ملک بھر میں فارما سیوٹیکل انڈسٹری کے دبائو پر ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی نے مختلف ادویات کی قیمتوں میں 9سے 15فیصد اضافہ کر دیا ہے۔ 600سے زائد ادویات کے نرخ ایک ہفتے میں دوسری بار بڑھائے گئے۔23جنوری2019ء کو آنے والے منی بجٹ سے قبل غریب عوام کا جینا محال کر دیا گیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف نے اقتدار سنبھالتے ہی طبی سہولیات کی بہتری کا نعرہ بلند کرتے ہوئے ملک بھر میں ہیلتھ کارڈ جاری کرنے کا اعلان کیا تھا۔ ساڑھے چار ماہ کا عرصہ گزارنے کے باوجود ہیلتھ کارڈ کا اجرا ممکن ہو سکا نہ ہی غریب عوام کے لئے صحت کی سہولتوں میں آسانی آئی۔ ایک ہفتہ قبل ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان نے ہارڈ شپ کیسز میں شامل 850ادویات میں سے 250کی قیمتوں میں 5سے 10فیصد تک کمی جبکہ لگے ہاتھوں 600ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کیا تھا۔لیکن ڈالر کی قیمت میں اضافے کا سہارا لے کر ایک ہفتہ بعد تمام ادویات 15فیصد تک مہنگی کر دی گئی ہیں۔ جو پہلے سے مہنگائی کی چکی میں پستے عوام پر کسی ڈرون حملے سے کم نہیں ہے۔ غریب آدمی پہلے ہی دو وقت کی روٹی کے حصول کے لئے در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہے‘ اب ادویات کی قیمتوں میں اضافے سے انہیں صحت کی بحالی کے بھی لالے پڑ گئے ہیں۔ 2015ء میں ادویہ ساز کمپنیوں نے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی سے گٹھ جوڑ کر کے عدالت عالیہ سے حکم امتناع حاصل کر کے ہارڈ شپ کیسز کے نام پر ادویات میں خود ساختہ اضافہ کیا تھا۔ بعدازاں عدالت نے حکم امتناعی ختم کرتے ہوئے تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد ادویات کی قیمتوں کا تعین کرنے کا حکم دیا تھا۔ لیکن تب بھی کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا تھا۔ منی بجٹ سے قبل ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کسی طور پر درست نہیں ہے۔ڈالر کی قیمت میں اضافہ بھی وزیر اعظم کے علم میں لائے بغیرکیا گیا تھا ،لگتا ہے ادویات کی قیمتوں کے بڑھنے بارے بھی انھیں لاعلم رکھا گیا ہوگا ۔ وزیر اعظم پاکستان اس بے مہار اضافے کا نوٹس لیں۔ الیکشن سے قبل تو تحریک انصاف نے بڑے بڑے وعدے کئے تھے لیکن ساڑھے چار ماہ کے عرصے میں ہی تمام دعوے ٹھس نظر آتے ہیں۔ اس وقت ملک بھر میں کاروبار میں ایک بے یقینی کی فضا قائم ہے۔ مارکیٹوں میں سرشام ہی ویرانی چھا جاتی ہے جبکہ ان حالات میں تاجر برادری بھی پیسہ نکالنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ نوبت با ایںجا رسید کہ 2013ء میں افراط زر کی شرح 3.4فیصد تھی جو 2018ء میں 6.8فیصد تک پہنچ گئی۔ جس کے بعد کاروبار میں ٹھہرائو نہیں آیا اس وقت معیشت خرابی کی جانب گامزن ہے۔ بڑی بڑی کمپنیوں نے اپنے ملازمین کو فارغ کرنا شروع کر دیاہے ۔ جس بنا پر بعض اپوزیشن جماعتوں نے کہنا شروع کر دیا ہے کہ ملک کساد بازاری کی جانب بڑھ رہا ہے۔ ڈالر کی قیمت میں ایک دم سے ہوشربا اضافے کے بعد بھی مہنگائی بڑھی ہے۔ اس وقت ملک قرضوں میں بری طرح جکڑا جا چکا ہے۔ در حقیقت 60کی دہائی سے حکمرانوں کی عاقبت نااندیشیوں کے باعث معیشت قرضوں کے بوجھ تلے دبنا شروع ہوئی ۔ اور یہ سلسلہ ہنوزجاری ہے ۔ وزیر اعظم عمران خان اپنی الیکشن کمپین اور عام خطابات میں سابق حکمرانوں کی عوام کش پالیسیوں کو آڑے ہاتھوں لیتے تھے لیکن ان کے اپنے مختصر سے دور میں ہر آدمی مزید 10ہزار روپے کے بیرونی قرض کے بوجھ تلے دب چکا ہے۔ ایسے ہی دعوے مسلم لیگ( ن ) نے2013ء میں اقتدار میں آنے سے قبل کئے تھے لیکن سابق وزیر خزانہ اسحق ڈار پہلے ہی بجٹ کے بعد کشکول اٹھائے آئی ایم ایف کے در پر سجدہ ریز ہو گئے تھے۔ گو اس کے بعد کاروبار میں کچھ ٹھہرائو آ گیا تھا لیکن موجودہ حکومت نہ تو آئی ایم ایف کے پاس جا رہی ہے نہ ہی صاف انکار کر رہی ہے۔ جس کے باعث کاروبار میں گومگو کی کیفیت ہے۔ گزشتہ روز وفاقی ادارہ شماریات نے لیبر فورس سروے رپورٹ 2017-2018ء جاری کی ہے، جس کے مطابق پاکستان میں بے روزگار افراد کی تعداد میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پنجاب 23لاکھ 90ہزار‘ سندھ 7لاکھ 50ہزار ‘ خیبر پختونخواہ 5لاکھ 50ہزار جبکہ بلوچستان میں ایک لاکھ دس ہزار افراد بے روزگار ہیں۔ تحریک انصاف نے اپنے منشور میں ایک کروڑ لوگوں کو نوکریاں دینے کا اعلان کیا ہے۔ اس تناسب سے اگر 40لاکھ بھی نوکریاں پیدا ہو سکیں ،تو بے روزگاری کا خاتمہ ممکن ہو سکتا ہے۔ لہٰذا حکومت کو اپنے وعدے کے مطابق انقلابی تبدیلیاں لانی چاہیں۔ وزیر خزانہ اسد عمر کے کراچی چیمبر سے خطاب کے دوران تاجر برادری نے ایف بی آر کے حراساں کرنے پر احتجاج کیا ہے۔ ایف بی آر ٹیکس چوروں کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی بجائے ٹیکس دہندگان کے خلاف ہی صف آرا ہو گی ہے۔ جس کے باعث تاجر برادری میں بھی بے چینی پاتی جاتی ہے۔ لہٰذا وزارت خزانہ اس مرض کا کوئی دائمی حل تلاش کرے، تاکہ ٹیکس اکٹھا کرنے میں آسانی ہو۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی کراچی کی تاجر برادری سے ملاقات کرتے ہوئے انہیں معاشی استحکام کے لئے کردار ادا کرنے کا کہاہے کیونکہ معیشت مستحکم ہو گی تو ہی دفاعی ضروریات پوری کی جا سکیں گی۔ لیکن اگر معاشی حالت تشویشناک ہو تو ایسی صورتحال فوج پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ پاک فوج کی مضبوطی کے لئے ضروری ہے کہ اس کی دفاعی ضروریات پوری کی جائیں ۔اس لیے تاجر برادری کے لیے دل جمعی سے کاروبار کرنا اور حکومت کے لیے مستحکم ٹیکس نیٹ کو توسیع دینا ضروری ہے، تاکہ حکومت آسانی سے مقررہ اہداف حاصل کر سکے ۔ وزیر اعظم عمران خان موجودہ صورتحال پر قوم کو اعتماد میں لیں اور مشکلات کے ازالے کے لئے کوئی مستقل لائحہ عمل ترتیب دیں۔ تاکہ عوام کو مہنگائی کی دلدل سے نکالا جا سکے۔