چاہئے تو یہ تھا کہ آج جب مقبوضہ کشمیر میں بھوکے پیاسے کشمیری اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر کرفیو توڑتے ہوئے باہر نکلتے تو اس وقت کراچی تا خیبر اور اسلام آباد تک مظفر آباد ان سے اظہار یکجہتی کے لئے ساری پاکستانی قوم سڑکوں پر ہوتی۔ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ ہندوستان کے ساتھ کشیدگی بڑھ رہی ہے۔عمران خان نے امریکی صدر ٹرمپ کو بھی خبردار کیا ہے کہ دو ایٹمی طاقتیں آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ہوئے آمنے سامنے کھڑی ہیں اور کسی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اس سے پہلے آرمی چیف دو ٹوک الفاظ میں یہ کہہ چکے ہیں کہ ہم اپنے کشمیری بھائیوں کو ظلم سے نجات دلانے کے لئے کسی حد تک بھی جا سکتے ہیں۔ اگر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی ڈھٹائی میں آخری حد تک جا چکے ہیں اور راہ راست پر آنے کو آمادہ نہیں اور دو ایٹمی قوتوں کے ٹکرانے کا خطرہ پیدا ہو چکا ہے تو پھر حیرت کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے حکمرانوں نے اپنی قوم کو ابھی تک لاتعلق کیوں رکھا ہوا ہے۔ امریکہ میں نکالی جانے بڑی بڑی ریلیوں میں پاکستانیوں‘ کشمیریوں ‘ بھارتی مسلمانوں سکھوں عربوں حتیٰ کہ امریکیوں تک نے شرکت کی اور بھارتی اقدامات کی پر زور مذمت کی۔ اسی طرح یورپ کے بھی بہت سے شہروں میں زبردست احتجاج ہوا۔ امریکہ سے کئی نوجوانوں نے مجھ سے رابطہ کیا اور حیرت سے پوچھا کہ پاکستان میں ہمیں کوئی جوش و خروش دیکھنے میں نہیں آ رہا کہیں مدعی سست اور گواہ چست والا معاملہ تو نہیں۔ فی الحقیقت یہ معاملہ انتہائی حیرتناک بلکہ تشویش ناک ہے کہ حکومت ایک طرف طبل جنگ بجتا ہوا دیکھ رہی ہے اور دوسری طرف عوام کو ممکنہ جنگ کے لئے تیار نہیں کر رہی۔ حکومت نے عملی اقدامات صرف سفارتی دائرہ کار تک محدود کر رکھے ہیں ۔ اپوزیشن حیران کن حد تک خاموش ہے۔ مولانا فضل الرحمن کی آل پارٹیز کانفرنس کے بارے میں گماں کیا جا رہا تھا کہ وہ سیاسی دھرنوں کی باتیں چھوڑ کر مسئلہ کشمیر کو اپنی اولین ترجیح قرار دیں گے۔ سب سے زیادہ حیران کن بلکہ پریشان کن بات یہ ہے کہ پاکستان میں آزادی کشمیر کی سب سے بڑی سٹیک ہولڈر جماعت اسلامی ایک محدود سے دائرے میں مسئلہ کشمیر اجاگر تو کر رہی ہے مگر اس نے بھی قومی ریلی کے لئے کوئی کال نہیں دی۔ ابھی تک پاکستانی عوام نے من حیث القوم بڑے پیمانے پر اپنے کشمیری بھائیوں سے اظہار یکجہتی نہیں کیا۔ اگرچہ مغربی حکومتوں کا ضمیر تو نہیں جاگا اور نہ ہی انہوں نے اپنی دوغلی پالیسی میں کوئی تبدیلی پیدا کی ہے۔ تاہم مغربی میڈیا بالخصوص امریکی چینلز و اخبارات اور انسانی حقوق کی تنظیمیں بھارت کی انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی پامالی کی کھل کر مذمت کر رہے ہیں۔ گزشتہ جمعے کو سلامتی کونسل کے مشاورتی اجلاس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس مشاورتی اجلاس میں بات چیت کرنے پر اتفاق ہوا مگر ایکشن کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا جبکہ مقبوضہ کشمیر میں جس طرح ایک کروڑ کشمیریوں کو ان کے انسانی حقوق سے محروم کر کے انہیںمقید کر دیا گیا ہے اس پر تو سلامتی کونسل کو فوری ایکشن لینا چاہیے۔ امریکہ کے تمام ممتاز اخبارات و جرائد نے بھارت کی دستور شکنی اور انسانی حقوق کی پامالی پر جلی حروف میں خبریں اور مضامین شائع کئے تاہم واشنگٹن پوسٹ اس معاملے پرسبقت لے گیا۔ اپنی ایک تازہ رپورٹ میں اخبار نے لکھا کہ سری نگر کی وہ سڑکیں شہریوں سے خالی مگر خاکی وردی والے فوجیوں سے بھری ہوئی دکھائی دیتی ہیں ۔ جناب رشید احمد ترابی آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی میں جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر ہیں۔ وہ جماعت اسلامی کے ممتاز رہنما بھی ہیں۔ میں نے گزشتہ شب ان سے ٹیلی فون پر تفصیلی بات کی اور ان سے مقبوضہ کشمیر کی صورت حال کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے گلوگیر لہجے میں بتایا کہ سری نگر اور ملحقہ علاقوں میں انسانی ٹریجڈی شدت اختیار کر چکی ہے۔ خوراک تقریباً ختم ہے‘ سب سے تشویشناک مسئلہ دوائوں کی عدم دستیابی ہے۔ مریضوں اور خاص طور پر ڈیلیوری کے لئے خواتین کو ہسپتال لے جانے میں ناقابل عبور رکاوٹیں حائل ہیں۔انہوں نے بتایا کہ فوجی دندناتے بندوقوں کے زور پر گھروں میں گھس جاتے ہیں اور نوجوانوں کو پکڑ کر لے جاتے ہیں حتیٰ کہ دس دس اور گیارہ گیارہ سال کے بچوں کو بھی گرفتار کر کے لے جاتے ہیں پکڑے جانے والوں میں حریت کانفرنس سے وابستگان ہی نہیں بلکہ ڈاکٹر‘ ٹیچرز اور دیگر سرکاری ملازمین بھی شامل ہیں۔ بنک بند‘ دفاتر بند کاروبار اور دکانیں بند سکول اور کالج بند ترابی صاحب نے فکر انگیز لہجے میں کہا کہ غیروں کو تو ہم صرف انسانی حقوق کا واسطہ دے سکتے ہیں مگر ہمارے عرب اور مسلمان بھائیوں کی غیرت ایمانی کہاں ہے؟ ان کا جذبہ دینی کہاں ہے؟ ان کا رشتہ اسلامی کہاں ہیں؟ جہاں تک اہل پاکستان اور اہل کشمیر کا تعلق ہے جب دنیا میں کسی مسلمان کو کانٹا بھی چبھتا ہے تو ہم تڑپ اٹھتے ہیں اور اپنی جانیں قربان کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ عرب فلسطین کو چھوڑ کر اسرائیل کے ساتھ محبت کی پینگیں بڑھا رہے مگر پاکستانی ابھی تک اہل فلسطین کے ساتھ دینی اخوت اور محبت کا رشتہ استوار رکھے ہوئے ہیں۔ اس وقت آزادی کشمیر کی جدوجہد جس موڑ پر آ گئی ہے اور مقبوضہ کشمیر میں ایک کروڑ انسانوں کے حقوق کی پامالی جس بھیانک درجے کوچھو رہی ہے اور گجرات کے قصاب مودی کی ڈھٹائی جس شدت پر پہنچی ہے، اس کا ہمارے پاس صرف اور صرف ایک ہی توڑ ہے اور وہ ہے سوفیصد قومی یکجہتی۔ اگر ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلائو کے لئے 20صدی کا عظیم برطانوی فلاسفر رائٹر اور مصلح برٹرینڈرسل سڑکوں پر ریلیوں کی قیادت کر سکتا ہے اور اسی طرح بیسویں صدی کا فرانسیسی فلاسفر ‘ناول نگار اور دانشور ژاں پال تارتر جرمنی کی قید سے رہائی پانے کے بعد نازی ازم کے خاتمے کے لئے فرانس میں تحریک مزاحمت کی قیادت کر سکتا ہے تو آج آزادی کشمیر اور اپنی شہ رگ کے تحفظ کے لئے بڑے بڑے پاکستانی فلاسفر ‘ دانشور شاعر صحافی اینکر اور کالم نگار اپنی قوم کے ساتھ مل کر کشمیریوں کے لئے اظہار یکجہتی کیوں نہیں کر سکتے۔ گزشتہ روز پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے سکردو میں کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے ایک پرجوش تقریر کی اور مودی کو کشمیریوں کا قاتل قرار دیا۔ بہت اچھا ہوتا کہ اس موقع پر بلاول داخلی سیاست کا کوئی حوالہ نہ دیتے ہماری تاریخ بتاتی ہے کہ 1965ء میں قومی یکجہتی کے لئے اس وقت کے حکمران ایوب خان نے پرانی تلخیاں بھلا کر ساری قوم کو اکٹھا کیا اور کشمیر کے محاذ پر جذبہ جہاد بلند کرنے کے لئے ریڈیو کامحاذ بانی جماعت اسلامی مولانا مودودی کے سپرد کر دیا۔ اسی طرح ذوالفقار علی بھٹو 1972ء میں حزب اختلاف کی ساری جماعتوں کی اشیر باد لے کر قیدیوں کی رہائی کے لئے ہندوستان گئے اور اندرا گاندھی سے کامیاب مذاکرات کئے۔ قوم کی بھر پور شمولیت کے بغیر نہ کوئی جنگ لڑی جا سکتی ہے اور نہ کوئی تحریک آزادی چلائی جا سکتی ہے۔ اگر ایسا ہے تو حکومت کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے ساری قوم کو کال کیوں نہیں دیتی؟ ساری دنیا پاکستانی قوم کی طرف دیکھ رہی ہے۔ سابقہ حکمرانوں کی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے عمران خاں صدق دل کے ساتھ حزب اختلاف کے قائدین کو ولولہ انگیز قومی اتحاد کے لئے دعوت دیں اور سارے سیاست دان رضا کارانہ طور پر کچھ مدت کے لئے داخلی سیاست کی تلخیوں کو ترک کر دیں، تمام سیاست دان مل کر ساری قوم کو کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کے لئے عظیم الشان ریلی کی کال دیں اور مودی کو پیغام دیں کہ ہمارے سیاسی اختلافات اپنی جگہ مگر آزادی کشمیر کے لئے ہم سب ایک ہیں۔