نالائق اور خود غرض افسروں اور مشیروں سے وزیرِ اعظم کیا چھٹکارا پا سکتے ہیں ؟ بد قسمتی سے اس سوال کا جواب نفی میں ہے ۔ سوچنے سمجھنے والوں کی ذمہ داری بہرحال یہ ہے کہ تضادات کی نشاندہی کرتے رہیں۔اپنی بات دہراتے رہیں۔ اصرار کرتے رہیں، شاید ،شاید! لیڈر کامیاب نہیں ہو سکتا ، اپنے ماتحتوں کی جو رہنمائی نہ فرما سکے۔ خود جوسمجھتا نہ ہو ، دوسروں کو کیسے سمجھائے گا؟ وزیرِ اعظم کو خلقِ خدا مہلت دینا چاہتی ہے تو ظاہر ہے کہ خود خالق بھی ۔ اس لیے کہ آوازِ خلق نقارہء خدا ہوتی ہے ۔ آج اگر سروے کرایا جائے تو غالب امکان ہے کہ عظیم اکثریت کچھ مدت کے لیے کپتان کو گوا را کرنے کا فیصلہ کرے گی ۔ لیڈروں اور دانشوروں کی بات اور ہے ، عوامی دانش حقیقت پسند ہوتی ہے ۔ اقتدار سونپے تو انتظار کرتی ہے ۔عربوں کا محاورہ یہ ہے ’’ لکل فن رجال۔‘‘ تیرہ ماہی اقتدار میں عمران خان نے ثابت کیا ہے کہ وہ کاروبارِ حکومت کو سمجھتے ہیں ، سیاست اور نہ معیشت کو ۔ پے درپے انہوں نے غلط فیصلے کیے ۔ اس کے باوجود مہلت باقی ہے کہ یہ قدرت کے دائمی اور ابدی قوانین میں سے ایک ہے ۔ پچھلی حکومتوں پہ عمران خان کے الزامات سو فیصد درست بھی ہوں تو یہ سوال اپنی جگہ کہ خود اس نے کیا کیا ۔ایک کروڑ ملازمتیں ، پچاس لاکھ مکان اور دو گنا ٹیکس وصولی ، کیسے کیسے عظیم دعوے اس نے کیے تھے ۔اپنے ذہن میں خیالات کی ایک جنت اس نے بسا لی تھی اور اس کے سحر زدہ فدائین نے بھی۔ان دنوں کو بھول جائیے۔ سوال یہ ہے کہ ٹیکس وصولی کے سوا کسی ایک شعبے میں بھی آغازِ کار کیوں نہ ہو سکا۔ ٹیکسوں کی آمدن بڑھی ہے اور وہ بھی اس قیمت پر کہ کاروباربند پڑے ہیں ۔ مارکیٹوں میں مندی ہے اور ایسی مندی کہ امید کی کرن دور دور تک نظر نہیں آتی ۔ پچاس لاکھ مکان تو رہے ایک طرف، ایک چھوٹا سا فلیٹ بھی تعمیر نہیں کیا جا سکا ۔ روزگار میں اضافہ کیا ، سات سے دس لاکھ نوکریاں جا چکیں اور لاکھوں مزید خطرے میں ۔ پی ٹی آئی کا کوئی لیڈر یا کارکن جھنجھلا کر کہے گا کہ آصف علی زرداری کے پہلے سال میں شرح نمو 0.4فیصد تھی ۔ عمران خان اس سے چھ گنا بہتر ہیں ۔2009ء میں افراطِ زر تیرہ تھی ، اب گیارہ فیصد ہے ۔ بجا ارشاد ، مگر آصف علی زرداری کا ایجنڈا تو صرف یہ تھا کہ برق رفتاری سے اربوں ڈالر کما کر دنیا کے امیر ترین لوگوں میں شامل ہو جائیں ۔ خلقِ خدا سے کوئی غرض انہیں کل تھی اور نہ آج ہے ۔ اربوں ڈالر کما لیے ، نتیجہ مگر یہ نکلا کہ آج وہ بدنام ترین سیاستدانوں میں سے ایک ہیں ۔ ساری دنیا میں کرپشن کا استعارہ۔ صرف 2009ء میں عالمی پریس میں 900مضامین ان کے کارناموں پر لکھے گئے ۔ شوکت خانم ہسپتال اور نمل کالج کے معمار کا ایجنڈا تو مختلف ہے ۔ ابھی ابھی ایک بیچارے افسر سے بات ہوئی ۔ایک طاقتور سرکاری خاندان کے کارندوں نے جس سے بدتمیزی کی ۔ کہاکہ صبر کااس نے فیصلہ کیا ہے ۔؎۔ با ایں ہمہ اس کا کہنا یہ تھا کہ کتنی ہی کوتاہیاں سرزد ہوئی ہوں ، حکومتِ وقت کے طرزِ احساس میں نیک نیتی محسوس ہوتی ہے ؛چنانچہ انتظار کرنا چاہئیے ۔ آج نہیں تو کل ، اچھے دن ضرور آئیں گے ۔ انشاء اللہ اچھے دن ضرور آئیں گے ۔ اس لیے نہیں کہ امیدیں عمران خان سے وابستہ ہیں بلکہ اس لیے کہ پاکستان ایک منور تقدیر رکھتا ہے اور اس لیے کہ اللہ کی رحمت سے کبھی مایوس نہیں ہونا چاہئیے ۔ معالج کو امراض کا ادراک بہرحال نہیں ۔ آنے والے کل میں بھی امکان کم ہے ، بہت ہی کم ۔ سرکاری افسروں کی مرتب کردہ ایک خاموش دستاویز اخبار نویسوں تک پہنچی ہے ۔ اصطلاحاً اسے non paperکہا جاتاہے ۔ خود تحریر لکھنے والے بھی جسے قبول نہیں کیا کرتے ۔ چونکا دینے والی یہ عبارت ایک بنیادی سوال سے بحث کرتی ہے :افسر شاہی خوفزدہ کیوں ہے ؟ ’’افسر شاہی کا اعتماد بحال کرنے کی خواہش کے ہنگام حکومت نے ایک بنیادی بات بھلا دی : ایک دیانت دار آدمی زیادہ خوفزدہ کس بات سے ہوتاہے ؟ گرفتار ہونے اور مجرم کی طرح پریڈ کرائے جانے سے ۔اہم بات یہ نہیں رہتی کہ جرم قابلِ دست اندازی تھا یا نہیں ۔ اس لیے کہ جب تعین ہوتاہے ، تماشا آگے بڑھ چکا ہوتاہے ۔ پیچھے ایک دل شکستہ انسان رہ جاتا ہے ، تار تار ساکھ کے ساتھ ۔وہ معطل ہو چکا ہوتاہے ۔ تنخواہ بند اور بھاری فیس کے نیچے دبا ہوا ۔ کوئی بھی ہوشمند ایسے میں کیا کرے گا ؟ بتیاں بجھا کر خاموشی سے بیٹھ جائے گا۔‘‘ اعتراض یہ ہے کہ افسروں کا اعتماد بحال کرنے کے لیے حکومت نے توجہ دی مگر تاخیر سے ۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ قانون کے تحت محکمانہ کارروائی سے پہلے کسی دوسرے کو دخل اندازی کا حق نہیں مگر نیب کے چئیرمین کو صوابدیدی اختیارات حاصل ہیں ۔ جب چاہیں ، جسے چاہیں ، گرفتار کر سکتے ہیں ۔ یہ قانون کی صریح خلاف ورزی ہے ۔ احتساب بجا مگر طریق ایسا ہونا چاہئیے کہ کسی بے گناہ کی عزت پہ حرف نہ آئے۔ اب تک جو افسر پکڑے گئے، ان میں سے کسی ایک کے خلاف بھی عدالت نے فیصلہ صادر نہیں کیا ۔ یہ آخری نکتہ اور بھی الجھا دینے والا ہے ۔ نیب والوںسے بات کی جائے تو وہ یہ کہتے ہیں کہ عدالتوں کا طرزِ عمل ان کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔ پانی یہیں مرتا ہے ۔ اگرتفتیش اور فیصلہ صادر کرنے والے سہل کوش یا بے نیاز ہوں تو نتیجہ خرابی کے سوا کیا ہوگا ۔ ایک ایسے معاشرے کی اصلاح کے لیے ، جہاں آوے کا آوا ہی بگڑا ہے ۔ جہاں ایک کے بعد من مانی کرنے والا دوسرا حکمران بروئے کار آتا رہا ، اتنی پیچیدگیاں ہیں کہ مرض مزمن ہو چکا ۔ایسے میں فقط علاج نہیں ، ایک جامع منصوبہ درکار ہوتا ہے ۔ذہنی ریاضت سے گریز کرنے والے وزیرِ اعظم اس کی اہلیت نہیں رکھتے ۔ اگر ایک مریض بیک وقت شوگر ، ہائی بلڈ پریشر اور دل کے امراض لاحق ہوں ۔۔۔ اور اس کے نتیجے میں ہمت توڑ دینے والی نقاہت بھی؟تب یہ طے کیا جاتاہے کہ سب سے پہلے کس مرض کا علاج کیا جائے ۔ دل سنبھالا جائے یا ذیابیطس اور بلند فشارِ خون ۔ عمران خان کے بہترین دوستوں میں سے ایک نے اسے یہ بات سمجھانے کی کوشش کی ۔ کہاکہ ایک ہی وقت میں سب کام نہیں ہو سکتے ۔ ترجیحات کا تعین چاہئیے ۔ مشورہ دینے والا وہ ہے ، جس کی دیانت اور اہلیت مسلّم ہے ۔ افسر شاہی کو وہ سمجھتا ہے ۔ پولیس اور انٹیلی جنس کے بلند ترین مناصب پر فائز رہا ۔ بڑے بڑے قومی بحرانوں میں حکومتِ وقت اور سپریم کورٹ نے اس پہ اظہارِ اعتماد کیا اور عالمی اداروں نے بھی۔ ان نادر و نایاب لوگوں میں سے ایک، جن کے بارے میں اورنگزیب عالمگیر نے کہا تھا : سونے کے بنے ہوئے لوگ، جن کے بل پر سلطنتیں چلائی جاتی ہیں ۔ ایک سے زیادہ بار وزیرِ اعظم نے اہم مناصب کی اسے پیشکش کی۔ ہر بار اس نے معذرت کر لی ۔ انہی وجوہات کی بنا پر، عام لوگ بھی ، جن کا اب ادراک کر چکے ۔وزیر ِ اعظم بدترین مشیروںاور وزیروں میں گھرے ہیں ۔ ہوائیں ان کی، فضائیں ان کی ، سمند ر ان کے، جہاز ان کے گرہ بھنور کی کھلے تو کیونکر ،بھنور ہے تقدیر کا بہانہ نالائق اور خود غرض افسروں اور مشیروں سے وزیرِ اعظم کیا چھٹکارا پا سکتے ہیں ؟ بد قسمتی سے اس سوال کا جواب نفی میں ہے ۔ سوچنے سمجھنے والوں کی ذمہ داری بہرحال یہ ہے کہ تضادات کی نشاندہی کرتے رہیں۔اپنی بات دہراتے رہیں۔ اصرار کرتے رہیں، شاید ،شاید!