سانحہ سیالکوٹ ہمیں کئی باتیں بتاتا، سمجھاتا اور بہت کچھ ٹھیک کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ ایسے سبق جو برسوں سے ہمارے سامنے ہونے کے باوجود ہمیں سمجھ نہیں آ رہے تھے۔ اب بہرحال وہ کرسٹل کلیئر ہیں۔ شفاف مگر بدصورت حقیقتوں کی شکل میں ۔ چند چیزیں فوری کرنا ہوں گی۔سب سے اہم کہ اس طرح کابھیانک واقعہ مستقبل میں نہ ہونے پائے۔ یہی اہم ترین ٹاسک ہے۔ اس کے لئے مگر اپنے اوپر اوڑھا ہوا بے نیازی اور تجاہل عارفانہ کا لبادہ اتار پھینکنا ہوگا۔ انگریزی اصطلاح میں Denial (انکار) کی کیفیت سے نکلنا ہوگا۔ ہمیںسماج کے اندر موجود گھٹن، شدت اور خوفناک حد تک پہنچی عدم برداشت کو تسلیم کرنا ہوگا۔ جب غلطی ہی نہ مانیں تو وہ کبھی درست نہیں ہوگی۔ ہمارے اندراس عدم برداشت، عدم رواداری ، تلخی اور غصے کی مختلف سطحیں اور پرتیں ہیں۔ اس کی جھلک سیاست میںہے، عام معاشرتی رویوںمیں بھی اور مذہبی حوالے سے بھی یہی ردعمل ملتا ہے۔ بات بات پر دوسروں کے خلاف فتویٰ لگا دینا، معمولی سی بات پر تکفیر تک پہنچ جانا، مخالفوں پر وہ لیبل چسپاں کر دینا جس کے بھیانک مضمرات برآمد ہوں۔ یہ سب روٹین کی پریکٹس بن گئی ہے۔ اب مذہب کارڈکے استعمال کوہر حال میں بند کرنا ہوگا۔ مخالفوں پر مذہبی حوالے سے حملہ کرنے کی قطعی ممانعت ہونی چاہیے۔ بغیر تحقیق اور ثبوت کے کوئی الزام نہ لگایا جائے۔ ایسا کرنے والے کو سخت ترین سزائیں ملیں تب ہی روک ٹوک ہوسکے گی۔زبانی کلامی ملامت کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہونا۔ یہ بات بھی ماننا ہوگی کہ مذہبی عدم برداشت اور شدت کا حل مذہبی حلقے نہیں نکال سکتے۔ وہ بری طرح ناکام ہوچکے ہیں۔ ہم نے بارہا دیکھا کہ وہ روایتی عصبیتوں اور اپنے حلقے میں پزیرائی کھونے کے خوف سے جرات مندانہ موقف نہیں اپنا سکتے۔ عوامی دبائو کے نتیجے میں کسی ناپسندیدہ واقعے کی مذمت کرنا پڑے تب بھی کئی اگرمگر چونکہ چناچہ لگا کر گول مول بات کی جاتی ہے۔ مذہبی حلقوں سے مشاورت ضرور ہونی چاہیے ، مگر یہ کام ریاست اور ریاستی اداروں نے کرنا ہے۔ مذہبی حلقوں، مذہبی سیاسی جماعتوں، مدارس کی قیادت وغیرہ اس کا بوجھ اٹھانے کے لئے تیار نہیں۔ البتہ انہیں اعتماد میں لے کر چلنا چاہیے ۔ریاست یہ بوجھ اٹھا سکتی ہے خاص کر اگر حکمت اور تدبر سے آگے بڑھا جائے۔ سانحہ سیالکوٹ نے پوری قوم کو دہلا کر رکھ دیا ہے۔ اتنی سنگدلی، درندگی اور جنونیت کا کسی کا اندازہ نہیں تھا۔ اس کی ہر جگہ سے مذمت کی گئی۔ مذہبی حلقوں سے بھی بعض توانا آوازیں اٹھی ہیں۔ مفتی تقی عثمانی صاحب نے واضح الفاظ میں اس کی مذمت کی اور سخت موقف اپنایا۔ مولانا طارق جمیل کاموقف بھی واضح اور مضبوط تھا، سراج الحق صاحب نے دو ٹوک بات کی۔ بعض دیگر مذہبی گروہوں نے بھی جرات سے درست بات کی۔ مولانا فضل الرحمن اور مفتی منیب الرحمن نے اگرچہ مذمت کی، مگر بہت سے لوگوں کو ان کا موقف دو ٹوک اور سخت نہیں لگا۔ مولانا فضل الرحمن کو فسادیوں اور قاتلوں کے خلاف زیادہ سخت موقف اپنانا چاہیے تھا، یہی امید مفتی منیب صاحب سے بھی تھی۔ سوشل میڈیا پر اس سانحے کے حوالے سے بے شمار تحریریں ، پوسٹیں لگیں۔ مجھے احساس ہوا کہ لوگ اس کی مذمت کر رہے ہیں، سخت تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں، مگر نادانستگی میں ان کا بیانیہ درست نہیں۔ مثال کے طور پر بعض ملفوف یا ’’محفوظ‘‘ مذمتی تحریروں، بیانات میں یہ کہا گیا کہ انسان کو جلانے کی سزا صرف خداتعالیٰ کا حق ہے ، ایسا کرنا غلط ہے وغیرہ وغیرہ۔ تکنیکی اور اصولی طور پر یہ بات درست کہی گئی، مگر اس سے یہ تاثر ملا جیسے صرف جلانے کے فعل کی مذمت کی گئی، حالانکہ اصل گناہ اور جرم توقتل ہے۔ اسی طرح بعض لوگوں نے اپنی طرف سے تحریروں میں جذباتیت پیدا کرنے کی خاطر بار بار لکھا کہ سری لنکن عوام کا پاکستان سے اتنا محبت کا تعلق ہے، پاکستان کو سب سے زیادہ آنکھوں کا عطیہ سری لنکا سے ملتا ہے وغیرہ وغیرہ ، مگر ہم نے دیکھیں ان کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ بات یہ بھی اپنی جگہ درست ہے، مگر اس میںبنیادی نکتہ کو نظرانداز کیا گیا ۔ اصل جرم جس کی مذمت ہونی چاہیے وہ ایک انسان کا قتل ہے۔ اگر سری لنکا جیسے دوست ملک کے بجائے کوئی ناپسندیدہ ملک کا باسی ہوتا تو کیا اس کا قتل جائز ہوجاتا؟ ظاہر ہے نہیں۔ اسی لئے فوکس قتل کی مذمت پر ہونا چاہیے ۔ مقتول سری لنکن کے کولیگز وغیرہ نے اس کی ایمانداری، محنت اور اچھے کنڈکٹ کی تعریف کی۔ ایسا ہی کرنا چاہیے۔ بعض سوشل میڈیا پوسٹوں میں اس پہلو پر زیادہ زور دیا گیا۔ یہاں بھی وہی غلطی ہوئی ۔ اگر کوئی مینجر بددماغ یا سخت یا بدتمیز ہوتا ، تب بھی اس کا قتل ناجائز تھا۔ اسی طرح اس کیس میں تو واضح ہوچکا ہے کہ الزام ہی غلط اور بے بنیاد ہے اور توہین سرے سے ہوئی ہی نہیں۔ یہ تو خیر صریحاً ظلم اور زیادتی ہوئی ۔ خدانخواستہ کسی کیس میں کوئی بدبخت دریدہ دہن اگر توہین کا مرتکب ہوتا تب بھی یہ واضح ہے کہ قانون اپنے ہاتھ میں لینے کے بجائے معاملے کو عدالت کے سپرد کیا جائے۔ یہی شرعی ، قانونی اور اخلاقی طریقہ ہے۔ قانون ہاتھ میں لے کر کسی بھی الزام کا خود فیصلہ کرنا اور پھر سزا پر عمل درآمد کرنے کا حق کسی ہجوم ، گروہ یا تنظیم کو نہیں۔ عدالت ہی کو یہ حق اور اختیار ہے کہ وہ کسی کی زندگی ختم کرنے کا فیصلہ کرے۔ مولانا فضل الرحمن، مفتی منیب اور بعض دیگرافراد نے اپنے بیانات میںمطالبہ کیا کہ توہین رسالت کے قانون پر سختی سے عمل کیا جائے اور جنہیں سزائیں سنائی گئیں، انہیں عملی جامہ پہنایا جائے۔ یہ درست مطالبہ ہے، ہر مسلمان ، ہر پاکستانی اس کی حمایت کرے گا۔ قوانین پر جب اچھے طریقے سے عمل درآمد ہو، تیز رفتارانصاف ملے اور مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے تو پھر عوام کے اعتماد میں اضافہ ہوتا ہے ۔ یہ بات اپنی جگہ مگر اس کے باوجود توہین رسالت کا قانون بہت طاقتور اور مضبوط قانون ہے، اس کی اپنی ہیبت اور دبدبہ ہے اور یہ اس ناپسندیدہ فعل کو روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔یہ مطالبہ ضرور کرنا چاہیے کہ جنہیں سزائیں ملی ہیں ان پر عمل درآمد ہو اور کیسز کا ٹرائل تیز کیا جائے تاکہ قانون زیادہ نتیجہ خیز نکل سکے۔ ایسا مگر نہیں کہ کوئی ہجوم اس بات کی آڑ لے کر قانون ہاتھ میںلے لے۔اس لئے کہ ایسا نہیں کسی پر اس قانون کے تحت مقدمہ ہو او روہ جلد آزاد ہو کر دندناتا پھرے۔ ایسابھی اندھیر نہیں ۔ یہ بات عام آدمی کو سمجھانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ فتنہ پرداز لوگوں کے بھڑکانے سے متاثر نہ ہوں۔ اہم ترین معاملہ وہی ہے کہ برداشت اس قدر کم ہوچکی ہے کہ ہر کوئی مذہبی معاملات میں بات کرتے ڈرنے لگا ہے۔ ایک دوست سے گزشتہ روز بات ہو رہی تھی، وہ مذہبی آدمی ہیں اور باقاعدہ قسم کی مذہبی شناخت رکھتے ہیں، خود کو اعلانیہ رائٹسٹ کہلاتے ہیں۔ کہنے لگے کہ دوستوں کے ایک واٹس ایپ گروپ میں وہ شامل ہیں جہاں زیادہ تر مذہبی لوگ ہیں، مدارس سے فارغ التحصیل علما، مذہبی ایشوز پر لکھنے والے اہل قلم،سنجیدہ اہل علم ۔ کلوز گروپ ہے، ہر کوئی اس کا ممبر نہیں بن سکتا۔ وہ بتانے لگے کہ اس کے باوجود پچھلے چند ماہ میں کئی بار ایسا ہوا کہ کسی حساس مذہبی معاملے میں بحث ہوئی تو بعد میں سب نے اپنے کمنٹس ڈیلیٹ کر دئیے کہ کہیں ان کا کمنٹ باہر فیس بک پر لگ جانے سے فتنہ پیدا نہ ہوجائے۔ بڑی دل گرفتی سے ان صاحب نے بتایا کہ حالات اس قدر خطرناک ہیں کہ معروف مذہبی لوگ بھی کوئی واضح پوزیشن لیتے گھبراتے ہیں کہ کہیں منفی فتویٰ ہی نہ چسپا ں کر دیا جائے اور پھر جان بچانا محال ہوجائے۔ یہی ہمارا المیہ ہے کہ سماج کی حقیقی صورتحال یہ ہے ، مگر ہم اسے تسلیم اور ٹھیک کرنے کے لئے تیار نہیں۔ اسی وجہ سے سانحہ سیالکوٹ جیسے خوفناک واقعات بار بار ہو رہے ہیں۔ انہیں روکنا ہے تو بنیادی فیصلے کرنے اور بنیادی چیزیں درست کرنا ہوں گی۔