گزشتہ روز اخبار پڑھنے کا قومی دن منایا گیا۔ آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی (اے پی این ایس) کی جانب سے اس دن کو منانے کیلئے اٹھائے گئے اقدام کی تعریف ضروری ہے کہ سال 2019ء میں شروع کیا جانیوالا اخبار بینی کا قومی دن پاکستان میں مطالعے کی عادت کو پروان چڑھانے اور اسے فروغ دینے میںمعاون ثابت ہو گا۔ اس موقع پر اخبارات نے خصوصی ضمیمے شائع کئے۔ اے پی این ایس کو صدر ڈاکٹر عارف علوی، وزیر اعظم عمران خان، گورنر پنجاب چودھری محمد سرور، گورنر سندھ عمران اسماعیل ، گورنر خیبرپختونخواہ شاہ فرمان، گورنر بلوچستان سید ظہور احمد آغا، وزیر اعلیٰ پنجاب سردار محمد عثمان خان بزدار، وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ، وزیر اعلیٰ خیبرپختونخواہ محمود خان مہے، وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان اور وزیر اطلاعات چودھری فواد حسین کے پیغامات شائع کئے گئے۔ اخباری مالکان اور سینئر صحافیوں کے پیغامات شائع کئے جاتے تو بہتر تھا۔ آزادی صحافت کیلئے صحافی برادری کی بہت خدمات ہیں۔ اخبارات کو بہتر بنانے پر اس کی ساکھ کو مضبوط کرنے میں پاکستان کے میڈیا کا اہم کردار ہے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ سب سے زیادہ قابل اعتماد اور درست خبر اور معلومات کے ابلاغ کیلئے پرنٹ میڈیا کو اب بھی معتبر مانا جاتا ہے۔ ملک کے عوام میں مطالعہ کی عادت کو بیدار کرکے جھوٹی خبروں کے سیلاب کو روکا جا سکتا ہے۔ ترقی یافتہ اور مہذب معاشرے کے قیام کیلئے آزاد اور خود مختار میڈیا انتہائی ضروری ہے۔ خود مختاری کیلئے میڈیا کو اہم فیصلے کرنا ہوں گے۔ آج جبکہ اخبارات میں حکومتی عمائدین کے پیغامات شائع کئے گئے اس موقع پر اخبارات سے وابستہ کسی غریب عامل صحافی اور کسی غریب ہاکر کا پیغام شائع ہونا چاہئے تھا کہ عہدہ اور منصب کچھ نہیں، اصل بات عمل کی ہے۔ گزشتہ روز ہم نے اپنے دفتر میں مخدوم یوسف رضا گیلانی، شاہ محمود قریشی یا جاوید ہاشمی کی بجائے دفتر کے چپڑاسی کیساتھ شام منائی جسے بہت پسند کیا گیا۔ فرسودہ روایات کو بدلنے کیلئے میڈیا کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ پرنٹ میڈیا کی اہمیت سرائیکی کہاوت ’’لکھیا لوہا الایا گوہا‘‘ سے بھی واضح ہوتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ الفاظ زیادہ دیرپا ہوتے ہیں اور اخبار کی چھپائی دراصل دنیا بھر میں ہونیوالے واقعات کی تاریخی دستاویز ہے۔ موجودہ دور میں جہاں الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا تیزی سے فروغ پا رہا ہے اور دنیا کے ایک حصے سے دوسرے حصے میں خبروں کو تیزی سے پھیلارہا ہے۔ایسے میں اخبارات اپنے ادارتی نگرانی اور بیرونی محتسب کے روایتی طریقہ کار کی وجہ سے اب بھی معلومات فراہم کرنے کا زیادہ معتبر ذریعہ سمجھے جاتے ہیں۔ حکمران سابقہ ہوں یا موجودہ سوشل میڈیا سے پریشان رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا کی نہ کوئی ساکھ ہے نہ ذمہ داری ہے جبکہ اخبارات آج بھی خبر ذمہ داری سے شائع کرتے ہیں کہ خبر کی اشاعت کا ان کے پاس ایک سسٹم ہے۔ عمران خان کو برسراقتدار لانے میں میڈیا کا بہت ہاتھ ہے، مگر سوال یہ ہے کہ یہ اچھائی آج جرم کیوں بنا دی گئی ہے؟ یہ ٹھیک ہے کہ اخبارات کی اشاعت کم ہوئی مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ نیٹ پر آج بھی اخبار پڑھے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اخبارات کا مطالعہ نہ صرف ہمیں اچھی طرح با خبر رکھتا ہے بلکہ ہمیں دنیا کے موجودہ حالات اور زندگی کے تمام شعبوں سے متعلق مسائل پر بحث میں حصہ لینے کے قابل بناتا ہے۔اخبار قارئین کو ہر روز باقاعدگی سے دنیا میں ہونیوالی تمام تازہ ترین خبروں اور واقعات سے با خبر رکھنے کا اہم ترین اور قابل اعتماد ذریعہ ہے۔ یہ ہمیں ملک اور دنیا بھر کے حقیقی واقعات کے بارے میں معلومات فراہم کرتا ہے۔ اخبار میں بچوں اور بڑوں دونوں کے لیے بہت سے مفید سیکشن ہوتے ہیں جیسے سیاسی خبریں، ٹیک نیوز، کھیلوں کی خبریں، کامرس اور کاروبار کی خبریں، اداریے اور پہیلی کھیل۔ اس کے ساتھ اب اخبارات کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ مقامی مسائل کو اجاگر کریں۔ ٹی وی چینل پر کرنٹ افیئر پر بہت بات ہو رہی ہے ، اب اخبارات جہاں جہاں سے شائع ہوتے ہیں وہاں کی تہذیب، ثقافت اور وہاں کے آثار کے ساتھ ساتھ مقامی زبان کے ادب و ترقی کیلئے کام کریں۔ اخبار پڑھنے کے قومی دن کے موقع پر جھوک سرائیکی میں منعقد ہونے والی نشست میں بجا طور پر کہا گیا کہ اخبارات پڑھنے کے کئی فوائد ہیں جن کی اہمیت کو کم نہیں کیا جا سکتا۔ اخبار روزانہ کی بنیاد پر معلومات کا ایک خزانہ فراہم کرتا ہے۔ ہر صبح، ہم ایک کپ گرم چائے کے ساتھ اخبار پڑھتے ہیں۔ اخبار پڑھنے کے ساتھ ہم ہمیشہ اپنا ذخیرہ الفاظ، پڑھنے کی مہارت، علم اور حکمت میں اضافہ کرتے ہیں۔اخبارات نے معاشرے پر مثبت اثرات مرتب کئے ہیں۔ اخبارات لوگوں کو موجودہ معاملات سے آگاہ کرنے اور ان کے بارے میں تجسس رکھنے میں مدد کرتے ہیں۔ جب عوام سوال کریں گے، اس کا مطلب ہے کہ وہ آگاہ ہیں۔ اخبارات بالکل یہی کام کرتے ہیں۔ اخبارات لوگوں کو ہر تفصیل فراہم کرتے ہیں چاہے وہ کتنی ہی چھوٹی کیوں نہ ہو۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ اخبارات ہمیں زیادہ با خبر شہری بننے میں مدد دیتے ہیں۔ آج اخبارات کو خود اپنے بارے میں بھی سوچنا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ اخبارات اہم مسائل پر پالیسی سازوں تک رائے عامہ پہنچاتے ہیں۔ اس کے نتیجہ میں لوگوں کو حکومت اور اس کی کارکردگی کا جائزہ لینے میں مدد ملتی ہے۔ اسی طرح اخبارات سے لوگوں کو روزگار کے زبردست مواقع ملتے ہیں۔ نوکری کے خواہشمند افراد روزگار کے قابل اعتماد مواقع جاننے کیلئے اخبارات کی طرف دیکھتے ہیں۔ آج لاکھوں کی تعداد میں اخبارات کے ملازم بیروزگار ہو گئے، اخبارات کو دوسروں کی آواز بننے کے ساتھ ساتھ اپنے اداروں کے بیروزگاروں کیلئے بھی آواز بلند کرنا ہو گی۔ یہ ٹھیک ہے کہ اخبارات مٹی کے مادھو کی خبریں شائع کرکے اسے قومی رہنما بنا دیتے ہیں مگر اخبارات نے اپنے طور پر یہ طے کیا ہوا ہے کہ کسی صحافی کا بیان شائع نہیں کرنا اور کہا جاتا ہے ہاں البتہ اُس کی تین سطریں خبر شائع ہو سکتی ہے ، اُس کے مرنے پر۔ آج جب اخبارات کے مطالعہ کا قومی دن منایا جا رہا ہے تو انقلابی قدم اٹھاتے ہوئے اخبارات کو اپنے اوپر لاگو کی گئی فرسودہ روایات کو ختم کر دینا چاہئے ورنہ جہاں اخبار پڑھنے والے لوگ ختم ہو گئے، وہاں ہم جیسے اخبار دیکھنے والے لوگ بھی باقی نہیں رہیں گے۔