ایک حکومتی وزیر نے خوشخبری سنائی ہے کہ وہ اخبارات کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ خدا کرے ایسا ہی ہو لیکن آثار تو ایسے نظر نہیں آتے۔ نئی حکومت نے سرکاری اشتہارات کم کردیئے ہیں اور باوثوق افواہوں کے مطابق آئندہ انہی اخبارات کو اشتہارات ملیں گے جو سٹیٹس کو کے حامی ہوں گے۔ حالانکہ سٹیٹس کو، ماشاء اللہ سے اتنا مضبوط ہے کہ سیسہ پلائی دیوار بن چکا ہے۔ اگر کوئی ناعاقبت اندیش اخبار اس کی مرضی پر نہیں چلتا یا اختلاف رائے رکھتا ہوتو بھی کیا نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اخبارات کے لیے سرکاری اشتہار بھی ریڑھ کی ہڈی ہیں، اسے پالیسی سے مشروط کیا گیا تو ان کا چلنا مشکل ہوتا جائے گا۔ خیر، سرکاری اشتہارات سے قطع نظر پاکستان میں اخبارات دوسرے عوامل کی وجہ سے بھی روبہ زوال ہیں۔ 90ء کی دہائی میں ایک بڑا اخبار صرف لاہور شہر کے لیے ایک لاکھ کی تعداد میں چھپتا تھا، اب جبکہ آبادی چار گنا بڑھ چکی ہے اور خواندگی کی شرح بھی اوپر گئی ہے تو اس کی لاہور کے لیے اشاعت 30ہزار ہے۔ یعنی دیکھا جائے تو اشاعت چار گنا سے بھی زیادہ کم ہو گئی ہے۔ اسی پر دوسرے اخبارات کا احوال بھی محمول کرلیجئے۔ کہا جاتا ہے کہ ایسا انٹرنیٹ کی وجہ سے ہوا ہے لیکن ایسا ہے تو پھر بھارت میں ایسا کیوں نہیں۔ وہاں تو یہ چینل ہم سے بھی پہلے کے ہیں اور ہم سے زیادہ بھی ہیں اور انٹرنیٹ کے معاملے میں بھی وہ زیادہ آگے ہے۔ پھر بھی وہاں اخبارات دسیوں لاکھ کی تعداد میں شائع ہوتے ہیں۔ انگریزی میں، ہندی میں، بنگالی اور مراٹھی میں، تامل میں یہاں تک کہ پنجابی اخبارات بھی لاکھوں میں چھپتے ہیں جبکہ بھارت میں پنجابی پڑھنے اور بولنے والے پانچ کروڑ سے زیادہ نہیں ہیں۔ تین کروڑ پنجاب اور ہریانہ میں، باقی ملک بھر میں پھیلے ہوئے ہیں (پنجابی اخبار دیوناگری رسم الخط میں چھپتے ہیں جسے گورمکھی کہا جاتا ہے)۔ ہاں اردو اخبارات بہت پیچھے ہیں۔ بعض پنجابی اخبارات کے نام ملاحظہ ہوں۔ اجیت، پنجابی ٹریبون، جاگران، جگ باقی، نواں زمانہ، پہریدار، اج دی آواز، دوآبہ ہیڈلائنز، چڑھدی کلا، آشیانہ، قومی ایکتا، دیش دوآبہ، پنجابی ٹریبون، پنجاب ٹائمز۔ ٭٭٭٭٭ ایک زمانہ تھا جب اخبارات اپنی سرکولیشن کی بنیاد پر بھی زندہ رہ سکتے تھے لیکن پھر لاگت بڑھتی گئی۔ بھارت اور بنگلہ دیش میں اخباری کاغذ بنانے کے کارخانے ہیں، پاکستان میں نہیں ہیں، نیوز پرنٹ باہر سے آتا ہے۔ اکیلی اسی مد کی وجہ سے اخبار کی قیمت اتنی بڑھ گئی ہے کہ ایک کاپی پر 20 سے 24 روپے خرچ آتے ہیں جو مارکیٹ میں 12 روپے کی قیمت پر ملتی ہے۔ پھر ایک زمانہ وہ تھا کہ سرکاری اشتہارات کی اتنی زیادہ اہمیت نہیں تھی۔ اشیائے صرف کے سارے اشتہارات اخبارات میں چھپتے تھے۔ صابن، شیمپو اور لپ سٹک سے لے کر پرفیوم تک کے۔ ساری کاسمیٹکس مصنوعات، جوتے، تیار کپڑے، پارچے، بائیسکل، موٹرسائیکل اور کار، ریڈیو، ٹی وی سیٹ، زیورات کی دکانیں، اون، سلائی مشین، سگریٹ، بناسپتی گھی، انگریزی، یونانی دوائوں، اچار چٹنی اور بسکٹ تک ہر شے کے اشتہار اخباروں میں آتے تھے اور ان کے نرخ بھی سرکاری اشتہاروں سے زیادہ تھے، پھر ایئر لائنوں، بلکہ انٹرسٹی ٹرانسپورٹ کمپنیوں کے اشتہار بھی تھے۔ برسبیل تذکرہ، زمانے کا بدلائو ایسا آیا کہ ان میں سے بعض اشیا سرے سے غائب ہو گئیں، مثلاً سلائی مشین کبھی گھر گھر میں ہوتی تھی، اب کسی گھر میں نہیں ہوتی، گھر گھر میں اون سے سویٹر بنے جاتے تھے، اب وہ رواج ختم ہو گیا ہے۔ ریڈیو سیٹ، گراموفون غائب ہو گئے اور اسی طرح اور چیزیں بھی۔ بہرحال یہ اشتہار اخبارات کے پھلنے پھولنے کا بہت بڑا سبب تھے۔ بھٹو صاحب کی حکومت میں سرکاری اشتہارات کی اہمیت بڑھ گئی کیونکہ انہوں نے بہت سی صنعتیں قومیائی تھیں چنانچہ صرف ٹینڈرنوٹس ہی سرکاری اشتہار نہیں رہے، ان میں مصنوعات کے اشتہار بھی آ گئے۔ ضیاء الحق کے دور میں یہ صورتحال پھر بدلی اور اخبارات میں اشتہارات کی رونق دوبارہ بڑھ گئی۔ اس زمانے میں اے پی این ایس کا اشتہار آیا کرتا تھا۔ صنعتکاروں سے کہا جاتا تھا کہ آپ کے کاروبار کی ترقی اسی میں ہے کہ آپ اے پی این ایس کے رکن اخبارات میں اشتہار دیں۔ پھر مشرف کا دور اور ٹی وی چینل کھلنے لگے، تمام تر مصنوعات کے اشتہار اخبارات کے صفحات سے اٹھ کر ٹی وی سکرین پر آ گئے۔ اخبارات میں آج کل صرف سرکاری ٹینڈر نوٹس، نجی تعلیمی اداروں اور پراپرٹی بزنس سے متعلق اشتہارات رہ گئے ہیں یا پھر کارپوریٹ سیکٹر کے ’’وانٹڈ‘‘ والے۔ یہ صورتحال اس لحاظ سے عجیب ہے کہ بھارت، گلف، امریکہ، یورپ اور چین جاپان سمیت باقی سب دنیا میں ایسا بالکل نہیں ہے۔ وہاں ہر طرح کی صنعت اور سروسز کے اشتہارات بدستور اخبارات میں آتے ہیں۔ ہوا کا رخ صرف پاکستان ہی میں کیوں بدلا ہے۔ اخبارات کے مالکان چاہیں تو ’’تحقیق‘‘ کرسکتے ہیں کہ اس کے پیچھے کیا راز ہے۔ ٭٭٭٭٭ یہ بحث تو خاصی لمبی ہو سکتی ہے لیکن ضمنی طورپر ایک انوکھی بات، دو روز پہلے وٹس ایپ پر آنے والی پوسٹ سے معلوم ہوئی۔ بھکر کے کسی سیاسی رہنما کا بیان بھکر کے اخبارات میں چھپا تھا۔ ان صاحب نے ان بیانات کے تراشے اکٹھے کر کے پوسٹ میں ڈال دیئے اور اس پوسٹ سے پتہ چلا کہ لاکھ سوا لاکھ آبادی والے اس شہر میں کم و بیش دس روزنامے شائع ہوتے ہیں۔ بھکر ٹائمز، اپنا بھکر، بھکر ٹوڈے، گریٹر تھل ٹائمز، عوام کی عدالت، تھل ٹائمز، نمل ٹائمز وغیرہ۔ انوکھی بات ہے کہ نہیں؟ اتنے اخبارات تو فیصل آباد، پنڈی، ملتان سے بھی نہیں چھپتے۔ بھکر میں شرح خواندگی زیادہ ہے یا قوت خرید، یا پھر وہاں ذوق خبر بینی فراواں ہے۔ کچھ بھی ہو، بھکر کے عوام قابل مبارک باد ہیں۔ فی دس ہزار آبادی کے لیے ایک روزنامہ بنتا ہے۔ بڑے بڑے قومی اخبارات کے نیٹ ورک میں عموماً پانچ یا چھ اشاعتی مراکز ہوتے ہیں یعنی کراچی، لاہور، پنڈی، کوئٹہ، پشاور اور ملتان۔ کچھ عرصے سے بعض گروپوں نے گوجرانوالہ اور فیصل آباد کو بھی ذیلی مرکز بنا لیا ہے۔ بھکر میں اخبارات کی اتنی مانگ کے پیش نظر قومی اخبارات کو اسے بھی اپنے مراکز میں شامل کرنا چاہیے۔ پھر پیشانی کی عبارت یوں ہوا کرے گی۔ لاہور، پنڈی، کوئٹہ، ملتان، پشاور اور بھکر سے چھپنے والا قومی روزنامہ۔ ٭٭٭٭٭ وفاقی وزیر معاشیات نے فرمایا ہے کہ عوام پر کوئی ٹیکس نہیں لگے گا۔ جس روز یہ خبر چھپی ہے، اسی روز یہ بھی چھپا ہے کہ آٹے کی قیمت دو روپے فی کلو بڑھ گئی۔ ایک اخبار نے تو اسے آٹے کی قیمت میں ہوشربا اضافہ لکھا ہے حالانکہ دو روپے میں ہوش اڑانے والی کوئی شے کہاں ملتی ہے۔ شاید اسے آٹے پر ٹیکس قرار نہیں دیا جا سکتا۔ وفاقی وزیر کھاد کی بوری میں 8 سو روپے اضافے پر کیا کہیں گے؟ وہ ٹیکس ہے کہ نہیں گیس اور بجلی مہنگی ہوئی ہے، یقینا وہ بھی ٹیکس نہیں ہے بلکہ یہ اضافہ تو گھاٹے کے گھاٹے یعنی ’’باب الخسر‘‘ میں ہوا ہے لیکن جب کھاد اور بجلی اتنی مہنگی ہوگی تو اگلی فصل پر کاشتکار اپنی اجناس کی زیادہ قیمت لیں گے کہ نہیں؟ سنا ہے کہ نئے فنانس بل میں چار سو اشیاء پر ٹیکس لگ رہا ہے۔ بہت زیادہ مہنگائی تو آپ نے پہلے ہی کردی ہے۔ یہ ’’سوا‘‘ والی بات یوں لکھی کہ کسی چیز پر کوئی نیا ٹیکس لگانے کی تجویز نہیں ہے اور اگر ہے بھی تو فنانس بل میں درج نہیں کی جائے گی۔ چلئے وزیر صاحب آپ خوش رہیں، عوام تو قربانی یعنی ذبح ہونے کے لیے ہوتے ہیں، اس بار ’’ذبح عظیم‘‘ ہی سہی۔ آپ یونہی چارٹرڈ اور خصوصی طیاروں میں اڑتے اور ’’بچت‘‘ کرتے رہیں۔