مصافحے نہ معانقے ۔۔۔فاصلوں سے منائی جانے والی عید بھی کیا عید ہوئی لیکن پھر بھی عید تو عید ہی ہے۔ فاصلوں سے ہی سہی ہم اپنے پیاروں کو دیکھ تو سکتے ہیں،دل سے قریب رہنے والوں کو وڈیو کال کے ذریعے قریب تو کرسکتے ہیں ،کوئی ماں ہے تو اپنے بوڑھے ہاتھ میں سیل فون کی اسکرین پر بیٹے بیٹی کو دیکھ تو سکتی ہے ،کوئی باپ ہے تو پردیس گئے بیٹے کولیپ ٹاپ کی اسکرین پر عید مبارک کہہ تو سکتا ہے ، بہن بھائی کال ملا کرایک دوسرے کو عید مبارک دے تو سکتے ہیں لیکن جو یہاں سے بہت دور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نہ آنے کے لئے جا چکے ہوں انکے پیاروں کے لئے ہلال عید کیا اور عید کیسی؟ وہاں عید کا چاند اداسیاں لے کر طلوع ہوتا ہے لیکن یہ اداسیاں مایوسیوں کو قریب نہیں پھٹکنے دیتیں۔ ایسا ہی ایک گھر چناروں کی وادی میں اسد اللہ نائیکو کا بھی ہے اور ایک اسد اللہ ہی کا کیاوہاں اسد جیسے ہزاروں اداس اور سوگوار بوڑھے ہیں جن کے آنگنوں سے گزرتے ہوئے ہلال عید بھی اداس ہوجاتا ہے۔ ریاض ایک خاموش طبع سیدھا سادا نوجوان تھا جسے کینوس پر بکھرے رنگ بھلے لگتے تھے ،وہ حساس طبیعت کا مالک اور فطرت کے مناظر کا دلدادہ تھا وہ سرسبز پہاڑوں سے پھوٹتے چشموں ،بل کھاتی ندیوں اور بلند چناروں سے پرے برف پوش چوٹیوں کو دیکھتا توقدرت کی صناعی کاقائل ہوجاتا لیکن جب وہ کوئل کی کوک کے جواب میں گولیوں کی آوازیں سنتا،آنسو گیس کی کڑواہٹ حلق میں اترتے محسوس کرتا، فوجی جیپوں سے باوردی بدمعاشوں کو اترکر آبادیوں کا محاصرہ کرتے دیکھتا تواسکا لہو کھول اٹھتا اس کا محنت کش والد اسکے جذبات سے بے خبر نہ تھا وہ جانتاتھا کہ اس کی خاموشی میں بڑے طوفان چھپے ہوئے ہیں وہ شفقت پدری سے مجبور ہوکر اسے سمجھاتا رہتا تھا نصیحتیں کرتا رہتاتھا جسے وہ سر جھکائے خاموشی سے سنتا رہتا اسکا والد اس کے اس طرح چپ رہنے پر کبھی کبھار غصے میں بھی آجاتا کہ یہ سن تو لیتا ہے مگر کرتا اپنے دل کی ہے ریاض کا والد درزی تھا اس نے ساری عمر سلائی مشین کی گھرر گھرر کے ساتھ لوگوں کے کپڑے سیتے گزاردی تھی وہ چاہتے تھے کہ اس کا بیٹا باہر اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے کوئی شاندار نوکری حاصل کرے اور محفوظ بے خطرزندگی گزارے لیکن اس نے باہر جانے سے انکار کردیا اور وہیں ایک پرائیوٹ اسکول میں ٹیچر لگ گیاوہ ریاضی کا استاد تھا اور اپنے جنت نظیر وطن پر قابض بھارتی فوج سے حساب کتاب کرنا چاہتاتھا یہ ان دنوں کی بات ہے جب بھارتی فوج جعلی مقابلوں میں کشمیری نوجوانوں ’’دہشت گرد‘‘ قرار دے کر مار مار کر پھینک رہی تھی ،شہیدوں کے جنازوں میںہزاروں لوگ پاکستان زندہ باد اور آزادی کے نعرے لگاتے شریک ہوتے اور شہداء کے قبرستان میں روز اک نئی قبر جدو جہد آزادی کا سنگ میل بنی دکھائی دیتی تھی ریاض بھی ان جنازوں اور مظاہروں میں شریک ہوتا تھا اور اسکے باپ کا دل ہر نوجوان کشمیری کے باپ کی طرح انجانے خدشوں وسوسوں سے دھڑکتا رہتا تھاآخرکار وہی ہوا جو ہر مقبوضہ وادی میں تقریبا ہرکشمیری نوجوان کے ساتھ ہوتا ہے 2010ء میں بھارتی سیکیورٹی فورسز نے اسے بھی اٹھا لیا اورپھر دو سال تک نامعلوم عقوبت خانوں میں قید رکھ کر رہا کیا تو وہ یکسر بدل چکا تھا کینوس پر نیلے لال اور سیاہ رنگوں سے عجیب عجیب تصاویر بنانے والا ریاضی کا استاد بھارتی فوج سے حساب کتا ب کی ٹھان چکا تھااس نے ایک دن سلائی مشین پر سرجھکائے بوڑھے باپ پر آخری نظر ڈالی ماں کے ہاتھ کو بوسہ دیا اور اس جنگل کی طرف بڑھ گیا جہاں آزادی کے متوالے شیر جوان حریت پسند کے ٹھکانے ہیں وہ حزب المجاہدین کے شاہینوںسے جاملااور پھر آٹھ سال تک بھارتی فوج کے سینوں پر مونگ دلتا رہا،اس نے حزب المجاہدین میں نئی روح پھونکی وہ پڑھا لکھانوجوان تھا اس کی کوششوں سے حزب المجاہدین میں برہان وانی ،زاکر موسیٰ اور پڑھے لکھے نوجوان اور طالب علم شامل ہوتے چلے گئے وہ غلامی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں آزادی کی شمع ہاتھ میں لئے کھڑا ہو گیاتھا ریاض نائیکو ایک ہوشیار نوجوان تھا ،وہ سوشل میڈیا سے دور رہتا اوراپنے ساتھیوں کو ساتھ لے کر چلتا اسکی اس حکمت عملی نے اسکی عسکری زندگی بڑھا دی یہ دلیراور زیرک نوجوان آٹھ برس تک بھارتی فوج کے لئے چھلاوہ بنا رہا کہتے ہیں ایک بار ایک پولیس افسر نے ریاض نائیکو کے گھر پر چھاپہ مار کر والد اور چچا کو اٹھا لیا جواب میں ریاض نائیکو نے اس پولیس افسر کے گیارہ رشتے دار اپنے مہمان بنا لئے جس کے بعد مذاکرات ہوئے اور اسکے والد چچا کو چھوڑا گیا تواس افسر کے گیارہ رشتہ دار گھر پہنچ سکے مقبوضہ کشمیر میں صدائے حریت کا مطلب جلد یا بدیر شہادت کے سوا کچھ نہیں ،برطانوی نشریاتی ادارے کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں ریاض نائیکوکے والد اسد اللہ نائیکو نے کہا تھا ہمیں علم تھا کہ اب اسکی لاش ہی گھر آئے گی جب بھی کہیں پولیس مقابلہ ہوتا تو ہمیں لگتا کہ ہمارا بیٹا بھی مرنے والوں میں شامل ہے اور پھر ایسا ہی ہوا رواں ماہ کے اوائل میں ریاض نائیکو اپنی بیمار ماں کی عیادت کے لئے اپنے آبائی علاقے بیگ پورہ آیا ہوا تھا کہ مخبری ہوگئی،فوج نے نہ صرف پورے علاقے کا محاصرہ کر لیا بلکہ خندقیں بھی کھودڈالیں تاکہ مقامی لوگ انسانی ڈھال بن کر ریاض کی مدد کو نہ آسکیں۔ بھارتی سکیورٹی فورسز خوش ہیں کہ آٹھ برسوں سے ان کے لئے درد سر بنے ریاض نائیکو سے جان چھٹی وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ حزب المجاہدین کی ساری قیادت ماری جا چکی ہے اب کوئی کمانڈ کرنے والا نہیں ہے یہی بات چار برس پہلے برہان وانی کی شہادت پر بھی بھارتی سورماؤں نے کہی تھی جسکا جواب کشمیر کے کانگریسی رہنما عمر عبداللہ نے اپنے ٹوئٹ میں یہ کہہ کردیا تھا کہ زندہ برہان وانی سے زیادہ اسکی قبر نوجوانوں کو بندوق اٹھانے پر مائل کرے گی ۔۔۔ریاض نائیکو کے بعد کوئی اور ریاض نائیکو غلامی کے اندھیروں میں شمع حریت لے کر کھڑا ہوجائے گاپھر کون ہے جو آزادی کے پروانوں کو جان دینے سے روک سکے،بادلوں کی اوٹ سے ہلال عید جھانکتے گزر جائیں گے ،عید آزادی تک اداس عیدوں کا سفر جاری رہے گا،ریاض نائیکو کسی ذاکر موسیٰ اور ذاکر موسیٰ کسی برہان وانی کی پیشانی چوم کر کہتا رہے گا باریابی جو تمہاری ہو حضور مالک ۔۔۔ کہنا کچھ ساتھی میرے سوختہ جاں اور بھی ہیں اپنے رستے ہوئے زخموں کو دکھا کر کہنا ایسے تمغوں کے طلبگار وہاں اور بھی ہیں