نہایت بے احتیاط‘ بے سلیقہ ‘ نہ کسی سمت کا تعین ہے نہ کوئی بڑی سوچ بس ایک اندھا دھند خواہش کا سیلاب دل و دماغ کو گھیرے میں لئے ہوئے ہے۔ خواہش ہے کہ بالکل بیمار۔ یاسیت کا شکار اور یاسیت اور خواہش مل کر عقل سے دشمنی کر رہی ہیں اسی لئے کوئی صحت مند خیال جنم ہی نہیں لیتا۔ ہر روز نئے خواب نئے ارادے بیمار ذہن اسی طرح کے حالات میں پروان چڑھتے ہیں۔ بیمار ذہن اپنی خواہشات کو اپنی انا کا امام کرتے ہیں۔ اردگرد نہیں دیکھتے، اگر دیکھتے ہیں تو کنکھیوں سے جائزہ لیتے ہیں تاکہ پرامن سہمے وہ کسی محفوظ واردات کا بآسانی سار قانہ شغل کر لیں۔ ماحول میں موافقت ہو تو چور قبیلے کو بہت راحت ہوتی ہے۔ لوٹ مار آسان اور عزت کی پگڑی کا شملہ بھی بلند ہی رہتا ہے۔ گزشتہ دور کیا‘ دور حاضر اور زمانہ مستقبل میں نقب زنوںکا آئین و دستور اپنی جگہ پر مستحکم ہے۔ یہ نظام مستحکم ہے تو ان کے نزدیک حکومت بھی پائیدار اور وطن کی سلامتی بھی محفوظ ہے۔ اگر کہیں ذرا کا شک معلوم ہو تو حکومت بھی اپنی چولوں کی حفاظت میں مشغول اور وطن کی سلامتی پر بھی تشویش۔ ہر حزب اختلاف اپنی کارکردگی کے لحاظ سے اختلال فکری کا دامن نہیں چھوڑتی اور ہر حزب اقتدار اپنی بے جا ضد سے وابستگی کو ترک نہیں کرتی۔ یہ ہماری پارلیمانی سیاست کا پکا ٹھکا اصول جامد ہے۔ پرانی عادت ہے جو اخلاق شرافت کے دائرے سے خارج ہے۔ دونوں گروہ اسی عادت قدیم میں مبتلاہیں کہ اسمبلی سے غیر حاضر رہو ‘ پھر اپنی تمامتر رعایا سے مستفید ہونے کے لئے جعلی مطالبے اور جعلی دعوے اپنے استحقاق کی تفصیل میں بیان کرو۔ پاکستان سے ہمدردی اور پاکستان سے محبت کا دم بھرنے والے سیاست کار کبھی بھی اپنی پاکیزہ دامنی ثابت نہیں کر سکتے کہ غریب مفلوک الحال پاکستانی عوام کے خون پسینے پر پلنے والی اسمبلی کے اراکین اپنا مشاہرہ حلال طریقے سے حاصل کرتے ہیں۔ عوام کی آنکھوں میں خوشحالی کے نام پر بددیانتی کی دھول جھونکنے ولے مذہب کی بالادستی قائم کرنے والے خوش بیان لیڈران کرام اسمبلی میں آ کر اپنے حال خیال اور چال میں بالکل بدل جاتے ہیں۔ یہ کاروباری لوگ الیکشن برائے خوشحالی ذات میں حصہ لیتے ہیں اور پھر قومی مقدر کے فیصلہ گاہ مقام کو جوا منڈی میں تبدیل کرتے ہیں۔ سینٹ کے الیکشن میں لوگ مقام دیانت سے بکے یا اپنے حالات کے پیش نظر بکے یہ ان کا اپنا معاملہ ہے۔ لیکن قوم کی بدبختی یہ ہے کہ ہر دو طرف کے ڈھولچیوں نے قوم کا وقت روپیہ پیسہ ضائع کیا خریدار اور بکائو دونوں کا پیسہ قوم کے نچوڑے ہوئے خون سے برآمد ہوا ہے۔ کشمیر جو بہرحال‘ بہرحال ہماری ملی‘ قومی‘ دینی غیرت کا کڑا امتحان بن چکا ہے۔ ظلم و تشدد کی نئی تاریخ کا سرمایہ ہے پوری انسانی تاریخ میں کہ مسلمان خواتین روزانہ ہندو درندگی کا لقمہ بنتی ہیں۔ کڑیل جوان ظلم و درندگی کا شکار ہو کر کے طوفان میں نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہیں۔ مائوں کی گود اجڑتی ہے۔ ہر طرف یتیمی اوربیوگی کا ہولناک سناٹا ہے۔ بدکردار اور انسانیت سے عاری ہندو نیتا‘ راجہ‘ پرچا سرجوڑ کر کشمیر کو اور اہل کشمیر کو خانہ ویرانی میں پھینکنا چاہتے ہیں۔ وہ ان سے ان کی مذہبی شناخت سلب کرنا چاہتے ہیں۔ ہندو بھیڑے کی پشت پر ایک بین لااقوامی مہا بھیڑیا اسرائیل سوار ہے۔ وجود مودی کا ہے اور دماغ یہودی کا ہے۔ اسرائیلی صلاح کار بھارت میں بیٹھ کر گرگ بازی کا سبق پڑھاتے ہیں اور یہ کشمیر میں اگر دھراتے ہیں۔ یہ تو بیرونی دشمن ہیں۔ اب اندرون وطن کیا ہے ؟ قوم کے مقدرگر ایوان بالا سے مراعات یافتہ اور ایوان زیریں کے مراعات یافتہ بے سدھ ‘ بے خبرنہیں بالکل نہیں۔ دیوانہ بکار خویش ہشیار کا مصداق اپنے گروہی مفادات اور اپنی غیر دانشمندانہ حرکات کے اسیر روز سج بن کر آتے ہیں اور نشہ تقریر میں بولتے ہیں اور قومی مفادات کو بالائے طاق میں زیر پا رکھتے ہیں۔اسمبلی کا پورا سیشن اسی کج بحثی میں صرف ہوتاہے کہ ہم حزب اختلاف والے روزانہ دودھ میں نہایا کرتے تھے ہمارے مخالف ہم پر کیچڑ اچھالتے ہیں۔ دوسری جانب سے جواب آتا ہے یہ پاکیزگی اور سیاسی شرافت و دیانت ہمارے وجود کی زینت ہے تم تو برائی کی علامت ہو۔ یہی روز کا مضمون ہے۔ اسمبلی کی ہر تقریر دسویں جماعت کے بچے کی مباحثانہ مشق نظر آتی ہے۔ کشمیر کے نام پر بلائے جانے والے ہر اجلاس میں اسی طرح کی نئی نوک جھونک ہے مضمون پرانا ہے کچھ چور ادھر ہیں‘ کچھ چور ادھر ادھر ہیں۔ قوم کی بات دین کی بات اور ملک کی بقا کی بات ان چوپال نشینوں کا مسئلہ نہیں ہے۔ مفادات کی حفاظت پر اتفاق ہے۔ وقفے وقفے سے خبر آتی ہے کہ چوپال میں بیٹھے ہوئے مشورہ باز مقدرگروں کی مالی مراعات میں اضافہ کر دیا گیا ہے ان مراعات یافتگان کی اخلاقی پستیاں بہت نشینی ہیں۔ کسی ووٹر سے وعدہ کرتے ہیں کہ تیرے بیٹے کو نوکر کروا دوں گا و وہ بے چارہ اپنی جمع پونجی لیکر حاضر ہوتا ہے کہ حکم فرمائیں کب لاہور کے لئے کجا وہ کسوں؟ اور کب آپ کے ساتھ اسلام آباد کے لئے ہمرکاب ہونگا۔سائیں کا کاردار زیر لب دھیمے انداز میں نعرہ زن ہوتا ہے کہ خرچہ غریباں دا‘ موج سائیاں دی۔ پاکستان کے روپے کی پاکستان کی عزت کی اور پاکستان کے وجود کی قیمت کو عالم کفر کے قدموں میں ڈھیر کرنے والے نام نہاد قومی قسمت باز اپنے مستقبل کو ماضی کے حکمرانوں کے انجام کے آئینے میں ضرور دیکھ لیں اس قوم اور ملک کو اپنے ذوق حریصانہ کی قدر کرنے والے یہ سوچ رکھیں کہ یہاں کئی ابھرے اور ماضی کی ذلت آمیز کہانی کا عنوان گم بن کر فنا کی گھاٹی اتر گئے۔کشمیر جذباتیت میں ہے امت مسلمہ کی فلکی کائنات کا نجم درخشندہ اگر کسی کو احساس نہیں ہے تو کل قیامت کے میدان میں شہدائے کشمیر کی فراموش شدہ ارواح پورے شہیدانہ طمطراق سے حاضر ہونگی اور وہ مصلحت کوش مسلمان حکمرانوں پر شدید الم آمیز استغاثہ دائر کریں گی اور عدالت وحدہ لاشریک میں سب احوال اپنی سچی اور حقیقی گواہیاں پیش کر دیں گے آج کے بے خوف بے پرواہ دنیائے کفر کی ابلیسی طاقتوں سے مرعوب مندرساز مسلمانوں کی قسمت کے فیصلہ ساز زینت تخت حاضر ہونگے اور پھر خدائی عدل کے فیصلے منہ سے بولیں گے۔ او آئی سی ابھی تک بیانات تک محدود ہے کسی خلیجی سفیر نے بیان ارشاد کیا کہ کشمیر پر بھارتی سراجیہ سبھا اور لوک سبھا کے فیصلے بھارت کا اندرونی مسئلہ ہے تو کیا کشمیر پر ابلیسی جارحیت عسکری دھاوا اورزندگی کو موت سے پیمانہ آفنا کرنا بھی بھارت کا اندرونی مسئلہ ہے۔ بے فکرے کی اڑاتا اور پرسکون ایوانوں میں زندگی کو موت کی طرف بڑھانا ان کا اندھا مشغلہ حیات ہے۔فاعتبروا یا اولی الابصار