یہ میں ہوں۔ سرخ ‘ نیلے‘ پیلے‘ گلابی میک اپ کی بتوں کے پیچھے میں نے اپنا اصل چہرہ چھپانے کی بھر پور کوشش کی ہے۔ میں نے اپنے نسوانی چہرے کے اوپر اگتی مونچھوں کے سرمئی رنگ کو دنیا کی نظروں سے چھپانے کی اپنی سی کوشش کی ہے۔ لیکن میرے نسوانی وجود میں۔ مردانہ آواز۔ میرا بھید کھول دیتی ہے۔ میں اسی طرح کے عجیب و غریب تضادات کا مجموعہ ہوں۔آدھی عورت۔ آدھا مرد۔ اور پتہ ہے اس آدھی عورت اور آدھے مرد کا مطلب ہے نہ میں عورت ہوں‘ نہ مرد۔ میری زندگی اس ادھورے پن کے صحرا کو کاٹتے کاٹتے پیاسی گزر جاتی ہے۔ میری زندگی اس ادھورے پن کے اس عذاب کے ساتھ اس طرح گزرتی ہے کہ میری جھولی میں دھتکار‘ لاوارگی اور لاتعلقی کے دکھ چھید ڈالتے ہیں۔ میری ذات لوگوں کے لیے ہنسی مذاق مخول اور ٹھٹھے کے سوا اور کچھ نہیں۔ میں بے شناخت ہوں اور اسی بے شناختی کے ساتھ مجھے اپنی عمر کے ایک ایک دن کو کسی عذاب کی طرح سہنا پڑتا ہے۔مجھے سب سے پہلے دھتکارنے والے میرے اپنے والدین تھے۔ مجھے جنم دینے والوں نے میری اصلیت جان کر مجھے اپنانے سے انکار کر دیا۔ کیا ہوا اگر میں مکمل عورت۔ یا مکمل مرد نہ تھی۔ میں تھی تو ان کی اولاد۔ پھر مجھے گھر سے نکالتے ہوئے ان کا کلیجہ شق کیوں نہ ہوا۔؟؟ میرے اپنوں نے مجھے گھر اور زندگی سے نکال دیا لیکن میں ان کو اپنے دل سے نہ نکال سکی۔ ایک ھوک ہے جو میرے دل میں آج بھی اٹھتی ہے۔ ایک درد ہے جو میری روح کو چھلنی کرتا رہتا ہے!! میں بھی انسان ہوں اور انسان ہونے کی یہ شناخت کوئی مجھ سے نہیں چھین سکتا ہے۔ انسان کے سینے میں دل ہوتا ہے۔ وہ دل سوچتا سمجھتا‘ کڑھتا‘ پگھلتا اور تڑپتا رہتا ہے۔ میرا جی اکثر چاہتا ہے میں اپنی ماں کے گلے لگ کر روئوں اور اسے جھنجھوڑ کر پوچھوں۔ کیا میں تیری اولاد نہیں ماں کیا تونے مجھے جنم نہیں دیا۔ کیا تیرے پیار پر میرا حق نہیں تھا۔ کیا مجھے اس کی ضرورت نہ تھی پھر کیوں مجھے دیس نکالا دیا۔ دیکھ ماں۔ تونے مجھے اپنا یا نہیں تو پھر اس دنیا نے بھی مجھے قبول نہیں کیا۔!بے شک مجھے میرے جیسوں نے اپنایا گلے سے لگایا۔ اپنا بنایا۔ میری سیلابی آنکھوں کے سامنے اپنی محبت کے بند باندھے۔ وہ بھی میرے جیسے تھے۔ دھتکارے ہوئے‘ دیس نکالے ہوئے‘ جن کی مائوں نے انہیں جنم دے کر پھر انہیں اپنانے اور اپنا ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ اس لیے کہ اس گھر میں مرد یا عورت لڑکوں یا پھر لڑکیوں کے رہنے کی گنجائش تھی۔ کسی ایسے وجود کے لیے جو آدھا دھوپ چھائوں ہو۔ اس گھر کے دروازے بند تھے۔دروازے بند ہونے سے پہلے دل کے دروازے مقفل ہوتے ہیں۔ سو ہم سب بے شناخت اپنے جسموں میں دھوپ چھائوں‘‘ بھرے وجود والے لوگ تھے۔ وہاں میرے بڑے تھے۔ جنہیں میں گرو کہتی۔ گرو نے مجھے ماں کی طرح تسلی دی تھی اور کہا تھا۔’’دیکھ بیبا جنی جنڈری اے اونی تے اساں کٹنی ای اے توں رو آکھیاں لال نہ کر۔ رب سوہنے نے ساڈھے لئے جنڈری دا ایہو روپ رکھیا‘‘ پھر میں نے جنڈری کے اسی روپ سے پیار کرنا سیکھ لیا۔ میں اپنے جیسوں میں آ کر پھر ان کی طرح بنتی گئی۔ اپنا وجود کہیں پیچھے چھوڑ دیا۔ سرخی‘ پائوڈر‘ کاجل‘ مسکارا‘ شوخ بھڑکیلے کپڑے میری زندگی میں پیروں نے تھرکنا اور ہاتھوں نے تالی بجانا سیکھ لیا تھا۔ اب یہی میری زندگی اور یہی میری شناخت ہے۔ آپ لوگ خواجہ سرا‘ کھسرا۔ ٹرانس جینڈر‘ کچھ بھی کہہ لیں۔ آپ مجھے سڑکوں چوراہوں‘ چوکوں‘ مارکیٹوں میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔ سٹیج پر یا پرائیویٹ محفلوں میں ڈانس کرتے ہوئے آپ مجھے اور میرے جیسوں کو پہچان سکتے ہیں میرے بھڑکیلے‘ چمکیلے اور شوخ‘ رنگ رنگیلے وجود کے پیچھے۔ ان کہے دکھوں کی تاریکی پھیلی ہے۔ حسرتوں اور تشنہ آرزوئوں کے لامتناہی سلسلے ہیں۔ دھتکارے جانے اور بے شناخت ہونے کا عذاب ہے۔ آپ اگر مرد ہیں یا عورت۔ آپ کیسے جان سکتے ہیں اس تکلیف کو جو مجھے اور میرے جیسے دھوپ چھائوں کا وجود رکھنے والوں کو اس وقت سہنی پڑتی ہے جب ہم بیمار ہوں تو معالج ہمارا علاج نہیں کرتے۔ ہسپتال میں ہمیں بیڈ نہیں ملتا۔ وارڈ میں داخلہ نہیں ملتا اس لیے کہ اندراج فارم میں صرف میل یا فیمیل کا خانہ ہے۔ میرے جیسے ادھورے وجود کو کوئی بھی قبول نہیں کرتا۔ پشاور کی علیشہ بھی میرے جیسی تھی آدھی ادھوری چھ گولیاں اس کے وجود میں آر پار ہو گئیں۔ وہ لہولہان تھی تڑپ رہی تھی لیکن پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال والوں نے علیشہ کے زخموں کو دیکھنا تک گوارا نہ کیا۔ ضرورت یہ تھی کہ اسے ہسپتال میں داخل کرتے۔ اس کی مرہم پٹی کرتے بہتے لہو کو روکتے۔ لیکن وہ تڑپتی رہی کسی کا دل نہ پگھلا۔ ہسپتال والے اپنے سرکاری کاغذ اٹھا کر بس یہی کہتے تھے کہ نہ یہ مرد ہے نہ عورت۔ اس کا اندراج کس خانے میں ہو گا۔ انہوں نے معذرت کر لی علیشہ کو ساری زندگی دھتکارا ہی تو جاتا رہا۔مگر اب یہ زخم آخری بار تھا۔ وہ درد سے تڑپتی ہوئی علیشہ اس آخری دھتکار سے جانبر نہ ہوئی۔ اور مر گئی۔ کیسے ڈاکٹر تھے۔ کیسے مسیحا تھے کہ انہیں پتہ ہی نہ تھا کہ بے شناخت ہو کر دھتکارے جانے کا زخم گولی سے زیادہ ہوتا ہے۔ ہم قتل کر دیے جائیں‘ مار دیے جائیں‘ بے عزت کر دیے جائیں۔ یا کسی وحشیانہ تشدد میں زخما دیے جائیں۔ پاکستان کے تھانے کچہریوں میں بھی میرے مسئلوں کو اہمیت نہیں ملتی۔ تھانے میں بیٹھا تھانیدار بھی ہم سے دلی لگی کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ایف آئی آر درج نہیں کرتا ٹھٹھے مخول کرتا ہے۔!ابھی یہ جو ستمبر گزرا ہے اس کے پہلے ہفتے میں ساہیوال میں ایک میرے جیسی کوئی کلموہی‘ بدقسمت ادھوری تھی جس کو زیادتی کی کوشش کے بعد زندہ جلا دیا گیا۔ اس کا نام تک کسی کو معلوم نہیں۔ کون تھی وہ کہاں سے آئی۔ کوئی نہیں جانتا۔! اس کے جسم کا 80فیصد سے زیادہ جسم جل چکا تھا۔ لیکن اس ظلم کی ایف آئی آر تھانے والوں نے نہ کاٹی۔ وہ بھی تڑپ تڑپ کر مر گئی۔ کوئی اس کی راکھ ہوئے وجود کا وارث نہ بنا پھر تھانے والوں نے ساہیوال کی میونسپل کمیٹی والوں نے اس لاوارث کی جلی ہوئی لاش دفنانے کو دے دی! یہ سب کہانیاں میری ہیں! میرا المیہ اور میرا غم ان تمام کہانیوں میں چیخ چیخ کر سوال پوچھتا ہے۔ میں عورت نہیں۔ مرد نہیں۔ مگر۔انسان تو ہوں۔ آدھی عورت۔ آدھا مرد۔ مگر مجھے پورا انسان تو تسلیم کرو۔ مجھے عزت سے اور عزت نفس سے جینے کا حق تو دو! میں اپنے دھوپ چھائوں جیسے ادھورے وجود میں انسان تو پورا ہوں۔! پس تحریر:لاہور ہائی کورٹ نے خواجہ سرائوں کے لیے الگ وارڈ مختص کرنے کے معاملے پر سیکرٹری پرائمری اور سکینڈری ہیلتھ سے عملدرآمد رپورٹ مانگ لی ہے۔ جسٹس علی اکبر قریشی نے کہا کہ خواجہ سرا بھی اللہ کی مخلوق اور پاکستان کے شہری ہیں۔ آئین کے تحت انہیں وہ تمام سہولتیں ملنی چاہیں جو پاکستان کے شہری کا حق ہے۔