دادا بھائی نوروجی پارسی مذہب سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ انیسویں صدی کے اواخر میں برطانیہ میں مقیم تھے اور لبرل پارٹی سے وابستہ تھے۔ دادا بھائی لندن یونیورسٹی کالج میں گجراتی زبان کے استاد، ممتاز تاجر، متوازن دانشور اور انڈیا کے پہلے پہلے سیاست دان تھے۔ وہ برطانیہ کی ایک سیاسی و سماجی شخصیت کی حیثیت سے نہ صرف جانے اور پہچانے جاتے تھے بلکہ برطانوی سوسائٹی میں ان کا احترام بھی پایا جاتا تھا۔ جب دادا بھائی نورو جی نے 1892ء میں لبرل پارٹی کے ٹکٹ پر سنٹرل فنس بری اسکاٹ لینڈ سے انتخاب لڑنے کا اعلان کیا تو لارڈ سالسبری سے ایک حماقت سرزد ہو گئی۔ لارڈ سالسبری برطانوی سیاست کے اوجِ کمال پر فائز رہے۔ وہ تین مرتبہ کنزرویٹو پارٹی کی طرف سے برطانیہ کے وزیر اعظم منتخب ہوئے اور وہ ایک ممتاز سیاست دان کی شہرت رکھتے تھے۔ لارڈ سالسبری نے ایڈنبرا میں ایک مجمع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس میں شک نہیں کہ انسانیت نے بلندی کی کئی منازل طے کر لی ہیں اور برطانوی سیاست بھی بڑی حد تک تعصبات سے آزاد ہو چکی ہے مگر ایسا بھی نہیں کہ ہم اتنے آزاد خیال ہو چکے ہیں کہ ہم ایک سیاہ فام بھارتی کو برطانوی پارلیمنٹ کا ممبر منتخب کر لیں۔ سالسبری کا یہ کہنا تھا کہ مجمعے سے شیم شیم کی آوازیں بلند ہونا شروع ہو گئیں اور سامعین نے رنگ و نسل کے اس تعصب پر شدید ردّعمل کا اظہار کیا۔ یہ وہ نقطۂ آغاز تھا جو برطانوی پارلیمنٹ میں پہلے انڈین رکن کے منتخب ہونے کی راہ ہموار کر گیا۔ جنوری 1892ء میں قائد اعظم محمد علی جناحؒ حصول تعلیم کے لیے انگلستان پہنچے تھے۔ ذرا اندازہ کیجئے کہ صرف 16برس کی عمر، اسو قت تک تو نوجوان سن شعور کو نہیں پہنچتے مگر محمد علی جناح کا سیاسی شعور بھی بیدار ہو چکا تھا۔ وہ کراچی سے تو چلے تھے تجارت اور شپنگ وغیرہ کی تعلیم کے لیے مگر پہنچ کر انہوں نے قانون کی تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان دنوں انگلستان میں مقیم نوجوان انڈین طلباء دادا بھائی کے قومی رویے اور انڈیا کی آزادی کے لیے ان کے خیالات سے بہت متاثر تھے۔ قائد اعظم محمد علی جناحؒ بھی دادا بھائی سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور انہوں نے بھی دادا بھائی کی انتخابی مہم میں مقدور بھر حصہ لیا۔ دادا بھائی نوروجی کہ جنہیں لارڈ سالسبری نے سیاہ فام کہا تھا دیکھنے میں گورے لگتے تھے اور سفید داڑھی اور سیاہ ٹوپی کے ساتھ ایک وجیہہ شخصیت تھے۔ دیکھتے دیکھتے وہ ایک ہیرو بن گئے۔ ان کی انتخابی مہم کا سب سے اہم نکتہ برطانوی خواتین کے حقوق کا تحفظ تھا۔ اس لیے فنس بری اسکاٹ لینڈ کی خواتین نے ان کی انتخابی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور انہیں ووٹ بھی دیئے۔ اس زمانے کی مشہور برطانوی خواتین میں فلورنس نائٹ اینگیل شہرت کی بلندی پر متمکن تھی۔ فلورنس نے بڑے پر جوش انداز میں دادا بھائی کی یہ لکھ کر حمایت کی کہ سنٹرل فنس بری کے لیے آپ لبرل پارٹی کی طرف سے حسنِ انتخاب ہیں۔ آپ کی حمایت کی جانی چاہیے۔ بھرپور انتخابی مہم کے نتیجے میں دادا بھائی کو برطانوی پارلیمنٹ کے پہلے انڈین ممبر منتخب ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ سرسری تو دادا بھائی کے بارے میں کئی بار پڑھا مگر مجھے یہی تجسس تھا کہ معلوم کروں کہ وہ کیسی شخصیت تھے کہ جن سے قائد اعظم محمد علی جناحؒ اوائل شباب میں اتنے متاثر ہوئے کہ وہ کچھ عرصے تک دادا بھائی کے سیکرٹری کے طور پر بھی کام کرتے رہے۔ قائد اعظم اپنی جوانی میں جن دو غیر مسلم ہندوستانی شخصیات سے متاثر ہوئے ان میں سے ایک لندن میں مقیم دادا بھائی نوروجی تھے اور دوسرے ممبئی کے ہندو برہمن سیاست دان جی کے گوکھلا تھے۔دونوں سیاست دان آزادی، مساوات اور عدل و انصاف کے لیے سچے اور مخلصانہ خیالات و جذبات رکھتے تھے اور عملاً افکار کی سربلندی کے لیے کوشاں بھی تھے۔ دادا بھائی نوروجی نے اے او ہیوم کے ساتھ مل کر 1885ء میں آل انڈیا کانگریس کی بنیاد رکھی۔ 1886ء میں آل انڈیا کانگریس کے صدر منتخب ہوئے اس کے بعد بھی وہ دوبار کانگریس کے صدر کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ ان کی وجہ سے ہی قائد اعظم محمد علی جناح نے آل انڈیا کانگریس میں شمولیت اختیار کی تھی اور وہ ہندو مسلم اتحاد کے لیے کوشش کرتے رہے مگر جواہر لعل نہرو اور پٹیل جیسے ہندو لیڈروں کی بنا پر قائد اعظم اس نتیجے پر پہنچے کہ ہندو رہنما مسلمانوں کو ان کے حقوق دینے میں ہرگز مخلص نہیں۔ اس لیے جب علامہ اقبالؒ نے دو قومی نظریہ پیش کیا اور مسلمانانِ ہند کے لیے ایک علیحدہ ریاست کا تصور دیا تو قائد اعظم بالآخر علامہ کی رائے کے ساتھ دل و جان سے متفق ہو گئے۔ قدرت لالے کی حنا بندی کے لیے محمد علی جناح کو انگلستان لے گئی تھی۔ جب دادا بھائی نوروجی نے 19اگست 1892ء کے روز برطانوی پارلیمنٹ میں اپنی پہلی تقریر کی تو اس وقت نوجوان محمد علی جناح مہمانوں کی گیلری میں موجود تھے اور ہمہ تن گوش تھے۔ دادا بھائی نے کہا اس پارلیمنٹ میں ایک انڈین کا ممبر منتخب ہونا اس پارلیمنٹ کی سو سالہ تاریخ کا انوکھا واقعہ ہے۔ اسی پارلیمنٹ نے ایک صدی پہلے فیصلہ کیا تھا کہ ہندوستان میں بھی برطانوی طرز پر آزادی اور عدل و انصاف والی حکمرانی اختیار کی جائے گی۔ اسی فیصلے کی روشنی میں برطانوی حکومت نے بلاتامل ہندوستان میں مغربی تعلیم، مغربی تہذیب اور مغربی سیاسی اداروں کو روشناس کرایا۔ دادا بھائی نوروجی نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ جو آزادیٔ اظہار آپ نے ہمیں دی ہے یہ اسی کا اعجاز ہے کہ آج ہم آپ کے سامنے کھڑے ہو کر اپنا مافی الضمیر نہایت وضاحت اور صراحت کے ساتھ آپ کی زبان میں آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ نوجوان محمد علی جناح یقینا اس تقریر سے بہت متاثر ہوئے ہوں گے اور انہوں نے اوائل شباب سے ہی اپنے سیاسی سفر کا راستہ اور منزل متعین کر لی ہو گی۔ دادا بھائی نوروجی کی قائم کردہ روایت آج تک انگلستان میں قائم ہے اور گزشتہ سو سوا سو سال کے دوران سینکڑوں ہندوستانی اور پاکستانی برطانوی پارلیمنٹ اور دوسرے سیاسی اداروں کے اراکین منتخب ہو چکے ہیں۔ موجودہ برطانوی پارلیمنٹ میں بھی بارہ پاکستانی نژاد اراکین ہیں جن میں سے 9کا تعلق لیبر پارٹی سے جبکہ تین کا تعلق کنزرویٹو پارٹی سے ہے۔ لندن کے میئر محمد صادق بھی پاکستانی نژاد ہیں اور بڑے کامیاب مسلمان میئر سمجھے جاتے ہیں۔ آزادی، عدل و انصاف اور مساوات کسی حد تک انگلستان کے اندر تو دیکھنے کو ملتی ہیں مگر عالمی سطح پر امریکہ کے ساتھ مل کر برطانیہ مسلم ممالک میں انسانی حقوق کی بدترین پامالی میں پیش پیش ہے۔ آج جو کچھ فلسطین میں ہو رہا ہے اس کا بیج برطانیہ نے ہی بویا تھا اور ارضِ فلسطین میں ان کے حقیقی مالکوں کو وہاں سے نکال کر یہودیوں کو بسایا تھا اور اب ہر معاملے میں برطانیہ امریکہ کی ہاں میں ہاں ملاتا ہے اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ یہودیوں نے فلسطینی مسلمانوں کی زمینوں پر قبضہ کر کے وہاں اپنی بستیاں بسا لی ہیں اور امریکہ بزور شمشیر القدس یعنی یروشلم میں امریکی سفارت خانہ برائے اسرائیل قائم کر چکا ہے اور ڈھٹائی کے ساتھ اس اقدام پر ڈٹا ہوا ہے اور اپنا فیصلہ واپس لینے کو تیار نہیں۔ برطانیہ اس غیر قانونی اور غیر اخلاقی امریکی فیصلے پر اس کا ساتھ دے رہا ہے۔ اسی طرح بھارت کشمیری مسلمانوں کے بنیادی انسانی حقوق کو پامال کر رہا ہے۔ آئے روز درجنوں کشمیریوں کو موت کے گھاٹ اتار رہا ہے اور پیلٹ گنوں نے بے قصور اور معصوم نوجوانوں کو اندھا کر رہا ہے۔ اس کے ان سفاکانہ و ظالمانہ اقدامات پر امریکہ بھارت کو شہ دے رہا ہے جبکہ برطانیہ بھی درپردہ ہندوستان کو تھپکی دے رہا ہے۔ اس کا تو یہ مطلب ہوا کہ لارڈ کی بات ایک سو سال بعد بھی درست ثابت ہو رہی ہے کہ انسانیت نے ترقی تو کی ہے اور برطانوی معاشرہ تعصبات سے آزاد بھی ہوا ہے مگر اتنا بھی نہیں کہ گورے اور کالے برابر ہو جائیں۔ قربان جائیں نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم پر کہ جنہوں نے چودہ سو برس پہلے فرمایا تھا کہ کسی گورے کو کالے پر اور کسی کالے کو گورے پر کوئی فضیلت نہیں۔ تحریکِ آزادی ہند کا پہلا باقاعدہ سپاہی دادا بھائی نوروجی تھے۔ نوجوان محمد علی جناح کے سیاسی حسنِ انتخاب کی داد دینا پڑے گی کہ وہ جس ہندوستانی رہنما سے انسپائر ہوئے وہ آزادی، برابری اور عدل و انصاف پر یقین رکھتا تھا اور یہی حقوق ہر ہندوستانی کے لیے بلا تفریق رنگ و نسل حاصل کرنے کا خواہاں تھا۔