویے سے دیکھنے میں آزاد ہے۔ لیڈر ہو یا عوام سبھی ایک دوجے کے رنگ میں ہیں۔ جس تاریخی انقلاب کا دعویٰ ہر سیاسی جماعت کرتی ہے وہ انقلاب آزاد انسانوں کے ساتھ ہی ممکن ہے۔ غلاموں کے بس کی بات نہیں۔