صدیاں گزر گئیں اور کچھ بھی نہیں بدلا۔ وہی احساسِ کمتری، وہی خوئے غلامی، وہی احساسِ عدم تحفظ، وہی دکھاوا اور ریاکاری۔ علم اور اخلاقی تربیت کے بغیر جمہوریت کیا ہے؟ دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری کسی نے کہا تھا: حسن کو سادگی میں پُرکاری اور میدانوں میں ناہمواری کی ضرورت ہوتی ہے۔ موسم سرما کے اختتام پر پوٹھوہار کی سطح مرتفع پر، گندم کے سبزے میں کہیں کہیں سرسوں پھولتی ہے۔ صبح سویرے کی ریل کار سے لاہور سے راولپنڈی کا قصد کریں تو جہلم کا پل پار کرنے کے بعد، خیرہ کن نظارے دل و دماغ کی دنیا کو تہہ بالا کرتے ہیں۔ پنجاب کے ہموار میدانوں کا مگر اپنا جمال ہے۔ صنعتی انقلاب سے پہلے کی دنیا میں، دنیا بھر کی قومیں، سندھ اور گنگا جمنا کے میدانوں پہ یلغار کرتی رہیں۔ انیسویں صدی کے اوائل تک برصغیر سب سے بڑی معیشت تھی۔ ایک امریکی ماہر معیشت کے مطابق 1801 میں دنیا بھر کا پچیس فیصد۔ پھر ٹیکنالوجی نے زراعت پہ غلبہ پا لیا، رفتہ رفتہ مکمل طور پر‘ تاریخ کے چوراہے پر برصغیر سویا پڑا رہا۔ اپنے تضادات کے باوجود بھارت تو ہڑ بڑا کر جاگ اٹھا ہے مگر ہم ابھی تک محو خواب ہیں۔ ملک کو تعلیم اور اخلاقی تربیت کی ضرورت ہے۔ صنعتوں کو ماہرین اور تربیت یافتہ کارکنوں کی۔ ہمارے قائدین کرام، اسٹیبلشمنٹ اور سیاستدانوں کو، علما کرام اور دانشوروں کو مگر سیاست سے فرصت نہیں۔ خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر پھر سلا دیتی ہے، اس کو حکمراں کی ساحری لاہور سے سیالکوٹ کا سفر خوشگوار نہیں تھا، بہت ہی خوشگوار۔ دونوں طرف پھیلے ہوئے دھان کے کھیت اور آسمان پر تنی بادلوں کی چادر۔ہوا اپنا سب سے سہانا گیت دھان کے کھیتوں کے لیے گاتی ہے۔ ایسا ہی موسم ہو گا، جب اس نادر روزگار صوفی شیخ ہجویر نے ایک دن لاہور سے رخصت ہونے کا فیصلہ کیا۔ فرمایا ایک ٹیلے پر کھڑے ہو کر نواح پر نگاہ کی تو مبہوت ہو کر رہ گیا۔ خود سے میں نے کہا: لاہور کے حسن نے تمہیں جیت لیا۔ فقیر تو خود کو دھوکہ دیتا ہے۔ اس شہر کے جمال میں آسودہ تو خود فریبی کا شکار ہے۔ سامان اٹھایا اور سامان ہو گا ہی کتنا اور رخصت ہو گئے۔ خیر گزری اور بعد میں لوٹ آئے۔ عالی جناب کے بغیر پنجاب ورنہ کیا ہوتا، برصغیر ہی کیا ہوتا۔ محمد بن قاسم کے اڑھائی سو برس بعد تک سندھ میں عربوں کی حکومتیں بنتیں اور بگڑتی رہیں۔ امویوں کے خاتمے پر بلادِشام سے کئی قبائل نے سندھ کی طرف ہجرت کی۔ دوسروں کے علاوہ ان میں سادات بھی شامل تھے۔ پھر تاتارکی یلغار سمیت، دوسرے تاریخی حوادث نے بھی وسطی ایشیا،ایران اور مشرق وسطیٰ سے موج در موج مسلم مہاجرین کو سندھ کی سرزمین پر لا پھینکا۔ رفتہ رفتہ جہاں سے وہ پنجاب تک پھیل گئے۔ شاید سب سے اہم واقعہ مگر غزنی سے علی بن عثمان ہجویریؒ کی ہجرت تھی اور لاہور میں محمود غزنوی کے گورنر ایاز کا تقرر۔ قائد اعظمؒ نے کہا تھا: پاکستان اسی دن وجود میں آ گیا تھا، جب برصغیر میں پہلا آدمی مسلمان ہوا تھا۔ یہ مالا بارکے علاقے میں بسنے والے عرب تاجروں کا ثمر تھا۔ پاکستان کا قیام بہرحال اس مسلم اکثریت کے طفیل ممکن ہوا، جو آج کے پختون، پنجابی، بلوچ اور سندھی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ ایک دانشور دوست نے گزشتہ دنوں لکھا:ہندوستان نے اپنے پڑوسیوں پر کبھی حملہ نہ کیا۔ تاریخ اس دعوے کی تصدیق نہیں کرتی۔ لاہور کے جے پال اور آنند پال، غزنی کی سلطنت پر یلغار کرتے رہے۔ ان کے باغات اور فصلوں کو وہ نذرِ آتش کرتے۔ ان کی خواتین اور بچوں کو پکڑ لاتے۔ سبکتگین کے فرزند محمود نے، تاریخ نے جسے محمود غزنوی کے نام سے یاد رکھا، ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یہ ٹنٹا ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایک کے بعد دوسرا، پے در پے ہندوستان پر اس نے سترہ حملے کیے۔ جلال آباد کے میدانوں کو عبور کرنے سے قبل وہ اپنے محل کے قریب اسی محلے میں نسبتاً جواں سال شیخ ہجویر کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ان ادوار میں علماء اور بادشاہوں میں کچھ زیادہ فاصلہ نہ تھا۔ حکمرانوں میں نجیب کم ہوتے ہیں مگر ہوتے ہیں۔ انہی میں سے ایک شہاب الدین غوری تھا ہندوستان پر حملہ کرنے سے پہلے جس نے خواجہ معین الدین چشتیؒ سے اجازت طلب کی تھی۔ ایک بلبن تھا، جو پابندی سے خواجہ فریدالدین شکر گنج کے ہاں حاضری دیا کرتا۔ خود اس کی سپاہ کا عالم بھی یہی تھا۔ ایک بار کسی ضرورت کے تحت اس نے پہلو سے گزر جانا چاہا۔ عساکر مگر مصر ہوئے کہ خواجہ کو سلام کیے بغیر دلی کا رخ نہ کریں گے۔ ایک بے پناہ سپاہ اور تنہا درویش۔ اول چند لوگوں سے مصافحہ کیا، پھر کرتا اتارا اور قدرے بلند جگہ پر کھڑے ہو گئے۔ پورے کا پورا لشکر اس کرتے کو چھوتے ہوئے گزر گیا۔ یہ آپ ہم تو بوجھ ہیں زمین کا زمیں کا بوجھ اٹھانے والے کیا ہوئے؟ سیالکوٹ کا ذکر تھا۔ بات کہاں سے کہاں جا نکلی۔ اپنے تخیل میں آدمی آزاد ہے۔ غالب نے کہا تھا: ہے آدمی بجائے خود اک محشر خیال ہم انجمن سمجھتے ہیں، خلوت ہی کیوں نہ ہو سیالکوٹ میں دوستوں سے ملاقاتیں شاد کام کرنے والی تھیں۔ کچھ سرکاری افسر اور کچھ صنعت کار۔ وہ اس ناچیز کو یاد کرتے رہتے ہیں۔ سیالکوٹ موٹروے بننے کے بعد لاہور سے راولپنڈی کا راستہ گوجرانوالہ نہیں، اب سیالکوٹ سے گزرتا ہے۔ وہ قدیم شہر، گوجرانوالہ، گجرات اور وزیر آباد سے مل کر جو ایک سنہری صنعتی تکون بناتا ہے۔ کراچی، لاہور اور فیصل آباد کے بعد، سب سے بڑا صنعتی مرکز۔ ہم اگر زندہ لوگ ہوتے علم اور عصر نوں کے تقاضوں کا ادراک کر سکتے تو یہ شہر ملک کی معاشی تقدیر بدل ڈالتے۔ پہل کاری کی صلاحیت اس خطے میں بہت ہے، شاید کچھ کشمیریوں کے طفیل بھی، مگر سیاست؟ اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا، جب ایک بہت باخبر آدمی نے بتایا کہ، چھائونی کے بلدیاتی الیکشن میں بعض کونسلروں نے دو، دو کروڑ خرچ کرڈالے۔ یہ روپیہ وہ کیسے واپس لیں گے؟ حیرت سے طالب علم نے سوال کیا۔ اس نے بتایا: روپے کی انہیں حاجت نہیں، ان میں سے اکثر صنعت کار ہیں مگر سٹیشن کمانڈر سے شناسائی اور اس سے ہاتھ ملانے کی مسرت۔ صدیاں گزر گئیں اور کچھ بھی نہیں بدلا۔ وہی احساسِ کمتری، وہی خوئے غلامی، وہی احساسِ عدم تحفظ، وہی دکھاوا اور ریاکاری۔ علم اور اخلاقی تربیت کے بغیرجمہوریت کیا ہے؟ دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری