پچھلے ہفتے خبر آئی کہ پنجاب میں کرتار پور گوردوارہ کے درشن کی خاطر سکھ عقیدتمندوں کیلئے ایک راہداری کی منظوری کے بعد اب پاکستانی حکومت جموں و کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے پاس ہندو زائرین کیلئے شاردا پیٹھ جانے کیلئے بھی ایک کوریڈور کھولنے پر غور کر رہی ہے۔ اس کے مضمرات کا جائزہ لئے بغیر حد متارکہ کے دونوں اطراف خصوصاً آزاد کشمیرمیں اپنی روشن خیالی ثابت کروانے والے کئی احباب کی باچھیں کھل گئیں۔ نئی دہلی اور اسلام آباد میں بھی ماحول خاصا گرم ہوا۔ کہیں یہ کریڈٹ بھی پاکستان کے کھاتے میں نہ چلا جائے، بھارتی وزارت خارجہ نے ذرائع کے حوالے سے بیان داغا کہ کرتار پور اور شاردا کو زائرین کیلئے کھولنے کی تجویز تو بھارت نے کئی دہائی قبل پیش کی تھی، مگر اسلام آباد ہی پس و پیش کر رہا تھا۔کرتار پورسکھو ں کیلئے ایک مقدس مقام ہے۔ مگر پچھلے ایک ماہ سے بھارتی وفد مذاکرات میں اصرار کر رہا تھا کہ چونکہ بھارت ایک سیکولر ملک ہے اور مذہبوں میں تفریق نہیں کر سکتا ہے، اسلئے کرتار پور گوردوارہ جانے کیلئے سبھی بھارتی شہریوں کر راہداری ملنی چاہئے۔ آخری اطلاعات کے مطابق پاکستان وفد نے اس شرط کو منظور کرلیا ہے۔ اب ان سے کون پوچھتا کہ آخر کیرالا میں گورو وہار، اڑیسہ میں جگن ناتھ، اتر پردیش میں کاشی وشواناتھ جیسے ان گنت مندروں میں پھر غیر ہندوں کا داخلہ کیوں ممنوع ہے؟اسی طرح بھارتی وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ جب شاردا پر بات چیت کا عمل شروع ہوجائیگا، تو نہ صرف جموں و کشمیر کے باشندوں یعنی کشمیری پنڈتوں، بلکہ سبھی بھارتی شہریوں کیلئے راہداری کھلنی چاہئے اور وہ اس پر اصرار کریں گے۔ مجھے یاد ہے کہ چند برس قبل ہندو قوم پرستوںکی مربی تنظیم راشٹریہ سیویم سنگھ(آر ایس ایس) کی ایک شاخ کی طرف سے دہلی اور جموں میں ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا، جس میں آزاد کشمیر کے کسی فارسٹ کنزویٹر رئیس احمدکی طرف سے بذریعہ ڈاک ارسال کی گئی شاردا پیٹھ مند ر کی مٹی کی پوجا کی گئی اور اس موقعہ پر کشمیریوں اور پاکستان کے خلاف گرما گرم تقریریں بھی ہوئیں۔مقررین نے لائن آف کنٹرول کو کھولنے کی مانگ کی، تاکہ بھارت سے ہندو زائرین جوق در جوق اس مندر کی زیارت کر سکیں۔مظفر آباد سے 270کلومیٹر دور شمال میں اٹھ مقام اور دودنیال کے درمیان، شاردا کھنڈرات، کشمیر کی قدیم تہذیب اور علم و فن کے گواہ ہیں۔ بدھ مت کی عظیم دانشگاہوں نالندہ اور ٹیکسلا کی طرح شاردا بھی ایک قدیم علمی مرکز تھا ۔ نیلم اور مدھومتی کے سنگم پر واقع ان یادگاروں کو صرف ایک مندر یا عبادت گاہ کے طور پر فروغ دینا ، تاریخ اور اس دا نشگاہ کے ساتھ انتہائی زیادتی ہوگی۔ چارلس الیسن بیٹس نے 1872ء میں جب گزٹ آف کشمیر ترتیب دیا، تو اس مقام پر ایک قلعہ کی موجودگی کا ذکر کیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ قلعہ سے 400گز کی دوری پر ایک مندر کے کھنڈرات اسکو ملے۔ بیٹس اور والٹر لارنس ، جنہوں کے کشمیر کے قریہ قریہ گھو م کر معمولی واقعات تک قلم بند کئے ہیں، کہیں بھی شاردا مندر کی یاترا کا ذکر نہیں کیا ہے۔ بھارت میں ہندو قوم پرست آرایس ایس کی طرح پاکستان میں بھی آجکل تاریخ کو توڑ مروڑ کر از سر نو لکھنے کی دوڑ لگی ہے۔ بھارت میں یہ کام ہندو انتہا پسندوں کا خاصہ ہے، پاکستان میں یہ کام وہ افراد کررہے ہیں ، جن کو اپنے آپ کو اعتدال پسند اور روشن خیال کہلوانے کا خبط ہے۔ ان افراد کا کہنا ہے کہ 1947ء سے قبل اس امر ناتھ کی طرز پر اس علاقہ میں بھی ہندو یاترا ہوتی تھی۔ اگر ایسا ہوتا تو لارنس اور بیٹس کے گزٹ میں اسکا ضرور ذکر ہوتا۔ 1372ء میں میر سید علی ہمدانی کے آمد تک کشمیر میں وقتاً فوقتاً بدھ مت اور ہندو شیوازم کے درمیان انتہائی کشیدگی جاری تھی۔ ایک دوسرے کی عبادت گاہوں کو مسمار کرنا ایک طرح سے معمول تھا۔ شاید اسلام کو جس طرح اس خطے میں عوامی پذیرائی ملی، اسکی ایک وجہ یہ بھی تھی۔ کشمیر میں 1260ء قبل مسیح میں سریندرا پہلا بدھ بادشاہ تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ بدھ بھکشووٗں نے ہی زعفران کی کاشت کو متعارف کروایا۔ 232قبل مسیح اشوکا کی حکومت کے خاتمہ کے بعد راجہ جالو نے ہندو شیوا زم قبول کیا اور بدھ مت پر ایک قیامت ٹوٹ پڑی۔ بدھ اسٹوپوں، وہاروں کو تاراج کیا گیا۔ بدھ مت کی دانشگاہوں پر شیو مندر بنائے گئے۔ 63 ء میں دوبارہ بدھ مت کو عروج حاصل ہوا۔ راجہ کنشک کے عہد میں بارہمولہ کے کانس پورہ میں چوتھی بدھ کونسل منعقد ہوئی اور بدھ مت کے ایک لبرل مہایانہ فرقہ کی بنیاد ڈالی گئی، جو چین اور کوریا میں فی الوقت رائج ہے۔ ساتویں صدی میں چینی سیاح و بھکشو ہیون سانگ جب دورہ پر آیا تو اسکے مطابق سرینگر سے وادی نیلم کے علاقہ میں سو بدھ عبادت گاہیںاور پانچ ہزار بھکشو موجود تھے۔ بد ھ مت کو چیلنج دینے کیلئے آٹھویں صدی میں کیرالا کے ایک ہندو برہمن آدی شنکر نے بیڑا اٹھایا۔ پورے خطہ میں گھوم پھر کر اس نے ہندو ازم کا احیا ء کرایا۔ جہاں اسنے بدھ بھکشو وں کے ساتھ مکالمہ کرکے انکو ہرایا، وہاں اس نے شاردا یعنی علم کی دیوی کے نام پر مندر تعمیر کروائے، جن میں سب سے بڑا مندر کرناٹک میں دریائے تنگ کے کنارے سرنگری میں واقع ہے۔ بدھ مت کے خلاف اپنی مہم کے طور پر اور ہندو سناتن دھرم کے احیاء کیلئے وادی نیلم میں بھی بدھ دانش گاہ کے ساتھ اسنے ایک مندر قائم کروایا۔ گو کہ اس علاقہ کو ہندو زائرین کیلئے کھولنے اور انہیں اپنے مذہب کے مطابق عباد ت کرنے کا موقع فراہم کرنے میں کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔ مگر جو لوگ اس کی وکالت کرتے ہیں، انہیں چند منٹ جنوبی کشمیر میں امرناتھ اور شمالی بھارت کے صوبہ اترا کھنڈ کے چار مقدس مذہبی مقامات بدری ناتھ ،کیدارناتھ، گنگوتری اوریمنوتری کی مذہبی یاترا کو سیاست اور معیشت کے ساتھ جوڑنے کے مضمرات پر بھی غور کرنا چاہئے۔ایک دہائی قبل تک امرناتھ یاترا میں محدودتعداد میں لوگ شریک ہوتے تھے لیکن اب ہندو قوم پرستوں کی طرف سے چلائی گئی مہم کے نتیجے میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ آتے ہیں۔ سال بہ سال ان کی تعداد میں اضافہ ہورہاہے۔اور اس کی یاتراکو فروغ دینے کے پیچھے کشمیر کو ہندوئوں کیلئے ایک مذہبی علامت کے طور پر بھی ابھار نا ہے، تاکہ بھارت کے دعویٰ کو مزید مستحکم بناکر جواز پیدا کرایا جاسکے۔بھارت کے موجودہ قومی سلامتی مشیر اجیت دوبال تو کشمیر کو سیاسی مسئلہ کے بجائے تہذیبی جنگ قرار دیتے ہیں اور ان کے مطابق اس مسئلہ کا حل ہی تہذیبی جارحیت اور اس علاقہ میں ہندو ازم کے احیاء میں مضمر ہے۔ ایک باضابطہ منصوبہ کے تحت کشمیر کی پچھلی 647سال کی مسلم تاریخ کو ایک تاریک دور کے بطور پیش کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں کشمیری زبان کے اسکرپٹ کو فارسی سے دوبارہ قدیمی شاردا میں تبدیل کرنے کی تیاریا ں ہو رہی ہیں۔ اب ان سے کوئی پوچھے اگر کشمیری کا اسکرپٹ واپس شاردا میں لانا ہے تو سنسکرت اور دیگر زبانوں کا اسکرپٹ بھی تبدیل کرو۔ (جاری ہے)