آج میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں‘ میراا یوم آزادی ہے۔ میں کئی لحاظ سے خوش ہوں۔ طبعاً ناشکرا آدمی نہیں ہوں‘ مگر اس کے ساتھ ایک طرح کی اداسی بھی ہے۔ ویسے تو اداسی کی کئی وجوہ ہو سکتی تھیں۔ مگر جس بات نے آج اداس کر رکھا ہے۔ وہ متحدہ عرب امارات کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کر لینا ہے۔ یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ ایسا ہونا ہی تھا اور اس کی ہر وقت توقع رکھنا چاہیے تھی۔ اس وقت ان لوگوں کی کمی بھی نہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ اسرائیل کو بعض مسلمان ممالک کی طرف سے تسلیم نہ کرنا کوئی ایسا نفع کا سودا نہیں ہے اور اس سے جتنی جلد نکلاجائے وہ اچھا ہے۔ خوامخواہ ہم نے اپنے لئے عالمی مشکلات پیدا کر رکھی ہیں۔ بدقسمتی سے میرے لئے اسے تسلیم کرنا ممکن نہیں ہے۔ سچ پوچھیے تو مشرق وسطیٰ کے وہ ممالک جو امریکہ کے کیمپ میں ہیں۔ ان کا اسرائیل کو تسلیم نہ کرنا ایک معجزے سے کم نہیں ہے۔ آج نہیں تو کل سبھی کو اسی راہ پر چلنا ہے، چہ جائیکہ خطے کی سیاست بدل جائے۔ ایک زمانے میں شام‘ عراق‘ مصر‘ لیبیا ایسے ممالک تھے جو امریکی کیمپ میں نہ تھے۔ روس ان دنوں سپر پاور تھا ، اس کے خاصے مضبوط اثرات تیل کی دولت سے مالا مال اس خطے میں بھی تھے۔ایسا بھی ہوا کہ کبھی مصر اور شام نے اتحاد کر کے ایک کنفیڈریشن بنائی۔ کبھی مصر نے یہ کام لیبیا سے مل کر کیا۔ ایسے لگتا تھا کہ ان ممالک میں اتحاد عالم اسلامی کا گہرا جذبہ پایا جاتا ہے۔ مصر اور شام مل کر اسرائیل کے خلاف لڑتے تھے۔ یہ گویا عالم اسلام کا مسئلہ دکھائی دیتا تھا۔ اب جو صورت حال ہے اس پر میں کھل کر بات نہیں کرنا چاہتا۔ موجودہ معاہدے کی شرائط سامنے نہیں آئیں مگر جو ایک آدھ بات ظاہر ہوتی ہے ،وہ یہ بتاتی ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔اس مسئلے کے ساتھ ایک قوم کی حیثیت سے میرا تعلق بڑا جذباتی ہے۔ صرف یہ نہیں کہ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خاں سے یہ بات منسوب ہے کہ اگر عرب ممالک بھی اسرائیل کو تسلیم کر لیں مگر ہم نہیں کریں گے بلکہ اس سے بڑھ کر یہ کہ تصور پاکستان کے خالق علامہ محمد اقبال کے لئے جو دو مسئلے زندہ حقیقت رکھتے تھے ان میں کشمیر کے ساتھ دوسرا مسئلہ فلسطین تھا: ہے خاک فلسطین پہ یہودی کا اگر حق ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہل عرب کا اقبال ؒکا کمال یہ ہے کہ وہ جب کوئی نظریہ یا نکتہ پیش کرتے ہیں تو اس کے ساتھ اس کے جواز میں مضبوط دلیل دیتے ہیں۔ دو قومی نظریہ تو بہتوں نے پیش کیا ہو گا۔ مگر اقبال کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے اس کے پیچھے ایک مضبوط دیوارکھڑی کر دی۔ یہی کچھ انہوں نے فلسطین کے بارے میں کیا۔ میں تو کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ جس طرح ہم کہتے ہیں کشمیر کی آزادی تحریک پاکستان کا ناتکمیل شدہ ایجنڈہ‘ اس طرح شاید پاکستان کے مقاصد اپنی اصل روح کے مطابق اس وقت تک پورے نہیں ہو سکتے ،جب تک فلسطین آزادنہیں ہو جاتا۔ یہ شاید ایک لمبی کہانی ہے کہ تحریک خلافت سے لے کر تحریک پاکستان تک اسلامیان ہند کن تجربوں سے گزرے۔ ہم نے خدام کعبہ سے لے کر کون کون سے تحریکیں چلائیں۔ جسے آج سعودی عرب کہتے ہیں‘ اس کی بدلتی صورت حال اور مشرق وسطیٰ میں بنتی قومی ریاستوں کے اندرونی حالات کو تسلیم کر لیا۔کچھ کو خوش دلی سے کچھ کو بادل نخواستہ۔وہی اقبال جس نے یہ کہا تھا: بیچتا ہے ہاشمی ناموس دین مصطفی خاک و خوں میں مل رہا ہے ترکمان سخت کوش اس نے خلافت کی رخصتی کو حقیقت سمجھ کر قبول کر لیا اور مسلمانوں کو یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ اگر ان مسلم ریاستوں کی ایک دولت مشترکہ بنا لی جائے تو یہ شاید خلافت کا متبادل ہو سکتی ہے۔ اقبالؒ نے جس طرح برصغیر کے مسلمانوں کے مسئلے کے عملی دلائل پیش کیے‘اس طرح عالم اسلام کی بکھرتی عظمتوں میں قابل عمل راستہ تلاش کیا۔ دوسرے لفظوں میں ’’زمینی حقائق‘‘کا ادراک کیا‘ مگر اس سے سارے نقشے میں وہ فلسطین کے دل پر اسرائیل ناسور کو تسلیم نہ کر سکے۔ اس لئے مجھے یوں لگتا ہے کہ فلسطین‘کشمیر کی طرح پاکستان کا ایک ناتکمیل شدہ ایجنڈہ ہے ،ویسے سچ پوچھیے تو پاکستان کا خواب تو صرف برصغیر یا عالم اسلام کو بدلنے کا خواب نہ تھا‘ پوری دنیا میں ایک نئی روح پھونک دینے کا خواب تھا۔ بہرحال اب تو وہ وقت گزر گیا۔ مٹی کے گھروندوں میں رہنے والے مشرق وسطیٰ کے لوگ اب اونچے محلوں میں رہتے ہیں۔ دنیا بدل گئی۔ سیاست بدل گئی ۔ فلسطین کا مسئلہ بھی اسی طرح مختلف حالات سے گزرا۔ مصر اور شام نے جنگ لڑی اور ہار گئے۔ مصر نے دوبارہ زور مارا اور اپنا کھویا ہوا علاقہ واپس لے لیا۔ انقلابی تحریکیں چلیں۔ایسی تحریکیں بھی چلیں جسے دہشت گردی کہا گیا‘ پھر مذاکرات ہوئے۔ اوسلو میں بات چیت آگے بڑھتے دکھائی دی۔ سعودی عرب کے شہزادے نے ایک فارمولے کا اعلان کیا جو چند شرائط کے ساتھ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات کرتا تھا، یہ شہزادہ عبداللہ فارمولا کہلاتا تھا۔ پاکستان نے کہا وہ اس معاملے میں سعودی عرب کے ساتھ۔ حالات بدل رہے تھے۔ پھر کیا ہوا بات وہیں آ پہنچی جہاں سے چلی تھی۔ اس وقت اگرچہ دو ریاستی فارمولے پر اتفاق ہوا تھا یعنی اسرائیل اور فلسطین الگ الگ دو ریاستیں، ایک فلسطین اتھارٹی بھی نہیں تھی۔تاہم ایک اصول طے تھا کہ فلسطین کی سرزمین پر وہ تجاوزات ختم کر دی جائیں گی جو اسرائیل نے اپنے غاصبانہ قبضے کے دوران قائم کر رکھی تھیں۔ پھر بات اس سے بھی دور ہو گئی۔ میں اسرائیل فلسطین کے مسئلے کی تاریخ نہیں لکھ رہا۔ ایک کالم میں یہ ممکن نہیں۔ ایک بات مگر عرض کرتا چلوں کہ ایک طویل عرصے تک امریکہ یروشلم میں (بیت المقدس) میں سفارت خانہ نہ کھول پایا۔ دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح وہ تل ابیب تک محدود رہا۔ جب ٹرمپ نے اس کا اعلان کیا تو خیال تھا عالم اسلام اٹھ کھڑا ہو گا۔ بس خیال ہی تھا ،کچھ بھی نہ ہوا ،اب متحدہ عرب امارات نے اعلان کیا کہ اسرائیل نے وعدہ کیا ہے کہ وہ موجودہ غضب شدہ علاقوں کے سوا مزید علاقوں کا انضمام نہیں کرے گا۔ یہ ایک فقرہ بہت کچھ بتانے کے لئے کافی ہے، مزید آگے نہیں بڑھا جائے گا۔ جو ہو گیا وہ ہو گیا۔ کہا جا رہا ہے اب سفارت خانے قائم ہوں گے‘ ٹیکنالوجی‘ توانائی‘ سکیورٹی پر مزید معاہدے کریں گے۔ امریکہ خوش ہے ،دو دوست ممالک میں ایک طرح کا بریک تھرو ہوا ہے۔ میں بہت اداس ہوں۔ مزید تجزیے میں نہیں پڑوں گا۔ جانے کب مجھے بھی اسی دوڑ میں شامل ہونا پڑے۔ ابھی کل ہی کی بات ہے ۔مشرف کے زمانے میں اسرائیلی وزیر خارجہ سے ہمارے وزیر خارجہ کی ملاقات‘ اب دستاویزی شکل میں تاریخ کا حصہ۔ خورشید قصوری نے سب کچھ لکھ ڈالا ہے۔ اللہ ہم پر اپنا کرم کرے ۔ خواب تو مرے بکھرتے جاتے ہیں‘ اللہ مرے ملک کو سلامت رکھے اور اسے اس منزل کی طرف آگے بڑھنے کی توفیق دے جو اس کے بانیوں نے طے کی تھی اور جس کا برصغیر کے تمام مسلمانوں نے عہد کیا تھا۔