کار فرہاد سے یہ کم تو نہیں جو ہم نے آنکھ سے دل کی طرف موڑ دیا پانی کو جس میں مفہوم ہو کوئی نہ کوئی رنگ غزل سعد جی آگ لگے ایسی زبان دانی کو بات یوں ہے کہ میں زبان دانی کے خلاف نہیں مگر بات یہ کہ اس کے ساتھ ساتھ معنی آفرینی بھی ضروری ہے جس کا تذکرہ غالب کرتے ہیں کہ ’’گجینۂ معنی کا طلسم اس کو سمجھیے جو لفظ کہ غالب مرے اشعار میں آوے‘‘ کافیہ پیمائی بھی اپنی جگہ ہے وہی کہ یہ قافیہ پیمائی ذرا کر کے تو دیکھو‘ مگر ایک رویہ دوسرا بھی تو ہے کہ ’’کچھ نہ کہتا ہے قسم ہے لفظوں کی۔ صرف ہوتا جو قافیہ رکھتا‘‘ یہ بھی تو درست اور اوریجنل اپروچ ہے کہ ’’من نہ دانم فاعلاتن فاعلات‘‘ پھر اس کے بغیر گزارہ بھی تو نہیں بات تو توجہ اور ترجیحات کی ہے: بحر رجز میں ہوں نہ میں بحر رمل میں ہوں میں تو کسی کی یاد کے مشکل عمل میں ہوں ویسے ایس ٹی کالرج تو اس فن پارے کو شاہکار کہتا ہے جہاں کانٹنٹ یعنی مضمون اور ڈکشن یعنی زمان ہم آہنگ ہو جائیں ان کے تال میل ہی سے بڑی تحریر سامنے آتی ہے۔ یعنی جتنا بڑا موضوع‘ اس سطح کی زبان بھی درکار ہے اس کی بہترین مثالیں ملٹن کی paradise lostاور اقبال کی شاعری ہے آپ کو یہاں موضوع کی بلندی اور زبان کی بلند آہنگی نظر آتی ہے۔ مگر کبھی کبھی اگر مضمون یا مواد کو زبان یا پھر زبان کو مضمون یا مواد سہارا نہ دے تو مضحکہ خیز صورت حال بھی بن جاتی ہے آپ کو ناصر کاظمی کی ایک رائے جو انہوں نے جوش ملیح آبادی کے ضمن میں دی تھی پڑھا دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا ’’جوش وہ شکاری ہے جو ہاتھی پر جاتا ہے اور پدی مار کر لاتا ہے‘‘ دوسرے لفظوں میں ایسی صورتحال کو موک ایپک بھی کہتے ہیں یعنی یہ مذاق ایک فن کا درجہ بھی اختیار کر جاتا ہے کہ آپ بڑی مشینری ہلکی چیزوں کے لئے استعمال کریں۔ یعنی ایک پرندے کے پر کو اٹھانے کے لئے آپ کوئی بڑی لفٹ استعمال کرنے کا قصد کریں۔ میرے معزز قارئین! میں تو ایک فکاہیہ سی تحریر لکھنے کے لئے بیٹھا تھا اور سامنے عبداللہ طارق سہیل صاحب کا کالم تھا جس میں انہوں نے فواد چودھری کے لئے ایک مصرع میں تصرف کیا تھا: ’’جواب فوادیاں باشد خاموشی‘‘ اس کا مطلب یہ ہوا کہ فواد چودھری فوادیاں کا جواب خاموشی کے سوا کچھ نہیں۔ مگر مجھے جھٹکا اس لئے لگا کہ فوادیاں اتنا وزنی ہے کہ اس نے مصرع کا وزن خراب کر دیا مصرع خارج از بحر ہو گیا۔ اصل میں استاد مکرم عبداللہ طارق سہیل نے جس طرح سے تصرف کیا وہ ہے: جواب جاہلاں باشد خموشی آپ زیادہ سے زیادہ اسے یوں دیکھیے۔ جواب پاگلاں باشد خموشی‘‘ وہی جو غالب نے کہا تھا کہ جہاں الف گرتا ہے تو سینے میں تیر لگتا ہے مگر یہاں تو بہت آگے کی بات کہ وزن ہی گر گیا۔ بات مگر سب کی سمجھ میں آ گئی ہو گی۔ اتنی سی بات تھی جس پر میں نے پکڑ کر ایک طویل تمہید باندھ دی۔ مگر وہ بات اپنی جگہ ہے کہ بعض اوقات مضمون اور زبان بھی کمال ہوتی ہے مگر کوئی اور چیز کم ہوتی ہے جو سمجھ میں نہیں آتی مگر وہ برکت جیسی ہوتی، عطا ہوتی ہے یا کچھ اور ہوتا ہے ۔ کہیں غیب ہے جہاں سے صرف مضامین ہی نہیں تاثیر بھی آتی ہے: کمال نغمہ گری میں ہے فن بھی اپنی جگہ مگر یہ لوگ کسی درد نے سریلے کیے کچھ فن بھی کام دکھاتا ہے اور ہنروری بھی۔ سیف الدین سیف کا ایک لاجواب شعر ذہن میں آ گیا: ان کے جوہر بھی کھلے اپنی حقیقت بھی کھلی ہم سے کھنچتے ہی وہ تلوار نظر آنے لگے میرے پیارے قارئین! امید ہے آپ ادب سے کچھ تو خط اٹھا رہے ہونگے وگرنہ اردگرد تو ایک ہنگام ہے۔ گرمی کی شدت اپنی جگہ ماہ صیام کے اثرات بھی ہیں کہ لوگ خاموش وگرنہ مہنگائی نے لوگوں کے کڑاکے نکال دیے ہیں اس برستی آگ میں ایک مرتبہ پھر پٹرول بم پھینکنے کی تیاری ہو رہی ہے خدا خیر کرے۔ پی ٹی آئی کی تلوار نیام میں جاتی نظر نہیں آ رہی ادھر پیپلز پارٹی نے عید کے بعد مہنگائی کے خلاف احتجاج کا فیصلہ کیا ہے مگر دوسری طرف پی ٹی آئی نے بھی جواب آں غزل کہنے کی تیاری کر لی ہے۔ اگر پیپلز پارٹی مہنگائی کے خلاف بروئے کار آئے گی تو پی ٹی آئی کرپشن کے خلاف باہر نکلے گی اور وہ ثابت کریں گے کہ پیپلز پارٹی نے اربوں کی کرپشن کیسے کی۔ گویا یہ پیپلز پارٹی بھگائو سندھ بچائو تحریک ہو گی ویسے کیسی مضحکہ خیز بات ہے کہ دونوں اپنی اپنی جگہ درست ہیں ان دو ہاتھوں کے درمیان پسنے والے عوام ہی قصوروار ہیں کہ مہنگائی کا دونوں کی صحت پر کوئی اثر نہیں پی ٹی آئی والے بھی تو کہہ سکتے تھے کہ’’جواب جاہلاں باشد خموشی‘‘ مگر یہ خاموش کیوں رہیں گے یہاں تو وہی سچا ہے جو شور مچاتا ہے ایک مرتبہ انتظار حسین سے مشہور فلم رائٹر ریاض شاہد کے بھائی نے پوچھا تھا کہ ان کا بھائی ریاض شاہد کیسا ادیب ہے انتظار حسین نے کہا ’’جس کے سات بھائی جوان ہوں وہ چھوٹا ادیب کیسے ہو سکتا ہے‘‘ شورشرابے میں پی ٹی آئی کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ ن لیگ کے زمانے میں ہم سوچتے تھے کہ یہ کیسی حکومت ہے حکومت میں رہ کر جلوس نکالتی ہے یعنی پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کے مقابلے میں کائونٹر کرنے کے لئے اب پی ٹی آئی بھی وہی کچھ کرنے جا رہی ہے۔ سنا ہے فیاض حسین چوہان بھی عید کے بعد میدان کارزار میں اتر رہے ہیں۔ فردوس عاشق اعوان پہلے ہی میدان میں ہیں۔ کہیں کچھ ہو رہا ہے تو کہیں کچھ۔ روز نیا ایشو ابھی تو کرکٹ کا ہنگام ہے لوگ ورلڈ کپ کی طرف متوجہ ہیں شاید یہ بھی میرا ہی خیال ہے غریب اور مزدور کو مگر کرکٹ سے کیا! خیر جو بھی ہے ہمیں تو اپنے سائنس دان فواد چودھری سے کچھ نہ کچھ دلچسپ موڈ مل جاتا ہے۔ ان کی موجودگی غنیمت ہے وہ آتے ہی کسی بھی سائنس دان سے زیادہ مشہور ہو گئے ہیںانہیں اپنا آئی کیو چیک کروا لینا چاہیے۔ وہ چاند دیکھنے کے بارے بہت متفکر ہیں اور انہوں نے اگلے پانچ سال کا سائنسی کلینڈر بھی پیش کر دیا ہے۔ میں سوچتا ہوںکہ فواد چودھری کا تعلق تو سورج سے بنتا ہے کہ دیکھیں کون ہر چڑھتے سورج کو سلام کرتا ہے یعنی کون سورج مکھی کی طرح سورج کے ساتھ گھومتا ہے چلیے شاہدہ لطیف کے نئے شعری مجموعے ’’خواب سونے نہیں دیتے‘‘ میں سے ٹائٹل شعر: اپنے لمحات کے ہونے نہیں دیتے مجھ کو خواب ایسے ہیں کہ سونے نہیں دیتے مجھ کو