احمد فراز چین میں تھے۔ چند دوست ساتھ بیٹھے تھے۔ مسعود اشعر نے پیالی اٹھائی چائے کا ایک گھونٹ لیا او ربرا سا منہ بنا کر پیالی میز پر رکھ دی‘ اس میں تو چینی نہیں ہے۔ فراز بولا:سامنے اتنے چینی پھر رہے ہیں‘ کسی کو اٹھا کر ڈال لو۔ ٭٭٭ اچھے دنوں میں جب وطن عزیز میں بڑے بڑے شاندار مشاعرے ہوا کرتے تھے۔ ایک ایسے ہی مشاعرے کا ذکر کرتے ہوئے مشہور شاعر سید ضمیر جعفری نے بتایا:پہلا مشاعراتی فقرہ ہم نے احمد فراز کے ایبٹ آباد سے ایک مشاعرے میں سنا۔ حفیظ جالندھری صاحب اپنی طویل نظم ’’رقاصہ‘‘ سنا رہے تھے۔ نظم ختم ہونے ہی میں نہیں آ رہی تھی تو اچانک فراز کی آواز ابھری:حفیظ صاحب‘ اٹھترواں شعر پھر سے ارشاد ہو۔اکتائے ہوئے سامعین نے اس شفقرے سے محفوظ ہو کر بھرپور قہقہ لگا دیا۔ ٭٭٭ ایک دفعہ جون ایلیا نے اپنے بارے میں لکھا کہ میں ناکام شاعر ہوں۔ اس پر مشفق خواجہ نے انہیں مشورہ دیا:جون صاحب‘ اس قسم کے معاملات میں احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ یہاں اہل نظر آپ کی دس باتوں سے اختلاف کرنے کے باوجود ایک آدھ بات سے اختلاف اتفاق بھی کرسکتے ہیں۔ ٭٭٭ اورینٹل کالج لاہور میں انور مسعود فارسی کے طالب علم تھے‘ ان کی کلاس کے پروفیسر وزیرالحسن عابدی نے ایک دفعہ چپڑاسی کو چاک لانے کو کہا۔ چپڑاسی نے بہت سے چاک جھولی میں ڈالے اور لے کر حاضر ہوگیا۔ اس سے پہلے کہ کوئی کچھ کہتا۔ انور مسعود شرارتی لہجے میں بولے:سر! دامن صد چاک‘ اسی کو کہتے ہیں۔ ٭٭٭ ایک محفل میں ایک صاحب کافی دیر سے اپنی تعریف میں باتیں کر رہے تھے۔ باتیں کرتے کرتے انہیں اپنا ماضی بے اختیار یاد آیا‘ فرمانے لگے: ہمارے بچپن کا زمانہ بھی کیا سستا زمانہ تھا۔ دایا بچہ جنوا کر تھوڑا سا گڑ اور آٹھ آنے لے کر خوش ہو جاتی تھی۔ مشفق خواجہ پچھلی صف میں بیٹھے یہ باتیں سن رہے تھے۔ یہ جملہ سنتے ہی ان صاحب سے یوں گویا ہوئے۔اور آٹھ آنے میں بچے بھی آپ جیسے ہی پیدا ہوتے تھے۔یہ سنتے ہی پوری محفل زعفران زار بن گئی۔ ٭٭٭ کراچی کی ایک طرحدار خاتون کا فون آیا۔ میں آپ سے ملنے کے لیے گھر آنا چاہتی ہوں۔مت آئیے۔کیوں؟میری بیوی کو اعتراض ہوگا‘ یہ بات ہے تو میں اپنے خاوند کے ساتھ آ جاتی ہوں۔اس پر مجھے اعتراض ہوگا۔ ٭٭٭ حفیظ جالندھری پہلی بار حج کرنے کے بعد واپس آئے تو ان کے چہرے پر ریش دراز کا اضافہ ہو چکا تھا‘ کسی مشاعرے میں ان کایہ حلیہ دیکھ کر سوہن لال ساحر کپور تھلوی نے داڑھی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا:کیوں خان صاحب‘ یہ شاہنامہ اسلام کا تازہ ایڈیشن ہے؟ ٭٭٭ مشفق خواجہ سے ایک شاعر موصوف نے اپنے بے ربط و بے بحر مسودہ شاعری پر رائے حاصل کرنے کے لیے اخلاقی سماجی دبائو برتا تو مشفق خواجہ نے بادل نخواستہ مسودہ پر مسودہ پر تحریر کیا کہ جو لوگ کتاب نہیں پڑھتے یہ کتاب ان کے لیے مفید ہے۔ ٭٭٭ پروفیسر صوفی غلام مصطفی تبسم استادوں کے استاد تھے۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں فارسی پڑھاتے تھے۔ جہاں احمد شاہ پطرس بخاری پرنسپل تھے۔ایک مرتبہ بخاری صاحب کسی کلاس میں گئے۔ صوفی تبسم کے صاحبزادے بھی کلاس روم میں بطور طالب علم موجود تھے۔ فارسی شاعری پر کوئی بات چلی تو پطرس بخاری نے پوچھا‘ تم لوگوں کو فارسی کون پڑھاتا ہے؟ صوفی صاحب کے صاحبزادے نے فخریہ بتایا کہ ’’ابا‘‘ پڑھاتے ہیں۔ بخاری صاحب نے کہا‘ اونوں تے آپ فارسی نئیں آوندی تہانوں کی پڑھائے گا؟ بات فارسی کے مستند استاد کے بارے میں اس کے بیٹے سے کہی جا رہی تھی‘ خیر بات آئی گئی ہو گئی۔ کچھ عرصے بعد صوفی صاحب کا بخاری صاحب سے آمنا سامنا ہوا تو صوفی صاحب نے گلہ کیا‘ یار بخاری‘ گل تے تیری سچ اے‘ پر بچیاں نوں اے گلاں نئی دسی دیاں۔ ٭٭٭ پطرس بخاری اور حفیظ جالندھری اکٹھے سفر کر رہے تھے کہ ایک اسٹیشن پر ایک دوست اسی ڈبے میں داخل ہوئے جس میں وہ دونوں پہلے سے موجود تھے۔ پطرس نے یہ کہہ کر حفیظ کا تعارف ان سے کروایا‘ آپ ہیں ہندوستان کے نامور شاعر فردوسی اسلام‘ مصنف شاہنامہ اسلام‘ نغمہ زار اور سوز و ساز حضرت ابوالاثر حفیظ جالندھری۔اس دوست نے انتہائی عالم اشتیاق میں ہاتھ بڑھا کے ان سے مصافحہ کرتے ہوئے کہا‘ اچھا آپ جالندھر کے رہنے والے ہیں۔ السلام علیکم! ٭٭٭ ایک دفعہ محمد دین تاثیر نے ہری چند اختر سے پوچھا‘ یار پنڈت سنا ہے تو حفیظ کا شاگرد ہے۔اختر صاحب نے کہا‘ ہاں یہ بات تو صحیح ہے۔ تاثیر نے برجستہ کہا‘ میں تو تیری بڑی عزت کرتا تھا۔ ٭٭٭ خواجہ دل محمد اسلامیہ کالج لاہور میں حساب کے پروفیسر تھے۔ لاہور میونسپل کارپوریشن نے کالج کے پیچھے والی سڑک کا نام ان کے نام پر خواجہ دل محمد روڈ رکھ دیا تھا۔ ہری چند اختر ایک دن کچھ دوستوں کے ساتھ گزر رہے تھے‘ ان کی نظر سڑک پر گئی جس پر خواجہ دل محمد روڈ لکھا ہوا تھا۔ فوراً دوستوں سے مخاطب ہو کر بولے‘ یار عجیب بات ہے ہم تو خواجہ دل محمد کا تخلص ’’دل‘‘ سمجھے ہوئے تھے لیکن ان کا تخلص تو ’’روڈ‘‘ ہے۔ ٭٭٭ انور صابری کے بارے میں مشہور تھا کہ انہیں جھوٹ وضع کرنے کی عادت ہے۔ ایک دفعہ علی گڑھ سے واپسی پر ایک قبر کے سامنے سے گزرتے ہوئے انہوں نے و علیکم السلام کہا تو ساتھ کے دوستوں نے پوچھا کہ آپ نے کس کو سلام کا جواب دیا ہے؟اس پر انہوں نے بتایا کہ اس قبر میں ہمارے سلسلے کے بزرگوں میں سے کوئی صاحب دفن ہیں۔ میں نے ان کے سلام کا جواب دیا ہے۔ دہلی پہنچنے پر ساتھ والے لوگوں نے گوپال متل صاحب سے ذکر کیا کہ دیکھئے‘ صابری صاحب کس قدر جھوٹ بولتے ہیں۔ علی گڑھ میں جس قبر کا ذکر وہ کر رہے تھے وہ تو ایک انگریز کے کسی کتے کی قبر ہے۔ اس پر گوپال متل صاحب کہنے لگے‘ آپ جو فرما رہے ہیں بالکل بجا لیکن آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ انور صابری جھوٹ بول رہے ہیں؟ ٭٭٭ ایک بار کسی تھانے میں مشاعرے کا اہتمام کیا گیا۔ کسی وجہ سے صدر مشاعرہ تشریف نہ لا سکے تو منتظم مشاعرہ نے شوکت تھانوی سے کرسی صدارت پر تشریف فرمانے کی درخواست کی۔ شوکت تھانوی نے ماٹک پر آ کر کہا‘ مجھے معلوم تھا کہ تھانے میں آپ کسی تھانوی ہی کو صدر بنائیں گے۔ یہ سننا تھا کہ ساری محفل لالہ زار بن گئی۔